غربت اور غلامی: خاتمہ کیسے ہو

ذیشان ہاشم

2,301

اردو میں اگر کوئی کتاب معاشیات یا سماجی علوم پر نظر آئے تو پہلا گمان یہ ہوتا ہے کہ یہ کسی انگریزی کتاب کا ترجمہ ہوگا۔ اگر کوئی طبع زاد کتاب ہو تو یقیناً حیرت ہوتی ہے۔ سماجی اور معاشتی امور کے ماہر ذیشان ہاشم کی کتاب ’’غربت اور غلامی: خاتمہ کیسے ہو؟‘‘ حیران بھی کرتی ہے اور ایک خوشگوار احساس بھی دلاتی ہے کہ اردو زبان ادب، مذہب اور فلسفے کے علاوہ سماجی اور معاشی تحقیقی موضوعات کے ابلاغ کی بھی متحمل ہوسکتی ہے۔ ذیشان ہاشم نے جس سہل انداز میں معیشت، سیاست، سماجیات اور آزادیوں سے وابستہ موضوعات کو اپنی کتاب میں پیش کیا ہے وہ ان کے وسیع مطالعے اور تجزیے کی صلاحیت کو تو ظاہر کرتی ہی ہے، ساتھ ہی ساتھ اردو کے دامن کو بھی نئے موضوعات سے وسیع کرتی ہے۔ ذیشان ہاشم معاشی، سیاسی اور سماجی انتخاب میں آزادی کو ایک نئی بنیادی قدر سمجھتے ہیں اور یہی خصوصیت اس کتاب کو پاکستانی قارئین کو اس موضوع کے نئے تناظر اور بدلتے رجحانات سے متعارف کرواتی ہے۔ قارئین تجزیات کے لیے اس کتاب کے چند اوراق یقیناً پوری کتاب پڑھنے کی تحریک دیں گے۔ (مدیر )

معیشت تین اجزاء کا مجموعہ ہوتی ہے:
-i پیداوار
-ii پیداوار کی تقسیم
-iii معیار زندگی یعنی پیداوار کی کھپت (Consumption)
اس کا اہم ترین اور مقدم حصہ پیداوار ہے جبکہ باقی دو شعبوں کا عمل شروع ہی اس وقت ہوتا ہے جب پیداوار موجود ہو۔ اگر پیداوار ہوگی تب ہی اس کی تقسیم(منصفانہ یا غیر منصفانہ) ہو پائے گی او وہ خرچ بھی تب ہو پائے گی۔ بغیر پیداوار کے نہ تقسیمِ پیداوار(دولت) کا سوال پیدا ہوتا ہے اور نہ اس پیداوار کو خرچ کرنے کا۔
حقیقت میں ایک سماج کی کل پیداوار ہی اس سماج کی آمدن ہوتی ہے۔ اس منفرد دنیا میں آج وہی معاشرے ترقی یافتہ ہیں جن کی پیداوار ترقی یافتہ ٹیکنالوجی پر انحصار کرتی ہے اور حجم میں بہت زیادہ ہے۔ دورِ جدید کی سب سے بڑی قدر بھی پیداوار ہے۔ہر وہ عمل اچھا ہے جس سے پیداوار میں اضافہ ہو، ایسا اضافہ جو لوگوں کی ضروریات پوری کرنے اور انہیں راحت پہنچانے میں معاون ہو، جس کی لوگوں کو طلب ہو۔
اب سوال یہ ہے کہ ایک معاشرہ اپنی پیداوار میں کیسے اضافہ کرے کہ نہ صرف اس سماج کی ضروریات پوری ہوں بلکہ وہ اردگرد کے دوسرے معاشروں کے لیے بھی بہتری کا سامان کر سکے؟ دیکھیے، بے شک ہم آج اس وقت تیسرے صنعتی انقلاب سے گزر کر چوتھے صنعتی انقلاب میں داخل ہورہے ہیں اور ہمارے پاس اعلیٰ درجے کی جدید ترین مشینری ہے جس نے پیداوار کے عمل کو انتہائی تیز رفتار اور کوالٹی میں شاندار بنا رکھا ہے مگر باوجود ان سب بلندیوں کے،اس ضمن میں جو ہمیشہ یاد اور مدنظر رکھنے کے لائق بنیادی نکتہ ہے وہ یہ کہ معاشی عمل کا کلی انحصار ایک سماج کی معیشت میں سرگرم تمام انسانوں کے معاشی فیصلوں اور معاشی سرگرمیوں پر ہوتا ہے۔پیداوار میں اضافہ یا معاشی ترقی کا حقیقی سفر اس وقت شروع ہوتا ہے جب تمام افراد میں محنت،مثبت معاشی فیصلوں اور سرگرمیوں کی تحریک پیدا کی ہو۔یاد رہے کہ ہم انسان اپنی ہی سرگرمی کو سرانجام دینے سے پہلے یہ ضرور سوچتے ہیں کہ اس عمل سے ہمیں فائدہ ہوگا یا نقصان؟ سڑک پار کرتے ہوئے سوائے پاگلوں کے ہر شخص دائیں بائیں اس لیے دیکھتا ہے کہ کہیں سڑک پار کرتے ہوئے کوئی گاڑی اسے کچل نہ دے۔حقیقت یہ ہے کہ شخصی مفادات(سیلف انٹرسٹ) کی جستجو تمام انسانوں کی فطرت کا لازمی جزو ہے۔ایک سماج اس میں بسنے والے تمام افراد کا مجموعہ ہے اور اگر تمام افراد اپنے اپنے معاشی مفادات کی جستجو کریں گے تو یقیناًاس کے نتیجہ میں پورے سماج کو فائدہ ہوگا جسے سوشل انٹرسٹ کہتے ہیں۔ ہر فرد اپنا بہترین ذمہ دار خود ہے اور اس کے علاوہ اور طاقت (ریاست، معاشرہ، خاندان) اس دنیا میں اس کی بہتر ذمہ داری نہیں اٹھا سکتی۔
معاشی عمل میں تیز رفتاری اور ترقی اس وقت آتی ہے جب تمام افراد کو اپنے اپنے شخصی مفادات (سیلف انٹرسٹ) کوPursue کرنے کی آزادی اور فراواں مواقع حاصل ہوں اور وہ معاشی میدان میں اور مقابلہ کی ثقافت میں اپنی اپنیContribution پیش کرنے میں پرجوش ہوں۔ فائدے کا حصول مزید فائدے پر اُکساتا ہے اور نقصان سے عمل میں سستی اور جذبوں میں مایوسی آتی ہے۔ اگر پاکستان تیز رفتار اور مستقل ترقی چاہتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام شہریوں کو معاشی عمل میں شامل کیا جائے اور آزادی و مقابلہ کی ثقافت کو فروغ دیا جائے۔معاشی عمل میں تمام افراد کی شمولیت اور شخصی مفادات کے بنیادی محرک کے بغیر معاشی ترقی کا خواب کبھی عملی تعبیر نہیں پا سکے گا چاہے ہم جتنے بھی بڑے پروجیکٹ لگالیں یا قرضے لیتے پھریں۔
پیداوار میں اضافہ کے لیے ضروری ہے کہ ہم مقابلہ کی ثقافت کو فروغ دیں اس میں تمام انسانوں کی شرکت کو یقینی بناتے ہوئے بہتر نتائج،پیداواری صلاحیت،ذہانت اور دریافت و ایجاد کے منصفانہ انعام یعنی نفع کو یقینی بنائیں۔ یقیناًمحنتی اور باصلاحیت معاشرے وہ ہوتے ہیں جہاں اجارہ داری ناممکن بنا دی جائے،بھیک مانگنے کے عمل(چاہے یہ بھیک افراد سے لی جائے یا ریاست و حکومت سے ویلفیئر کی شکل میں) کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جائے اور تخلیق و دریافت( پیداوار) کو سب سے بڑی قدر سمجھا جائے۔ ہمارا اصل انعام ہماری اپنی محنت ہے اور اگر کوئی مجھ سے زیادہ محنت کرتا ہے اور محنت کا زیادہ انعام حاصل کررہا ہے تو ایسی ثقافت میں مجھے اس سے نفرت نہیں بلکہ آگے بڑھنے اور خود کو بہتر کرنے کی ترغیب و تحریک اور سمجھ بوجھ حاصل کرنی چاہیے۔
آج دنیا کی ترقی یافتہ معیشتیں وہ ہیں جو پیداواری صلاحیت اور پیداواری عمل میں سب سے آگے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکا سالانہ ساڑھے سترہ ہزار ارب ڈالر کی اشیا اور خدمات پیدا کرتا ہے، چین، جاپان اور جرمنی بالترتیب ساڑھے دس ہزار ارب ڈالر،ساڑھے چار ہزار ارب ڈالر اور چار ہزار ارب ڈالر کی اشیاء و خدمات پیدا کرتے ہیں۔ اسی لیے امریکا دنیا کی نمبر ایک،چین دوسری،جاپان تیسری اور جرمنی چوتھی بڑی معیشت ہے۔اس کے برعکس میں ملاوی،برونڈی،سینٹرل افریقن ریپبلک،گیمبیا اور نائیجیریا وغیرہ دنیا میں سب سے کم اشیاء و خدمات پیدا کرتے ہیں اس لیے ان کا ترقی یافتہ ممالک کی درجہ بندی میں سب سے کمتر مقام ہے۔یاد رہے کہ جتنی زیادہ فی کس پیداوار ہوگی اتنا ہی اس معیشت میں فی کس معیار زندگی بلند تر ہوگا۔
اس سلسلے میں ہم چین کی مثال لیتے ہیں، چین میں۱۹۷۹ء سے پہلے سوشلسٹ معیشت تھی، جس کا زور آزاد پیداواری قوتوں کی حوصلہ افزائی اور انھیں فروغ دینے کے بجائے پیداوار کی مصنوعی اور نظریاتی تقسیم پر تھا۔جس کا نتیجہ ہر سال کے قحط تھے جن میں صرف ایک بڑے قحط۶۱۔۱۹۵۸ء میں ساڑھے تین کروڑ اموات ہوئیں۔ ۱۹۷۹ء میں چین مارکیٹ معیشت کی طرف منعطف ہوا اور اس وقت سے آہستہ آہستہ اپنی مارکیٹ کو زیادہ سے زیادہ آزاد اور خود مختار کرتا آرہا ہے۔ اس دوران چین نے اپنی معیشت کا رجحان زیادہ سے زیادہ پیداوار کی طرف مرتکز رکھا،جس کے نتیجے میں پینتیس برس میں چین نے دس فیصد سالانہ سے ترقی کرتے ہوئے اپنی معیشت میں بتیس گنا اضافہ کرکے اسے دنیا کی دوسری بڑی معیشت بنا دیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ان پینتیس برسوں میں چین کے کسی ایک صوبہ میں بھی قحط نہیں آیا اور لوگوں کے معیار زندگی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔آج چین کا ساری دنیا میں نمایاں مقام اس کی مارکیٹ معیشت کی وجہ سے ہے،جس کی پیداواری صلاحیت نے چین کو سیاست اور ثقافت میں بھی نمایاں مقام دیا ہے۔
بالکل یہی داستان مشرقی ایشیا کی ہے۔ جاپان،جنوبی کوریا،سنگا پور،تائیوان وغیرہ نے صنعتی میدان میں پیداواری قوتوں کی مدد سے ہی معاشی ترقی کرکے اقوام عالم میں ایک باعزت اور قائدانہ کردار حاصل کیا ہے۔ ہمارے پڑوس میں بھارت بھی پیداواری قوتوں میں مسلسل اضافہ کے سبب تیز رفتاری سے ترقی کررہا ہے۔ستر کی دہائی میں پاکستان کی معاشی ترقی کو جب ایشیا کے لیے ایک بہترین نمونہ سمجھا جاتا تھا،اس وقت ہماری معیشت بھی قرض،عالمی امداد اور تارکین وطن کے بھیجے جانے والے پیسوں(Remmittences)کی بجائے صنعتی پیداوار ہی پر انحصار کرتی تھی۔ پاکستان چین پر اپنا معاشی انحصار روز بروز بڑھا رہا ہے، ہم۱۹۵۱ء سے۲۰۱۱ء تک۶۸؍ بلین ڈالر کی امداد لے چکے ہیں۔ہم اپنے بجٹ کا ایک بڑا حصہ قرضوں کی ادائیگی پر خرچ کررہے ہیں، اور سالانہ تارکین وطن پاکستانی پندرہ ارب ڈالر سے زائد پاکستان میں بھیج رہے ہیں۔اس کے باوجود ہم ایک اوسط سے بھی کمتر درجہ کی معیشت ہیں، آخر کیوں؟ ہمیں اس سوال پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ آیا ہم ایک ضرورت مند معیشت اور بے بس قوم کی طرح جینا چاہتے ہیں یا ہم دوسری اقوام بشمول چین کی طرح اپنا مقام آپ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔اس سلسلے میں ترقی یافتہ اقوام کی تاریخ سے یقیناًہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
سیلف انٹرسٹ سوشل انٹرسٹ سے متصادم نہیں
اگر سیلف انٹرسٹ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو سوشلسٹ حضرات یا ملا حضرات بیان کرتے ہیں تو آج مغرب تباہ ہو چکا ہوتا کیونکہ وہاں کا مارکیٹ سسٹم اپنی اصل میں فرد کے سیلف انٹرسٹ پر انحصار کرتا ہے۔ جبکہ صورتِ حال ویسی نہیں جیسے ملا و سوشلسٹ حضرات بتاتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ سیلف انٹرسٹ کا اردو ترجمہ لالچ(Greed) غلط کیا گیا ہے۔رومانیت پسندی میں لوگوں کو تبلیغ و تلقین کی جاتی ہے کہ وہ اپنے سیلف انٹرسٹ کو سرنڈر کرکے کسی مفروضہ سوشل انٹرسٹ کی آمریت میں آجائیں۔ایک فرد کو سوائے اس کے کوئی نہیں جانتا اس لیے کسی کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ دوسرے افراد کا مفاد کس چیز میں ہے۔ یوں اپنی آمریت نافذ کرکے لوگوں کو اپنی پسند و ناپسند اور انتخاب کے قبضہ میں لیا جائے۔سوشل انٹرسٹ کبھی نافذ نہیں ہوتے بلکہ یہ سوسائٹی میںDevelop ہوتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مطلق العنانیت اور آمریت نے ہمیشہ اپنے جواز میں سوشل انٹرسٹ کے کسی مفروضہ تصور کو ہی پیش کیا ہے۔اس بارے میں ہٹلر و مسولینی کیا کہتے تھے ملاحظہ فرمائیں:
فرد کے حقوق ہوتے ہی نہیں،اس کے فقط فرائض ہوتے ہیں۔(ہٹلر)
ہماری قوم صرف ایک سادہ اصول سے صحت یاب ہوسکتی ہے۔سوشل انٹرسٹ(سماجی مفادات) کو سیلف انٹرسٹ (انفرادی مفادات)پر ترجیح دی جائے۔(ہٹلر)
یہ اصول کہ سوسائٹی جو لوگوں سے وجود میں آتی ہے،صرف ان لوگوں کی فلاح اور ان کی آزادی کے لیے ہی قائم کی جاتی ہے،فطرت کے منصوبہ سے مطابقت نہیں رکھتا۔اگر کلاسیکل لبرل ازم سے مراد انفرادیت پسندی ہے تو فاشزم سے مراد صرف گورنمنٹ ہے۔(مسولینی)
سیاست میں جمہوریت ہو یا سیکولر زم،سوسائٹی میں تنوع پسندی ہو یا معیشت میں فری مارکیٹ کیپٹلزم،یہ اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتے جب تک افراد کو ان کے ارادے و عمل میں آزاد نہ کردیا جائے کہ وہ اپنے اپنے سیلف انٹرسٹ کو Pursue کر سکیں۔ ہمیں دوسروں کے ذاتی نظام رائے (ویلیو ججمنٹ) کا احترام کرنا چاہیے۔حقیقت یہ ہے کہ مغربی معاشرے آج زیادہ امیر و خوشحال، زیادہ جمہوری، زیادہ متنوع اور زیادہ سیکولر ہیں جس کی وجہ ان میں وقت کے ساتھ ساتھ پنپنے والی انفرادیت پسندی کی اقدار ہیں۔
اور ملٹن فریڈمن نے اسے اپنے خوبصورت الفاظ میں یوں بیان فرمایا ہے۔
“The Only Person who can truly Persuade you is yourself”.
وہ واحد شخص جو آپ کے مفادات حسن نیت اور حسن منصوبہ و نتیجہ سےPursueکرسکتا ہے وہ کوئی اور نہیں صرف آپ ہیں۔
جب ہم کسی پرائیویٹ کمپنی کے ہوٹل میں جاتے ہیں تو کسٹمر ریلیشن آفیسر ہمیں پروٹوکول دیتے ہیں، کوالٹی دیتے ہیں،ان کی کوشش ہوتی ہے کہ جب تک ہم یہاں رہیں ان کی خدمت سے مطمئن رہیں اور آئندہ بھی اس شہر میں قیام کے لیے ان کے ہوٹل کا انتخاب کریں۔اس سلسلے میں قیمت اور کوالٹی کو ترجیحی بنیادوں پر بہتر بنایا جاتا ہے۔یہی صورتِ حال بنک کی سروسز میں بھی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ کسٹمر ریلیشن کی سہولیات و سروسز مارکیٹ کا پروڈکٹ ہیں۔یہ سروسز سوویت یونین اور مشرقی یورپ کے کمیونسٹ ممالک میں نہیں پائی جاتی تھیں اور پرائیویٹ سیکٹر کے علاوہ ہمارے گورنمنٹ سیکٹر میں بھی ان کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔
پاکستان میں اس کی مثال ہمارے ٹیلی کمیونیکیشن سیکٹر میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔جب مارکیٹ پر پی ٹی سی ایل کی اجارہ داری تھی تو اس کا نتیجہ کیا تھا،کم کوالٹی مگر مہنگی سروسز اور ٹیلی فون لائنز کے حصول اور بلنگ(Billing) کے لیے شدید مشکلات تھیں۔جب اس شعبے کو پرائیوٹائز کیا گیا تو اس کے بہتر نتائج بھی ہمارے سامنے آئے۔مارکیٹ کو وسعت ملتی ہے،کوالٹی بہتر اور قیمت میں انتہائی کمی ہوتی ہے،کنکشن کے حصول اور بلنگ کی مشکلات تقریباً صفر ہیں،صارفین زیادہ بہتر سروسز سے مستفید ہورہے ہیں،حکومت کو ٹیکسز کی شکل میں زیادہ فائدہ ہورہا ہے اور مارکیٹ کی وسعت سے روزگار اور لوگوں کی آمدن میں اضافہ ہوا ہے۔

سیلف انٹرسٹ اور سیکھنے کی خوبی
یہاں ہم فرد کے شخصی نظام کو اس کے تجربات(Experiences) کے حوالے سے بھی دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ اس میںLearningیعنی سیکھنے کی خاص خوبی پائی جاتی ہے۔فرد جب ایک تجربہ سے گزرتا ہے تو سیکھتا ہے۔اگر وہ بہتر نتائج پا چکا ہوتا ہے تو اس کی خواہش ہے کہ اگلے تجربہ میں مزید بہتر نتائج برآمد ہوں اور اگر وہ غلط نتیجہ کا سامنا کررہا ہوتا ہے تو وہ حتی الامکان کوشش کرتا ہے کہ اس تجربہ کو دوبارہ نہ دہرائے۔ہمارے معاشی فیصلوں میں یہ خوبی لازمی طور پر پائی جاتی ہے۔ہم ان چیزوں کو زیادہ دلچسپی اور سنجیدگی سے سیکھتے ہیں جن میں ہمارا سیلف انٹرسٹ زیادہ ہو۔
مثال کے طور پر اگر ہم کسی دکان سے کوئی شے مہنگے داموں اور کم کوالٹی کی خریدتے ہیں جبکہ دوسری دکان پر وہی چیز اچھی کوالٹی اور کم داموں پر مہیا تھی، ہم دوسری بار بہتر متبادل کی طرف جائیں گے اور سیکھنے کے اس عمل(Learning) کی بدولت اس نقصان دہ تجربہ سے دوبارہ نہیں گزریں گے۔یاد رہے کہLearning اور بہتر انتخاب کا معاملہ اس وقت بہتر کام کررہا ہوتا ہے جب کسی مخصوص شے یا خدمت کے سلسلے میں ہمارے پاس بہتر متبادل (Alternatives)موجود ہوں۔تاکہ ہم دوسرے متبادلے کے ساتھ اپنے تجربہ کا موازنہ کرسکیں اور اگلی مرتبہ بہتر چیز یا خدمت کو منتخب کریں۔یہ صرف مقابلہ کی ثقافت میں ہی ممکن ہے کہ ہمیں ایک شے یا خدمت کی ایک سے زیادہ ورائٹیز (Varieties) اور متبادلات میسر آتی ہیں۔
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ ہمیں تجربات و مشاہدات کرنے،Trial & Error کی سائنس سے سیکھنے اور نتائج سے سبق سیکھ کر اپنی اصلاح کرنے کی آزادی میسر ہونی چاہیے۔اگر آزادی اور خود نگہبانی(Self Responsibility) نہیں ہوگی تو سیکھنے کا رجحان بھی ممکن نہیں ہوگا۔

سیلف انٹرسٹ کی حدود
سیلف انٹرسٹ کی بھی اخلاقیات ہیں اور معاشی فلسفہ ان اخلاقیات کی پابندی کو دراصل افراد کے سیلف انٹرسٹ کا ہی تحفظ سمجھتا ہے۔جیسا کہ آزادی کی اخلاقیات یہ نہیں کہ کسی دوسرے فرد کی آزادی پر حملہ آور ہوا جائے،ویسے ہی سیلف انٹرسٹ کی اخلاقیات یہ ہیں کہ ہر فرد کو سیلف انٹرسٹ Pursue کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہو اور ایک فرد دوسرے فرد کے سیلف انٹرسٹ میں ناجائز طریقے سے حائل نہ ہو۔
حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تمام شہریوں کے اس حق کا تحفظ کرے کہ وہ اپنے اپنے سیلف انٹرسٹ کو جائز طریقے سےPursue کرسکیں۔ذیل میں سیلف انٹرسٹ کے کچھ تقاضے اور پابندیاں ہیں۔ سیلف انٹرسٹ کے ضمن میں ان سوالات پر غور کرنا ہوگا:
کیا اس دنیا میں کوئی ایسی سوسائٹی بھی ہے جو شخصی مفادات پر نہ چلتی ہو؟
کیا روس شخصی مفادات پر نہیں چلتا؟
کیا چین شخصی مفادات پر نہیں چلتا؟
اپنے شخصی مفادات کی جستجو کرنے سے کیا مراد ہے؟
بعض لوگ کہیں گے کہ نہیں ہم ذاتی مفادات کو ترجیح نہیں دیتے، وہ اور لوگ ہیں جو ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔
یاد رہے کہ دنیا ان تمام افراد سے چلتی ہے جو اپنے اپنے مفادات کی جستجو کررہے ہیں۔
انسانی تہذیب کے بہترین کارنامے سرکاری بیوروکریسی نے نہیں سرانجام دیئے۔
آئن سٹائن نے اپنا نظریہ کسی بیوروکریٹ کے حکم پر نہیں پیش کیا تھا۔
ہنری فورڈ نے بھی اس طرح سے آٹو موبائل انڈسٹری میں انقلاب برپا نہیں کیا تھا۔
صرف ایک طریقہ ایسا ہے جس سے لوگ غربت کے پھندے سے نکل سکتے ہیں، جس کی آپ سب کو فکر ہے،صرف ایک طریقہ جو اَب تک کی تاریخ میں کامیاب رہا ہے،وہ سرمایہ دارانہ نظام ہے اور آزاد تجارت کا نظام ہے۔
اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ کہاں لوگ بدترین حالت سے دوچار ہیں؟۔۔۔
یہ وہ معاشرے ہیں جہاں سرمایہ دارانہ نظام نہیں یا اس سے انحراف کیا گیا ہے۔
اسی لیے انسانی تاریخ مکمل طور پر واضح ہے کہ عام شہریوں کے لیے بہترین طرز زندگی کا بندوبست قائم کرنے کے لیے سوائے کیپٹل ازم اور فری ٹریڈ کے اور کوئی متبادل دریافت نہیں ہوسکا جو ایک شمع کو یوں تخلیقی سرگرمیوں میں تھام لے کہ اس کی روشنی چہار سو پھیل جائے۔(ملٹن فریدمین)

معاشی زندگی میں کامیابی کے دو طریقے ہیں
۱۔ مارکیٹ کا سامنا کریں،مقابلہ کی ثقافت میں کام کریں اور صارفین جو ڈیمانڈ کرتے ہیں وہ اشیاء و خدمات مہیا کرکے نفع کمائیں۔
۲۔ اجارہ داری(مناپلی) قائم کرنے کی کوشش کی جائے،مقابلہ کی ثقافت سے انحراف کیا جائے اور انڈسٹری میں اپنے مدمقابل کو ناجائز طریقے سے نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے۔
یاد رہے کہ یہ طریقہ مقابلہ کی ثقافت میں اصولی طور پر بھی ممکن نہیں کہ کسی کمپنی کو کسی سیکٹر میں سرمایہ کاری کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔یہ صرف اس وقت ممکن ہوتا ہے جب کسی مخصوص انڈسٹری کے طاقتور عناصر سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرکے اپنے حق میں کوئی قانون سازی کروالیں یا ریاستی انتظامیہ کی مدد حاصل کرکے دوسرے فریق کو جبر،تشدد اور دھمکی سے مقابلہ کی مارکیٹ سے باہر رکھنے کی کوشش کریں۔ سیاسی اثر و رسوخ اور جبر سے دوسروں کو سیلف انٹرسٹ سے محروم رکھنے کے سنگین نتائج نکلتے ہیں۔اس سے مقابلہ کی ثقافت ختم ہو جاتی ہے اور سوشل انٹرسٹ کمزور پڑ جاتا ہے۔
پاکستان میں بدقسمتی سے اجارہ داری کی سیاست و معیشت کا راج ہے،یوں یہاں نہ مقابلہ کی ثقافت کو فروغ مل سکا ہے،اور نہ ہی سوشل انٹرسٹ(سماجی مفادات) کا دائرہ کار وسیع پیمانے پر پھیل سکا ہے، جیسے ہم اقوام مغرب میں دیکھتے ہیں۔یہاں صرف سیاست و معیشت میں ہی نہیں بلکہ سماج اور چھوٹے چھوٹے سماجی گروپوں میں بھی جبر و استحقاق اور اجارہ داری کی ثقافت کا غلبہ ہے۔خاندانی نظام کو ہی دیکھ لیں جس میں مرد، عورت کے حقوق پر قابض ہے۔بیٹے کو بیٹی پر استحقاق حاصل ہے۔ ریاستی سطح پر دیکھیں تو سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا پورے سیاسی نظام پر قبضہ و کنٹرول ہے۔ ان تمام مسائل کا حل یہی ہے کہ ہر میدان میں اجارہ داری و استحقاق کی ثقافت کی نفی کی جائے، اور مقابلہ و انفرادیت پسندی کی اقدار کو فروغ ملے تب جا کر ہی سیاست جمہوریت پسند اور عوام دوست بنے گی،معیشت سوشل انٹرسٹ کو جنم دے گی اور سماج میں رضا کارانہ اشتراک کی فضا کو پھلنے پھولنے کا موقع ملے گا تاکہ تمام انسان اپنی خوشی اور آزادی کوPursue کرسکیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ انسانی تہذیب کی عظیم کامیابیاں(Achievements) گورنمنٹ بیوروز کی بدولت نہیں۔جن چیزوں کو ہم تہذیب و تمدن کا کارنامہ کہتے ہیں اور جن ایجادات و دریافتوں اور آئیڈیاز پر فخر کرتے ہیں،وہ آزادیِ ارادہ و عمل کی ذاتی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ آئن سٹائن نے اپنا نظریہ بیوروکریٹس کے حکم پر نہیں تخلیق کیا تھا ،وہ صرف اپنے انٹرسٹ اور خوشی کوPursue کررہا تھا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...