اکیسویں صدی اور پاکستان کی سماجی بے چارگی

1,857

پاکستانی معاشرے میں عام آدمی کے فکری مغالطوں اور سماجی بے چارگی کی وجوہات میں سب سے اہم وجہ اس معاشرے میں رائج ماضی پرستی کے رویے ہیں۔ ان رویوں کو رائج کرنے میں مخصوص مذہبی طبقوں نے اہم کردار ادا کیا ہے، تو ساتھ ہی ریاستی بیانیے کا تعین اس انداز سے کیا گیا کہ عام آدمی کے حواس پر چھا کر رہ گیا اور لمحۂ موجود کے جدید فکری رویے ہمیں لغو، لایعنی اور شریعت سے متصادم نظر آنے لگے۔ اس معاملے کی تفہیم میں نفسیات کے حوالے سے ژونگ کا تصور اور سماجیات کے حوالے سے لیوی اسٹراس کا نقطہ نظر بہت اہم ہے۔ فکری و نظری حوالے سے ان دونوں دانش وروں کے نقطہ نظر کی تفہیم بظاہر ایک مشکل عمل ہے، مگر انسانی زندگی کے ایک سادہ سے عمل کو سمجھ لیا جائے تو تفہیم میں کچھ آسانی ہوجاتی ہے۔

یہ بات طے ہے کہ معاشرے میں ایک وقت، ایک دن میں ایک طرف 70-80 سال کے بزرگ موجود ہوتے ہیں، توساتھ ہی کچھ ادھیڑ عمر، کچھ نوجوان اور کچھ بچے بھی زندگی کے معاملات اور مسائل سے نبرد آزما ہورہے ہوتے ہیں۔ پھر ایک گھر میں بھی یہی صورت حال ہوتی ہے۔

ایک گھرانے کو سمجھنے کے لیے فرض کریں کہ ایک شخص1900ء میں جنم لیتا ہے۔ 24 سال کی عمر میں شادی کے بعد پچیسویں سال  اس کا پہلا بچہ پیدا ہوا۔جب 1900ء میں جنم لینے والے کا پہلا بیٹا 25 سال کا ہوا اور اس نے شادی کی، اس وقت تک باپ کی عمر 50 سال ہوچکی تھی۔ یہ 25 سال بیٹے نے باپ کے زیر اثر (کہ باپ سب سے بڑا آئیڈیل ہوتا ہے) گزارے۔ اس بیٹے کے ہاں 24 سال کی عمر میں شادی کے بعد بیٹا پیدا ہوا۔ دادا کی عمر پچاس سال ہے، باپ کی عمر 25 سال اور جب یہ پوتا 24 سال کا ہو گا تو دادا کی عمر چوہتر سال ہوچکی ہو گی۔ یوں عمریں Over lapeکرتی ہیں۔ بزرگوں کی باتیں فرد کی نفسیات پر گہرا اثر مرتب کررہی ہوتی ہیں اور بیسیویں صدی کے اوائل کی روایت گویا 1974ء تک زندہ رہتی ہے۔ ساتھ ہی یاد رہے کہ دادا بھی کبھی پوتا تھا تو یوں ہم مزید 74 سال(مفروضہ عمر) ماضی کا سفر طے کرجائیں گے۔ اس لحاظ سے 1900ء میں جنم لینے اور پلنے بڑھنے والا شخص لاشعوری طور پر 1825-26 میں جنم لینے والے اپنے دادا کے رویوں کو اپنا کر زندگی بسر کررہا ہوتا ہے اور ادھر 1950ء میں جنم لینے والا شخص اپنے دادا (جو1900ء میں پیدا ہوا) کے توسط سے 1825-26کے رویوں کا خاص امیج اپنے شعور اور لاشعور میں لیے ہوتا ہے۔

یوں قدیم دور کے انسان کی سوچ، طور طریقے، رویے، انداز فکر اور اخلاقی پیمانے نئی نسل کو نہ صرف متاثر کرتے ہیں بلکہ نئے تہذیبی رویوں کی تشکیل میں خاص انداز میں اثر انداز ہوتے ہیں اور رکاوٹیں پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔

ادھر جدید بیالوجی نے جینیاتی افعال کا تعین بھی کردیا۔ جینیاتی سائنس ہمیں بتلا رہی ہے کہ جینز ہمارے آبا و اجداد کی بہت سی جسمانی اور صوری خصوصیات ہمارے اندر لاتے یا منتقل کرتے ہیں اور ساتھ ہی خاص طرح کے رویے بھی جینز کے توسط سے ہم میں منتقل ہو رہے ہیں۔ کچھ رویے اور عادتیں پیدائشی، خلقی اور جبلی(Innate)ہوتی ہیں، جب کہ کچھ رویے مشاہداتی اور تجرباتی ہوتے ہیں، جوانسان اپنے شعور کے باوصف بزرگوں کی طرف سے حاصل کرتا ہے۔ ان مشاہداتی اور تجرباتی رویوں میں جہاں فرد کا اپنا ذاتی مشاہدہ اور تجربہ شامل ہوتا ہے، وہیں کچھ مشاہدات اور تجربات انسان اپنے بڑوں سے مستعار لے لیتا ہے۔ یہ سب مل کر ہماری معاشرتی، تہذیبی اور شخصی زندگی کے اطوار اور رویوں کی صورت گری کرتے ہیں۔ یوں ہر انسانی نسل کے ہاں قدیم انسان کے اطوار کے اثرات موجود رہتے ہیں۔

ان رویوں کی تشکیل میں ہماری روایتی تعلیم اور لسانی محاورے بھی بھرپور کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ گھر میں ”ماں باپ کا کہنا ماننے” کا اخلاقی درس دیا جاتا ہے اور اسے بزرگوں کے ادب و احترام سے مشروط کر کے ایک اٹل اخلاقی اصول بنایا جاتا ہے۔ اسکول میں اساتذہ اور نصاب کا اصرار بھی یہی ہوتا ہے کہ بڑوں کا، بزروگوں کا اور اساتذہ کا ادب و احترام کا تقاضا یہ ہے کہ ان کا ” کہا مانا جائے” تو ایک اخلاقی اصول وضع ہوجاتا ہے۔

اکیسویں صدی میں سماجی تہذیبی تقاضے تبدیل ہو رہے ہیں اور ضروری ہے کہ ہم سمجھ لیں کہ ماضی ہمارے لمحۂ حال سے متصل و پیوست ایک ایسی صورت اور کیفیت ہے کہ جس سے نکلنا ضروری ہے

یہ ایک ایسا اخلاقی اصول اور ایسا رویہ ہے کہ جس کے باعث فکری آزادی کبھی سلب اور کبھی محدود ہوتی ہے اور نسلِ نو میں خود تفہیمی، خود انحصاری اور خود اعتمادی کا فقدان ہوتا چلا جاتا ہے، نتیجتاً فرد کی تخلیقی صلاحیتیں متاثر و مجروح ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں بیسویں صدی سے پہلے تک اور یورپ میں شاید سترھویں صدی سے پہلے تک کہ جب زندگی سست رو تھی، بزرگوں کے تجربات اور مشاہدات کی اہمیت کے سبب بزرگوں اور بڑوں کا ” کہنا ماننے” کو اخلاقی سطح پرمحاورے کے طور پر یعنی سماجی بیانیے کے طور پر قبول کر لیا گیا تھا۔

بیسویں صدی کے سائنسی انکشافات، ایجادات،سائنسی، صنعتی انقلاب اور ادارہ جاتی نظام (جو یہاں انگریزوں نے قائم کیا) نے اس بیانیے کو غلط کردیا ہے۔ مگر ہم سماجی اور تہذیبی اخلاقیات کے جامد بیانیے کے اسیر ہو کر رہ گئے ہیں۔

سوچیے کہ اس معاشرے میں آج بھی اکیسویں صدی کی دہلیز پر کھڑا نوجوان اس محاورے اور بیانیے کے زیرِ اثر زندگی بسر کررہا ہے۔ مثالیں گلی گلی، گھر گھر موجود ہیں۔ ہم نئی نسل کو جدید علوم کے توسط سے نئے اطوار اپنانے کی اجازت نہیں دیتے۔ نئے علوم کے توسط سے بہت سے نئے فیصلے لازم ہیں۔ مگر ہمارا بیانیہ اجازت نہیں دیتا۔ میں ایک ایسے سول انجینئر کو جانتا ہوں( آپ بھی جانتے ہوں گے) کہ جس نے اپنے گھر کا نقشہ بنایا اور اس کی جزئیات طے کیں، تو اس کے 70 سالہ باپ نے یہ کہہ کر اس نقشے کو رد کردیا کہ ”تمہیں کیا پتا… زیادہ انجینئرنگ نہ دکھائو”۔ اور خود انتہائی مضحکہ خیز قسم کے ڈیزائن ڈرائنگ کے ساتھ چند کمرے تعمیر کروائے۔ اس ملک میں ایم بی بی ایس ڈاکٹرز کو برزگ سونف اور اجوائن کی پھنکی کھلاتے ہیں۔ کچھ بزرگ ان ڈاکٹروں کی رائے یہ کہہ کر مسترد کر دیتے ہیں ” تم کل کے بچے ہوتمہیں کیا پتا…” اس معاشرے میں ان پڑھ  بوڑھے چپڑاسی، بیلدار اور مالی اس ریاست کے اداروں میں کام کرنے والے نوجوان افسروں کو کئی طرح کی اخلاقی تعلیم اور ہدایات دیتے نظر آتے ہیں۔

دراصل یہ سب کچھ بیسویں صدی کی سائنسی علمی اور صنعتی تبدیلیوں کو فکری سطح پر رد کرنے اور قدیم دور کے بیانیے کو اپنانے کے سبب ہو رہا ہے اور المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں آج بھی اسی بیانیے کو اہم سمجھا جارہا ہے۔

اکیسویں صدی میں سماجی تہذیبی تقاضے تبدیل ہو رہے ہیں اور ضروری ہے کہ ہم سمجھ لیں کہ ماضی ہمارے لمحۂ حال سے متصل و پیوست ایک ایسی صورت اور کیفیت ہے کہ جس سے نکلنا ضروری ہے اور اس کیفیت سے نکلنا صرف اسی وقت ممکن ہے جب ہم جدید دور کے تقاضوں کی واضح طور پر تفہیم کریں اور شعوری سطح پر نئے فیصلے کرنے کی عادت ڈالیں۔ چوں کہ معاشرے میں ماضی کا سایہ بہت گھنا ہے اور ہم اس سے نکلنے کی کوئی کوشش نہیں کر رہے، اسی وجہ سے معاشرے میں کئی قباحتیں پیدا ہو رہی ہیں۔

سب سے اولین قباحت تو یہی ہے کہ ہم فکر و نظرکے نئے زاویوں کو رد کرتے ہیں اور علمی و فکری حوالے سے جمود کا شکار ہو چکے ہیں۔ سماجی تہذیبی زندگی میں یہ جمود کیا کیا رنگ دکھلاتا ہے اور کس کس طرح ہمارے لیے مسائل پیدا کرتا ہے ان سوالوں کا جواب صرف اسی صورت میں ڈھونڈ سکتے ہیں جب ہم یہ باور کرلیں اور یقین کر لیں کہ ماضی پرستی نے ہمارے لیے مسائل پیدا کیے ہیں۔

سوچنے کے عمل میں، اگر آپ میرے ساتھ رہیں تو سوچیں کہ ہمارے باپ دادا زرعی سماج میں زندگی بسر کرتے تھے۔ زرعی سماج میں پیداواری رشتوں کی نوعیت مخصوص ہوتی ہے۔ نواب، رئیس، جاگیردار ایک طرف، اور دستکار، کام کرنے والے ایک طرف۔ یہ سماجی رشتے غیر متبدل رہتے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی اور جدید علمی انکشافات نے سماجی رشتوں کی نوعیت تبدیل کردی ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں ایک تو یہ تبدیلی ابھی ابتدائی حالت میں ہے اور دوسرے ماضی کا کابوس ہمیں اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے نتیجتاً ہم آج بھی جاگیرادارانہ کلچر کو Idealizeکرتے اور کام کرنے کو کمتر عمل سمجھتے ہیں۔نکما پن اور خاص طرح کی رعونت ایک مقبول رویہ ہے۔ جاگیردارانہ طرزِ عمل اس حد تک مقبول ہے کہ اس ملک کے ان لوگوں نے بھی جاگیریں خرید لی ہیں، جو بنیادی طور پر صنعت کار کی حیثیت سے دولت مند بنے تھے اور صنعتی ترقی کے ثمرات سمیٹنے کے سبب سے دولت ان کے گھر کی باندی بنی تھی۔ صنعتی سماج میں تو سماجی رشتوں کا تعین، فنی مہارت اور تعلیمی استعداد سے ہوتا ہے اور خاص سطح کے تعلیم یافتہ لوگوں کو عزت و احترام دینا پڑتا ہے۔ سو ماضی پرستی کے خاص رجحان کے وجہ سے، یہ صورت حال ہمارے ہاں کے صنعت کار کو قبول نہ تھی اور اس نے اپنی تسکین کے لیے جاگیریں خریدیں اور خاص جاگیردارانہ رویہ اپنانے کی کوشش کی۔ یہ رویہ خصوصاً پنجاب اور سندھ میں بہت واضح طور پر دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے۔

ہمارے ہاں زرعی سماج اور جاگیردارانہ مزاج اور سوچ کا تعلق انیسویں صدی سے سمجھا جاتا ہے مگر آج اکیسویں صدی کی دہلیز پر ہر جگہ ہمیں یہی رویہ پنپتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ ہمیں دوسرے کو احترام دینا قبول نہیں۔ اپنی برتری کو کسی بھی طرح ثابت کرنا، خود پسندی کا شکار رہنا، کسی دوسرے کی صلاحیتوں کا اعتراف نہ کرنا۔ کسی کی علمی اور فکری فضیلت کو نہ قبول کرنا اور نہ ہی اس کا اعتراف کرنا، یہ ماضی کے جاگیردارانہ کلچر کا خاصا رہا ہے۔ ماضی کا دولت مند، اس وقت کا جاگیردار تھا یا نواب۔ یہی نواب، جاگیردار، برتری اور فضیلت کا حامل بھی تھا۔ ذرائع پیداوار پرقبضہ کے باعث وہ ”مالک” بھی تھا اور ”بھاگ وان” بھی۔ عقل ودانش کا منبع بھی تھا، سماجی اقتدار و اختیار کا مالک بھی۔ وہ جہاں دل چاہتا اور جس طرح دل چاہتا، زندگی بسر کرتا۔ کہیں کھڑا ہے، کہیں بیٹھا ہے، کوئی روکنے والا نہیں۔ کسی کا پالا جانور پسند آگیا، لے لیا۔ کسی کی بیٹی پسند آگئی، لے لی۔ سماجی برتری اور تفوق کے بل پر کچھ اس کی مرضی سے طے ہوتا تھا۔ یہ رویے اور مزاج آج بھی ہمارے معاشرے میں قدم قدم پر ہمارے سامنے آتے ہیں۔

اداروں کی سطح پر ورکروں اور افسروں کے ہاں عمومی طور پر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ کام کرنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ کام نہ کرنے والے افسر اور ورکر دفتروں میں بڑے معتبر ہوتے ہیں اور دیگر لوگ ان سے مرعوب رہتے ہیں۔ ان کے افسروں اور کولیگز کے لاشعور میں بڑائی کا تصور ماضی سے مستعار ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی عمومی مشاہدہ ہے کہ مختلف اداروں میں ایسے افسر اور اہلکار، جوخاندانی حوالے سے جاگیردارانہ پس منظر رکھتے ہیں، ادارہ جاتی ابتری، کام چوری، کرپشن، دھونس اور  دھاندلی میں سب سے زیادہ ملوث ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی پچھلی نسل کے پاس جاگیریں تھیں اور اب شاید کچھ ایکڑ کی وراثت انھیں بھی حاصل ہوتی ہے۔ یہ لوگ اپنے باپ دادا کے رعب داب اور پنچائیتوں میں اُن بزرگوں کی فضیلت کے قصے سناتے نہیں تھکتے۔ آج کے سائنسی دور کے ادارہ جاتی نظام کو تلپٹ کرنے اور تہذیبی سطح پر مسائل پیدا کرنے میں ان لوگوں کا بڑا ہاتھ ہے۔

دوسری طرف ایسے افسر اور اہلکار ہیں، جنہوں نے تعلیم کے بل پر سماجی فضیلت اور برتری حاصل کی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے آباو اجداد جاگیردار نہیں تھے، بلکہ دستکار اور کام کرنے والے لوگ تھے۔ ان کے باپ دادا نے جاگیرداروں اور نوابوں سے مرعوبیت کی زندگی بسر کی تھی۔ وہ مرعوبیت آج بھی ان کے لاشعور میں موجود ہے۔ بیسویں صدی کے تہذیبی انقلاب اور علمی ترقی نے ان لوگوں کو ایک مرتبے پر پہنچا دیا مگر ان کے ہاں سے مرعوبیت کا احساس (جو ماضی پرستی کا نتیجہ ہے) آج تک ختم نہیں ہوا ہے۔ یوں معاشرے میں قانون اور ضابطے بے وقعت ہوتے ہیں تو قدیم اخلاقی پیمانے اور رویے ہمارے ”آج” کو Deshapeکرتے ہیں، ماضی کا کابوس اس معاشرے پر طاری رہتا ہے۔

ماضی پرستی کا یہی رویہ ہمیں ہیرو پرستی(hero worship)کی طرف لے جاتا ہے۔ فرد کا یقین ِ ذات اور خودشناسی کا عمل مجروح ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ رویہ فرد کے ہاں خود ترحمی کے جذبات اجاگر کرنے کا باعث بنتا ہے نتیجتاً وجودی سطح پر فرد کا لمحہ موجود سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے اور بے چارگی کا رویہ جنم لیتا ہے۔

آج پاکستانی معاشرے کو قائم ہوئے 71 سال بیت چکے۔ ہم قیام پاکستان کے بعد تیسری نسل کو پروان چڑھارہے ہیں مگر یہ تیسری نسل ابھی بھی اس داد اکے رویوں کی پیروکار ہے اور اس دادا کی اخلاقیات کو حتمی سمجھتی ہے۔ جس نے علمی و سائنسی انکشافات کے نتیجے میں جنم لینے والی تبدیلیوں کے صرف آثار دیکھے تھے یا سنے تھے نہ انہیں برتا تھا اور نہ ہی اسے علوم کی حقانیت کا ادراک تھا۔

پاکستانی معاشرے میں علمی انکشافات کی حقیقت اور علمی سائنسی ترقی کے بھرپور اثرات و آثار مابعد 1970ء واضح ہونے شروع ہوئے۔ گویا ہمارے ہاں جدت یا جدیدیت کی کل عمر پنتالیس چھیالیس سال ہے۔ اس میں سے بھی جنرل ضیاء کے مارشل لا کے گیارہ سال وہ ہیں،  جنہوں نے پاکستانی معاشرے میں قدیم معاشرتی اور تہذیبی رویوں کے حوالے سے پسماندہ فکری کو عام کیا، ماضی کا ناسٹلجیا پیداکیا اور ماضی پرستی کے بیانیے میں شدت پیدا کی۔ ان عوامل اور شواہد کی موجودگی میں کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانی معاشرے کی بنیادی فکری الجھن ماضی پرستی ہے۔ اگر معاشرہ ماضی پرستی کے اس کابوس سے نکل جائے تو یقیناً زندگی کے نئے آفاق سے آشنا ہوجائے گا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...