سینیٹر فرحت اللہ بابر
فرحت اللہ بابرمسلسل سماجی موضوعات پہ آواز اٹھانے کی وجہ سے ایک باعزت سیاستدان اور سماجی رہنما کے طور پر پہچانے جاتے ہیں ۔ وہ ایک فلسفی کی طرح سوچتے ہیں اور اس پرعمل کرتے ہیں ۔
سینیٹر فرحت اللہ بابر ایک متحرک شخصیت ہیں ۔ تہتر سال کی عمر میں بھی ان کی توانائی اور کام کا شوق کم ہونے کو نہیں آتا۔ وہ بیک وقت کئی دلچسپیوں اور مقاصد میں مشغول رہتے ہیں۔ خوش قسمتی سے وہ ایسے شعبےمیں ہیں جہاں سے ان کو ریٹائر ہونے کی کوئی زیادہ خواہش نہیں ہے ۔ وہ ایک قانون ساز سیاست دان ، صحافی اور حقوق انسانی کے کارکن ہیں ۔ سعودی عرب میں ایک پاکستانی ٹرانس جینڈر کے قتل پر وہ سینیٹ میں سوال اٹھاتے اور نیشنل پریس کلب میں فاٹا اصلاحات سے منہ موڑنے پر حکومت سے نالاں نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فاٹا کو صدر پاکستان اور سول وملٹری بیوروکریسی چلا رہی ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ اسکی قانونی اور انتظامی قوت پارلیمنٹ کے حوالے ہو۔جبری طور پہ گمشدہ افراد سے متعلق انہوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں نے بار ہا اس مسئلہ کو سینٹ میں اٹھایا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ اس مسئلہ کو پارلے منٹ میں اٹھایا جاناچاہیے کیونکہ اگر میں یہ نہیں کروں گا اور کل کلاں مجھے اٹھا لیا جائے تو کوئی میرے حق میں نہیں بولے گا ۔ وہ مسلسل سماجی موضوعات پہ آواز اٹھانے کی وجہ سے ایک باعزت سیاستدان اور سماجی رہنما کے طور پر پہچانے جاتے ہیں ۔ وہ ایک فلسفی کی طرح سوچتے ہیں اور اس پرعمل کرتے ہیں ۔ جبری گمشدگیوں، بلاگرز کے اغوا اور آئی ایس پی آر کی سیاسی ٹویٹس پر سخت گیر موقف رکھنے کی وجہ سے انہیں بظاہر دائیں بازو کے الیکٹرانک میڈیا پر کوریج نہیں ملتی۔ وہ ایک بیوروکریٹ کی طرح صرف دفتری اوقات میں میسر ہوتے ہیں،دیگر اوقات میں وہ ایوان بالا کے لیے مباحثوں اور مختلف قوانین سے متعلق نوٹس کی تیاری میں مصروف رہتے ہیں۔
فرحت اللہ بابر نے اپنی خودنوشت تو ابھی تک مرتب نہیں کی تاہم و ہ منیر احمد خان کی ذات پر ایک کتاب ضرور لکھنا چاہتے ہیں جن کے ساتھ انہیں پاکستانی کمیشن برائے ایٹمی توانائی میں بطور انجینئر شعبہ پریس انفارمیشن میں کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ منیر احمد خان جنہیں ری ایکٹر خان کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے، پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کے بانی اور ذوالفقار علی بھٹو کے رازداں تھے۔ فرحت اللہ بابر پاکستان کی ایٹمی سرگرمیوں کےبارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مجھے یہ علم نہیں تھا کہ کیا ہورہا ہے تاہم یہ یقین ضرور تھا کہ کچھ بڑاہونے جارہا ہے۔ فرحت اللہ بابر سمجھتے ہیں کہ ایٹمی ہتھیاروں کے دور میں سینے پہ ہاتھ مار کر شیخی بگھارنا کم عقلی ہے ۔ بطور ممبر ایوان بالا وہ اس معاملے کی مکمل جانچ کروانے کی مسلسل کوشش کرتے رہے ہیں کہ مشرف کے دور حکومت میں پاکستان کی جانب سے ایران اور شمالی کوریا کو نیوکلیئر ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی منتقل کرنے کے الزامات میں کس قدر سچائی ہے ۔ جس کا ذکر پرویز مشرف اپنی کتاب میں کرچکے ہیں ۔فرحت اللہ بابر اس موضوع پر مزید بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نیوکلیئر ہتھیار تباہ کن ہیں ان کو سنبھال رکھنا نہایت ضروری ہے، کون نہیں جانتا کہ سوویت یونین کے پاس کس قدر ایٹمی ہتھیار تھےمگر سنبھالنے کی جگہ نہ تھی ؟ نتیجتاًوہ سیاسی اور مالی پریشانیوں کے باعث تاش کے پتوں کی طرح بکھر گیا۔
1986 میں خاتون اول اپنی آنکھوں کے آپریشن کے لئے برطانیہ گئیں تو کاڑنونسٹ” فیکا” نے فرنٹیئر پوسٹ میں ایک کارٹون بنایا کہ ایک موٹی عورت تحفوں سے بھری گدھا گاڑی کو کھینچ رہی ہے ۔ فرحت اللہ بابرجو کہ اس وقت مذکورہ اخبار کے مینیجگ ایڈیٹر تھے ، نےکارٹون کے نیچے لکھوایا ” ایک آنکھ کے اشارے سے قافلے راہ بدل جاتے ہیں ”۔ فرنٹیئر پوسٹ کو جہاد افغانستان پر مسلسل تنقید اور پاکستان میں فوجی حکومت کی مخالفت کی وجہ سے پاکستانی صحافت میں اہم مقام حاصل ہوچکا تھا۔ فرنٹیئر پوسٹ جمہوری قوتوں کا پسندیدہ اخبار تھا،جسے پشاور سے نکالنا آسان کام نہ تھا مگر فرحت اللہ بابر نے اسے ممکن کردکھایا۔ یہ واحد اخبار تھا جو افغان جنگ کو زمینی سطح سے دیکھتے ہوئے رپورٹ کررہاتھا ۔ تمام غیرملکی نمائندگان ، صحافی اور سفارتی افسران اس کے لئے فرحت اللہ بابر سے رابطے میں رہتےتھے تاکہ انہیں دونوں طرف کی خبریں مل سکیں ۔ فرحت اللہ بابر کے اس اخبار کے ساتھ جڑے رہنا اورافغان جنگ کا باریک بینی سے جائزہ لینا نہ صرف ایک پروجوش تجربہ تھا بلکہ بہت بہادری کا کام تھا ۔
فرحت اللہ بابر کہتے ہیں کہ ہمارے اخبار کی پالیسی افغان جنگ پر ریاستی پالیسی سے مختلف تھی، اس لئے ہمیں روس کا حمایتی اور کیمونسٹ کہا گیا ۔ ہمارا یقین تھا کہ افغانستان میں لڑائی جہاد نہیں بلکہ فساد ہے ۔
بابر صاحب کے نزدیک فرنٹیئر پوسٹ میں کام کرنا ایسے ہی تھا جیسے وہ اپنے گھر میں لوٹ آئے ہوں ۔ 1981 تک انفارمیشن منسٹری میں انہیں ایک جمود نظر آتا تھا جہاں ان کے ساتھ تعصب بھی برتا جاتا تھا ۔ ترکی میں ان کی تقرری بحثیت پریس اتاشی منسوخ کردی گئی تھی جس پر وہ برہم تھے ۔ سو چھٹی لے کر سعودی عرب چلے گئے،”دلہ ایوکو” نامی کمپنی میں وہ اگرچہ انجینئر بھرتی ہوئے جہاں انہیں بعد سعودی شاہی فضائیہ کی رہائش گاہوں کا منیجر مقرر کردیا گیا۔ ان دنوں وہ سعودی عرب کے سخت نقاد بن کے ابھرے ہیں، خاص طور پر حالیہ دنوں میں امریکہ ، سعودی تعلقات اور مسلم ممالک کے عسکری اتحاد پر وہ شدید تنقید کررہے ہیں۔ تاہم وہ یہ اعتراف ضرور کرتے ہیں کہ یہ سعودی عرب ہی تھا جس نے انہیں اس قدر مالی آسودگی دی جسکی وجہ سے وہ اپنا شوق صحافت پورا کرنے ، اپنا گھر خریدنے اور معیار زندگی بہتر بنانے میں کامیاب ہوئے۔
فرحت اللہ بابر کو بطور صحافی اگر انہیں سٹوری بیان کرنی ہوتی تو اپنی ذاتی تعلق داری کا بھی خیال نہیں رکھتے تھے۔ ان کی حیثیت اپنے ساتھ کام کرنے والے صحافیوں میں ”گاڈفادر” کی سی تھی جو اپنے جونیئرز کو سمجھاتا ہے کہ کسی معاملے کو تحریر اور بیا کیسے کرنا ہے ۔ وہ ایک پیشہ ور با صلاحیت صحافی ، بلند ہمت آدمی اور فرنٹیئرپوسٹ کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے ۔فرنٹیئر پوسٹ کے ساتھ جنرل ضیاء الحق کا آمرانہ رویہ انہیں سیاست کی طرف لے گیاورنہ وہ کبھی سیاست میں نہ جاتے ۔ اخبار نے جہاں انہیں سیاستدان بنایا وہیں وہ حقوق انسانی کے لئے ایک موثر آواز ہونے کی وجہ سے سیاسی کارکن بھی بن گئے۔
جون 1988 جب سویت افواج افغانستان سے واپس جارہی تھیں، فرنٹیئر پوسٹ نے افغان انتظامیہ کی طرف سے چند پاکستانی فوجیوں کی گرفتاری کی خبر بریک کی جس پر آئی ایس آئی چیف جنرل حمید گل برہم ہوئے اور فرنٹیئر پوسٹ سے فرحت اللہ بابر سمیت چند ارکان کو فارغ کرنے کا مطالبہ کیا۔ اخبار انتظامیہ نے جب یہ بات فرحت اللہ بابر کے سامنے رکھی تو وہ رضاکارانہ طور پر مستعفی ہوگئے۔ فرحت اللہ بابر کے مہمان خانے میں ایک فریم شدہ تصویر لگی ہے جس میں بے نظیربھٹو فرحت اللہ بابر کے ساتھ بیٹھی ایک مسودہ پڑھتی نظر آرہی ہیں ۔ تصویر پر درج ہے ” فرحت اللہ بابر کے لئے ، جو پوری توجہ ، محنت اور دانشمندی سے کام کرتے ہیں اور کبھی صبر کا دامن نہیں چھوڑتے ۔ بے نظیر بھٹو ۔”
فرحت اللہ بابر کو ایک روز پرائم منسٹر سیکرٹریٹ سے ٹیلیفون کال موصول ہوئی اور انہیں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے لیے تقریر لکھنے کاکہا گیا۔ فرحت اللہ بابر کہتے ہیں کہ اس تقریر کے لیے میں نے ذوالفقار علی بھٹو اور دیگر عظیم سیاست دانوں کی تقاریر کا بغور مطالعہ کیا۔ بے نظیر نے ان کی لکھی ہوئی تقریر کو قومی اسمبلی میں پڑھا جس میں عوام کو ان کی محنت اور کوشش پر سراہا گیا تھا جن کی وجہ سے پہلی بارمسلم تاریخ میں ایک ایک خاتون سربراہ مملکت منتخب ہوئی ۔ پھر یہ سلسلہ چل نکلا اور فرحت اللہ بابر بے نظیر بھٹو کے لیے مسلسل تقاریر لکھنے لگے۔
فرحت اللہ بابر کے ناقدین یہ الزام لگاتے ہیں کہ انہیں بے نظیر بھٹو کی جانب سے نوکری کی پیشکش اس لئے ہوئی کہ وہ پیپلز پارٹی نواز صحافیوں کو نوازنا چاہتی تھیں لیکن فرحت اللہ بابر کی تقرری ان کے بے پایاں صحافیانہ تجربے اور بیوروکریسی کے اندرونی معاملات پر گہری نگاہ کی وجہ سے ہوئی تھی۔ بے نظیر بھٹو اسکی ہمیشہ معترف رہیں۔ 1990 میں بے نظیر بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد بھی فرحت اللہ بابر قومی و بین الاقوامی میڈیا کے لیے بی بی کو بیانات وتقاریر لکھ کردیتے رہے۔
جب بابر خاندان کی بھٹو خاندان کے ساتھ تعلق داری کا ذکر ہوتا ہے تو عام طور پر نصیر اللہ بابر کی رابطہ کاری کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ آنجہانی جنرل نصیر اللہ بابر بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت( 1988-1990) میں مشیر اور دوسرے دور حکومت ( 1993-1996) میں وفاقی وزیر داخلہ رہے۔ یہ دونوں بابر آپس میں رشتہ دار ہیں ، دونوں کا تعلق ایک افغان پشتون قبیلے سے ہے جواب بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں مقیم ہے ۔فرحت اللہ بابر کی ذوالفقار علی بھٹو سے پہلی ملاقات 1977 میں پشاور گورنر ہاؤس میں ہوئی جناب وزیر اعظم بھٹو نے فرحت اللہ بابر سے ایک صحافی کے جانکاری چاہی جس کا افغان صدر سردار داؤد سے قریبی تعلق تھا،فرحت اللہ بابر نے وزیر اعظم بھٹو کو بتایا کہ اس کا تعلق قریبی ہے مگر وہ جاسوس نہیں بلکہ ایک محب وطن صحافی ہے۔بعد ازاں بھٹو حکومت نے کابل اور اسلام آباد کے درمیان خوشگوار تعلقات قائم کرنے کے لیے اس صحافی سے مدد بھی لی۔ دوسری ہی ملاقات میں وزیر اعظم بھٹو نے ان سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ بیگم نصرت بھٹو کو پشتو زبان سکھائیں کیونکہ چند دن بعد بیگم نصرت بھٹو خیبر پختونخوا اسمبلی کا دورہ کرنے والی تھیں۔
فرحت اللہ بابر کہتے ہیں کہ اگر انہیں وزیر اعظم بھٹو کو کوئی مشورہ دینے موقع ملتا تو وہ انہیں دائیں بازو کے مذہبی حلقوں سے بچنے کا مشورہ دیتے۔ بے نظیر بھٹو نے وزیر اعظم بننے کے بعد فرحت اللہ بابر سے مشورہ طلب تو انہوں نے کہا”بڑی فضیلت یہ ہے کہ آپ اپنے بولنے کی خواہش کو سننے کی صلاحیت کے ماتحت کردیں ۔”
پشاور، نشتر آبا د کے علاقے میں دو کمروں کے مکان میں آٹھ بہن بھائیوں کے ساتھ پرورش پانے والےفرحت اللہ بابر نے اپنے دفتر میں بھی غریب طبقے کی اخلاقیات کو نافذ کررکھا ہے ۔ ان کے والد ایک سرکاری سکول استاد تھے جنہوں نے اپنی زندگی کم آمدنی کے ساتھ نہایت نظم و ضبط سے گزاری ۔ فرحت اللہ بابر بتاتے ہیں کہ والد کی اس دھمکی نے کہ اگر ہم فیل ہوئے تو وہ ہماری فیس ادا نہیں کریں گے، ہمیں ہمیشہ سنجیدگی سے پڑھائی پر مجبور کیے رکھا ۔ یہ ایک طرح کا مثبت احساس محرومی تھا جس کے اثر میں وہ اور ان کے بہن بھائی تعلیم میں نمایاں طور کامیاب رہے ۔ فرحت اللہ بابر یاد کرتے ہیں کہ وہ کس طرح ایک پگڑی باندھے اور ہاتھ میں بید کی چھڑی لیے شیخی بگھارتے ہوئے فوج میں بھرتی ہونے کے لیے انٹرویو دینے گئے ،جہاں ان کا انتخاب بھی ہو گیا تھا مگر وہ فوج میں شمولیت اس لئے اختیار نہ کرسکے کہ اس دوران ان کا پشاور کی انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی میں داخلہ ہوگیا تھا۔ فرحت اللہ بابر کی سیاسی جڑیں غریب طبقے کی اقدار میں پیوست ہیں ۔ وہ اپنی گاڑی خود چلاتے ہیں اور اپنے گھر کی اشیائے سلف خود خریدتے ہیں ۔ یہ امر کس قدر تعجب کا باعث ہے کیونکہ یہ “رولنگ ایلیٹ” کا رواج نہیں ہے ۔
فرحت اللہ بابر اپنا انتخابی حلقہ نہیں بنا سکے، جس کے سبب وہ پارٹی رہنماؤں کے رحم و کرم پہ ہیں کہ وہ انہیں کوئی حکومتی عہدہ دیں یا نہ دیں پھر بھی ان کا پارٹی کے رہنماؤں پہ کافی اثرورسوخ ہے جس کے سبب انہیں اپنے پارلیمانی اور قانون ساز اقدامات میں مدد ملتی ہے ۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ وہ پالیسی سازی کے معاملات میں پوری توجہ دے سکتے ہیں اور انہیں منتظمین والی کوئی ذمہ داری نہیں نبھانی پڑتی ۔ وہ ٹیکنو کریٹ کی حثیت سے سینٹ کے ممبر ہیں مگر وہ کوئی ماہر اقتصادیات یا اکاؤنٹینٹ نہیں ۔ تاہم یہ سچ ہے کہ وہ معاملات کی گہری جانچ رکھتے ہیں۔ وہ خارجہ امور ، سول ملٹری تعلقات ، مذہبی انتہاء پسندی کے اضافے ، متشدد عسکریت پسندی ، جمہوری دائرے کی تنگی اور سیاسی بالادستی کے معاملے اور خفیہ اداروں کا بے لگام ہوکر سیاسی اور شہری زندگیوں میں مداخلت جیسے معاملات پرسینٹ میں بات کرتےہیں جس پہ اسٹیبلیشمنٹ اور اور حکومت دونوں ہی پیچ و تاب کھاتے ہیں ۔ وہ ان موضوعات پرجب پارلیمانی بالادستی کا مطالبہ کرتے ہیں تو کسی سکول کے بچے کی طرح پرجوش ہوکر دلیری اور بغاوت دکھاتے ہیں ۔
مشرف حکومت نے سال 2003 میں فرحت اللہ بابر کی طرف سے اٹھائے گئے متعدد موضوعات جیساکہ کارگل جنگ کی تحقیقات ، سول ملٹری تعلقات میں عدم توازن اور منتخب حکومتوں کی برطرفی ، کو مسترد کردیا تھا ۔ ان موضوعات کے مسترد ہونے پر پیپلز پارٹی نے ایک کتابچہ شائع کیا تھا جس میں دیگر معاملات کے ساتھ ساتھ یہ سوالات بھی اٹھائے گئے تھے کہ کیا کبھی کوئی فوجی افسر بھی اپنے اثاثہ جات اسی طرح ظاہر کرے گا جس طرح سول سرونٹ کو کرنے ہوتے ہیں اور کیا آئی ایس آئی کسی قانون کی پابند ہے ؟کیا کبھی کارگل کی جنگ کی تحقیقات کی جائیں گی ؟ حتیٰ کہ سال 2008 -2012میں جب ان کی اپنی پارٹی کی حکومت تھی تو انہیں تب بھی ان سوالات کا جواب نہیں ملا ۔ اس سوال کا بھی جواب نہیں ملا کہ کس نے سال 2007میں بے نظیر کو قتل کیا ؟ وہ اس ناکامی کی پوری ذمہ داری ہر معاملے میں دخل اندازی کرنے والے سیکورٹی اداروں پر لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ دخل اندازی اتنی گہری ہے کہ کوئی بھی اقتدار میں ہو حکومت بے بس ہی ہوگی ۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ بے نظیر نے ایک بار انہیں “ڈیپ سٹیٹ ” کے بارے میں بتایا تھا اور ان کے الفاظ یہ تھے ۔ ” ان کے منہ کو خون لگ گیا ہے ۔” وہ کہتی تھیں کہ اسٹیبلیشمنٹ سے اقتدار کی واپسی صرف سسٹم کے دائرے میں ہی رہ کر ممکن ہے ۔اسی لئے آہستگی سے مسلسل کام کرتے رہنے کوہی درست رویہ سمجھتے ہیں ۔اس دائرے میں رہ کر کام کرنے کی اس پالیسی نے پیپلز پارٹی کو بعض دفعہ مجبور کیا ہے کہ وہ غیر جمہوری اقدامات کو بھی قبول کرے۔ مثال کے طور پر فوجی عدالتوں کو دوبار توسیع دینا ۔ اس سے لگتا ہے کہ فرحت اللہ بابر کی اپنی جماعت ہی اصولوں سے منحرف ہورہی ہے ۔ وہ عوام کے حق کی آواز تو اٹھاتی ہے مگر اس امرکو نظر انداز کردیتی ہے کہ علاقائی تنازعات میں الجھنا اورافغانستان جیسے ہمسایہ ممالک سے بالادست رویہ اختیار کرنا ، اس سے بھی لوگوں کی زندگیاں اور امن متاثر ہوتا ہے ۔ پھر بھی فرحت اللہ بابر اپنی پارٹی نہیں چھوڑتے کیونکہ وہ پارٹی کے اصولوں سے جڑے ہیں اقتدار سے نہیں ۔
فرحت اللہ بابر کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی میں ہمیشہ ایسی آوازیں موجود رہیں گی جو اسے اس کے اصولوں پہ کاربند رہنا یاد دلاتی رہیں گی ۔
پیپلز پارٹی کے پچھلے دور میں وہ صدر مملکت آصف علی زرداری کے ترجمان تھے، عدالتوں نے صدر زرداری پر سیاست میں حصہ لینے پر پابندی عائد کررکھی تھی اور وزیر اعظم گیلانی کو برطرف کردیا گیا تھا، یہ حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان تناؤ کا زمانہ تھا جس کا سبب پاک امریکہ تعلقات بنے تھے۔پارٹی کے کئی سرکردہ رہنما بدعنوانی کے الزامات کا شکار تھے ۔اس دور میں فرحت اللہ بابر اپنی پارٹی کے وفاداروں سے بھی تنقید سن رہے تھے ۔اس دور میں فرحت اللہ بابر شاید ہمیشہ زرداری کا دفاع کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے مگر انکی اپنی ذات صدر مملکت کا ترجمان رہ کر بھی شفاف رہی۔
(ترجمہ: شوذب عسکری،تلخیص : محمد یونس ،بشکریہ ہیرالڈز میگزین)
فیس بک پر تبصرے