بلوچستان میں تبدیلی و ترقی کا لائحہ عمل

1,101

پانامہ تحقیقات کے عدالتی فیصلے کے بعد ملک میں جس طرز کا سیاسی خلاءیا عدم استحکام ابھرا تھا، گو کہ آئینی تسلسل پہ گامزن رہنے کی گنجائش نے اس پر فوری قابو پانے میں مدد دی تھی اورنئے وزیراعظم اور کابینہ کے حلف اٹھانے سے جمہوری حاکمیت کا تاثر بر قرار رہا تھا ۔ تاہم ان وقوع کے بطن سے ایک نئے واقعہ نے بھی جنم لیا تھا ۔ میاں نواز شریف نے بعض وجوہ کی وجہ سے وزارت خارجہ کا قلمدان اپنے ہی پاس رکھا تھا ۔ جس پہ ناقدین کہتے رہے کہ ملک میں کوئی کل وقتی وزیر خارجہ ہی نہیں یہ پھبتی نواز شریف حکومت کے نقائض بیان کرنے کیلئے کسی جاتی تھی لیکن جب میاں نواز شریف جوکہ مسلم لیگ کے قائد بھی ہیں وزیراعظم نہ رہے تو شاید انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب وزیر خارجہ کا قلمدان بھی کسی دوسرے ساتھی کو سونپ دیں۔ اس طرح خاقان عباسی کی ذمہ داریوں میں تخفیف کے علاوہ نا قائدین کا منہ بند ہوجائیگا ۔لیکن اس تبدیل شدہ پالیسی کا ایک واضح مقصد یہ تھا کہ اب جبکہ وہ وزیراعظم نہیں رہے تو وہ مفاہمت بھی برقرار نہیں رہی جو عمران خان کے دھرنا اول کے آغاز میں اپنائی گئی تھی ۔ اس انحراف کا سبب شاید یہ تھا کہ نواز شریف کو نااہل قرار دینے کے سارے عمل کے عقب نیز سر پرستانہ کردار میں عسکری ادارے کے معلوم شدہ سائے لہراتے رہے ہیں ۔سابق وزیر دفاع کو وزیر خارجہ بنانے کی غرض و عنایت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ خارجہ حکمت عملی کا براہ راست تعلق ملک کی سلامتی کے امور سے ہوتا ہے، چنانچہ ایک ایسے فرد کو خارجہ امور کی ذمہ داری سونپی جائے جو دفاعی معاملات اور محکمہ کی داخلی نزاکتوں اورحساسیت سے بھی آگاہ ہو، فکری و نظری اعتبار سے مسلم لیگ یا میاں نواز شریف کے خیالات سے بھی آگاہ اور متفق ہو ۔ چنانچہ نئی کابینہ کو اولین چیلنج جس کا تعلق ملکی خارجہ امور سے تھا ۔ٹرمپ کی جنوب ایشیاءسے متعلق نئی خارجہ حکمت عملی تھا ۔جس کاکامیابی دانائی اور دور رس بصریت سے تدارک کرنا تھا ۔ ٹرمپ پالیسی کے اعلامیہ کی سیاہی خشک بھی نہیں ہوتی تھی کہ ہمارے دیرینہ دوست اور ہم دم چین نے اس کی سفارتی لہجے میں مخالفت کی جسے پنڈی و اسلام آباد نے اپنے لئے ضمانت سے تعبیر کرنے کی خوش فہم غلطی کا ارتکاب کیا ۔ چین خطے میں امریکی کردار کی بڑھوتری کا مخالف ہے لیکن دہشت گردی کی موجودگی اس کے تسلسل و خدشات کا اتنا ہی مخالف جتنا امریکا یا دیگر تمام دنیا، پھریوں ہوا کہ بیجنگ میں ہوئے برکس اجلاس کی قرار داد نے ہماری خوش فہمیوں کے سفینے ڈبو دیے ۔قبل ازیں جارحانہ انداز بیان کی حامل  غیرت بریگیڈنے اخباری بیانات اور برقی ذرائع ابلاغ کے سہارے امریکہ کو سبق سکھانے اور ڈٹ جانے کاحجابدانہ درس دینا شروع کر رکھا تھا ۔برکس اعلامیہ نے اس شورو غوغا کے غبارے میں البتہ سوراخ کردیا تو مقتدارحلقے شہراختیارکی راہداریوں میں سراسیمگی نظر آنے لگی ۔ انہی ایام میں وزیر خارجہ کو امریکہ کا دورہ منسوخ کرنے کا ایک” صائب“ مشورہ بھی دیا گیا ۔ تاہم یہ مشورہ نقش بر آب ثابت ہوا اور تب وزیر خارجہ کو دوست ممالک میں پائی جانے والی غلط فہمیاں دور کرنے کیلئے رابطے کرنے کا عندیہ ملا۔وزیراعظم عباسی بھی اسی اثناءمیں ریاض کی یاترا پہ تشریف لے گئے جہاں کوشش کے باوجود انہیں مناسب پزیرائی نہ مل سکی ۔

نئی امریکی حکمت عملی کی بنیادہی “غلط یا صحیح  ” کے مفروضے پر مبنی ہے کہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں ایسے محفوظ ٹھکانے ہیں جہاں سے مسلح حملہ آور یا افغان طالبان افغانستان میں داخل ہوکر کارروائیاں کرتے اور واپس چلے جاتے ہیں نیز یہ کہ حکومت پاکستان اپنی جغرافیائی حدود میں موجود مسلح گروہوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائیوں سے گریز کرتی ہے، واشنگٹن نے حقانی نیٹ ورک اور چند دیگر مسلح گروہوں کا نام بھی لیا۔ اس کے برعکس پاکستان کا نقطہ نظر واضح طور پر مختلف ہے،حکومت اس الزام کی تردید کرتی ہے ۔اس کا سارا استد لالی زور ان نقصانات اور افراد کی شہادتوں پر ہوتا ہے جو گزشتہ ایک دہائی میں بالخصوص وقوع پذیر ہوئی ہیں۔ چنانچہ حکومت پاکستان کو دنیا کے سامنے ایسی ریاست و معاشرت کے طورپر پیش کرتی ہے جو از خود دہشت گردی کا ہدف ہے، اس کے شہر ،گاں اور دفاعی تنصیبات بھی دہشت گردوں کے ہاتھوں نا قابل تلافی نقصان اٹھا چکی ہیں ۔لہٰذا پاکستان دہشت گردوں کا محفوظ ٹھکانہ نہیں بلکہ دہشت گردوں کا اعلانیہ و عملی ہدف ہے ۔بلا شبہ واقعات اس بیانیے کی تائید کیلئے ثبوت مہیا کرتے ہیں تاہم دیانتدارانہ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی مذکورہ بیانیہ پاکستان میں درپیش صورتحال کا مکمل و کما حقہ احاطہ کرتا ہے ؟

دنیا کے اہم طاقت کے عالمی مرکز اس کو مکمل سچ سمجھتے اور تسلیم کرتے ہیں  یا جو کچھ وہ کہتے ہیں اسے جھٹلانے کیلئے ہمارے پاس بھی ٹھوس شواہد و ثبوت موجود ہیں ؟ کیا دنیا بھر میں ہمارے دوست اور مخالف جوالزامات عائد کرتے یا تسلیم کرتے ہیں وہ ہوائی باتیں تھیں ؟یا ان کے پاس اپنے کہے ہوئے الفاظ کو ثابت کرنے کیلئے شواہد بھی موجود ہیں ؟ یہ وہ مخمصہ ہے جس میں ایسا دھندلاعلاقہ کہوں گا جیسے دھندلاھٹ سے نکالے بغیر معاملات کو نہ درست کیا جاسکتا ہے اور نہ اپنا موقف ہی تسلیم کرایا جاسکتا ہے۔ میری خوش فہمی ہے کہ وزیر خارجہ کا قلمدان سنبھالنے کے بعد خواجہ محمدآصف نے عالمی رہنماں اور مختلف فورموں پر جو کچھ کہاہے اسے دھند لکے کو ختم کرنے کا نقطہ آغاز سمجھ کر سراہنا چاہئے کیونکہ کم و بیش یہی کچھ عملاً افواج پاکستان اور اس کے محترم سپہ سالا ر کہہ رہے ہیں کہ پاکستان نے آپریشن رد الفساد کے ذریعے اپنے ملک میں دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے ان کے ٹھکانے ختم یا تباہ کردیئے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ

کیا مذکورہ کارکردگی کا اظہار کرتے ہوئے ہم فخر یہ طور پر سہی مگر بین السطور میں یہ بات بھی تسلیم نہیں کررہے ہوتے کہ پاکستان میں دہشتگردوں کا نیٹ ورک موجود ہے۔ یہاں ایسے مقامات ،ادارے ، سیاسی، مذہبی ،افراد و تنظیمیں موجود ہیں جو دہشت گردی کے مرتکب یا مربی ہونے پر فخر کرتے ہیں؟ چنانچہ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ جب ہم اپنے ملک میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت جاری دہشت گردی کے خاتمے کیلئے وسیع ملٹری آپریشن کررہے ہیں اور اس سب کچھ کے باوجود ملک سے دہشتگردی ختم نہیں ہورہی تو دنیا اس کے اسباب کی تو ضیح اور وجوہات کا تعین اپنے نقطہ ہانے نظر سے ہی کرے گی ۔

80 کی دھائی کے برعکس آج کی دنیا کا نقطہ نظر بہت مختلف ہے، اسی کی دہائی میں وہ اور ہم سب ہم آواز تھے ۔ آج ہم تنہا ملک اور چاہتے ہیں دنیا آج بھی ہماری ہمنوائی کرے تو ایسا ہونا ممکن نہیں ہوگا ہمیں دنیا کو بدلنے کا نا ممکن لائحہ عمل اختیار کرنے کی بجائے خود کو بدلنے کا ممکن العمل راستہ اختیار کرنا ہوگا ۔

وزیر خارجہ کے بیانات میں جن افراد اور تنظیموں کو ملکی سلامتی ، استحکام اور امن وامان کیلئے بوجھ کہا گیا ہے اسے خارجہ حکمت عملی کے پیرا ڈائم ہیں مثبت آئیڈیل کے طور پر دیکھتے ہوئے تائید کرنے کی بجائے جب ہمارے ذرائع ابلاغ اپنے وزیر خارجہ کو ملک دشمن قرار دیتے ہیں تو در اصل وہ دنیا کے ان شکوک و شہبات اور الزامات کی تائید کرتے ہیں جو پاکستانی پالیسیوں پر اہم دارالحکومت کی طرف سے عائد کئے جاتے ہیں یعنی پاکستانی کہتے کچھ مگر کرتے کچھ اور ہیں امریکہ متعدد بار ہمیں دوغلی پالیسی کا طعنہ دے چکا ہے۔

بنیادی سوال یہ ہے کیا پاکستانی حکومت اور عوام دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے حامی ہیں؟ اگر اس کا جواب مثبت ہے تو پھر گھر کی صفائی والے بیانیے کو قومی بیانیہ بنایا جائے۔بلا شبہ یہ بات درست ہوسکتی ہے کہ سطور بالا میں پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے جن ٹھکانوں کا ذکر ہوا انہیں محفوظ ٹھکانے نہیں کہا جاسکتا کہ امر واقعہ ہے کہ امن وامان قائم کرنے والے ادارے ان کی بیخ کنی پہ کمر بستہ ہیں ۔ یہ دلیل معقول ہے تاہم بنیادی مسئلہ مختلف ہے اول تو دہشت گردی کی تو جیحات کیلئے مثبت دلائل کا طومارہمارے ذرائع میں موجود ہے ثانیاً غیر ملکی ایجنسیوں اور ان کے کارندوں کی موجودگی بھی پیچیدہ مسئلہ ہے اسلام آباد افغان بحران کے حل کیلئے چین اور ماسکو کے ساتھ مشاورت کے ذریعے کابل کے حکمران طبقہ سے براہ راست بات چیت کرے تو معاملات میں اتفاق رائے اور ہم آہنگی کی نمو ممکن ہوسکتی ہے ۔اگر ہم افغان بحران کے حل کے دوران افغانستان میں بھارت کے کردار کے تعین پر اصرار کرینگے تو اس سے نئی دہلی کو اپنی جارحانہ حکمت عملی کی افادیت کی تائیدی شہادت ملتی ہے۔ نیز یہ موقف دو آزاد خود مختار ممالک کو باہمی تعلقات قائم کرنے کیلئے عالمی حق پر قدغن کے طور پر سامنے آتا ہے۔ شاید یہی سبب ہو کہ افغان بحران کے حل کیلئے ہمارے نقطہ نظر کو قبولیت نہ مل پارہی ہو ۔

 

بلوچستان کے عوام افغان بحران کے خاتمے سے کئی حوالوں سے فکری دلچسپی رکھتے ہیں گوادر بندر گاہ کی فعالیت کی راہ میں بڑی رکاوٹ مقامی سطح پر موجود بدامنی کی فضاءاور عالمی طاقتوں کی مخاصمت کی آماہ جگاہ بننے کی بنا پر اہل بلوچستان افغان مسئلہ کے حل کو خطے میں قیام امن استحکام اور ترقی کیلئے نا گزیر تصور کرتے ہیں ۔ ثانوی اعتبار سے پر امن افغانستان ہی صوبے میں موجود افغان مہاجرین کی آبرومندانہ طور پر اپنے وطن واسپی کی راہ ہموار کرتا ہے نیز اس مسئلہ کے حل سے خطے میں موجود دیگر مسائل جو عدم استحکام کا سبب بنتے ہیں پر امن طور پر حل ہونے کا راستہ ہموار ہوسکتا ہے جو ملک میں منتخب پارلیمانی جمہوری آئینی بالادستی پر منتج ہوگا۔ چنانچہ بلوچستان کے عوام کی اکثریت خواجہ محمد آصف کی ہمنوا اور تائید کنندہ ہے ۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...