فاٹا کا انضمام یا الگ صوبہ؟

1,161

 سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ الگ صوبہ بنانے کی صورت میں فاٹا کے حالات بلوچستان سے بھی ابتر ہونے کا خدشہ ہےکیونکہ الگ صوبے ہونے کے باوجود فاٹا کے عوام کا انحصار خیبرپختونخوا پر رہے گا جس سے نہ صرف خیبرپختونخواکے اداروں پر بوجھ بڑے گا بلکہ انتظامی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔

فاٹا سات ایجنسیوں اور چھ فرنٹیئر ریجن پر مشتمل ستائیس ہزار دو سو بیس کلومیٹر پر محیط علاقہ ہے ، اس خطے کی جنوبی وزیرستان سے باجوڑ ایجنسی تک چار سو ساٹھ کلومیٹر سرحد افغانستان سے ملتی ہے، وفاقی کے زیرانتظام اس علاقے پر کئی دہائیوں سے فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز کا قانون نافد ہے جس کے خلاف طویل عرصے سے فاٹا کے عوام اور بالخصوص نوجوان آواز بلند کرتے آرہے ہیں اور ہر فورم پر اس قانون کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے اس سے نجات اور آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں۔تاہم پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ فاٹا کو قومی دھارے میں لانے ، انہیں ایف سی آر سے آزادی دینے اور اس علاقے کی ترقی کےلئے قومی سطح پر سنجیدہ اقدامات کئے جارہے ہیں۔ فاٹا اصلاحاتی کمیٹی کا قیام اور اسکی سفارشات کے بعد فاٹا کے عوام میں روشن مستقبل کی امید پیدا ہوگئی ہے۔فاٹا ریفارمز کمیٹی کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد ایسا معلوم ہورہا تھا کہ فاٹا کے عوام جلد ہی ایف سی آر سے نجات حاصل کرلیں گے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ سیاست کی نظر ہوتا جارہا ہے اور مزید متنازعہ بنتا جارہا ہے۔ جمعیت علماءاسلام (ف) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے علاوہ خیبرپختونخوا کی تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ فاٹا کے خیبرپختونخوا کے ساتھ ضم کرنا ہی مسائل کا حل ہے جبکہ جمعیت علماءاسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے مطابق فاٹا کے مستقبل کا فیصلہ فاٹا کے عوام کی مرضی سے کیا جائے اور عوام کی رائے جاننے کےلئے ریفرنڈم کرائے جائیں۔ مذکورہ دونوں سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ فاٹا سے تعلق رکھنے والے سابق سفیر ایاز وزیر کی سربراہی میں چند روز قبل فاٹا صوبہ بناﺅ تحریک کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے۔ جے یو آئی (ف)، پختونخوا میپ اور قبائلی صوبہ بناﺅ تحریک کے رہنماﺅں کا موقف ہے کہ فاٹا کے مستقبل کا فیصلہ فاٹا کے عوام کی مرضی سے کیا جانا چاہئے جس کےلئے ریفرنڈم کرائیں جائیں۔فاٹا اصلاحاتی کمیٹی کو مسترد کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ مذکورہ کمیٹی میں فاٹا سے تعلق رکھنے والا کوئی نمائندہ نہیں ہے ۔کمیٹی کے ممبران  کو فاٹا کے مسائل کا علم نہیں ،اس لئے ایسی رپورٹ کی بنیاد پر فاٹا کے مستقبل کا فیصلہ کرنا ناانصافی ہوگی۔

فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کی حامی سیاسی قوتوں کا کہنا ہے کہ فاٹا اصلاحاتی کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرم ایجنسی، باجوڑ ایجنسی اور ایف آر پشاور کے علاوہ کسی بھی ایجنسی نے فاٹا کی شناخت یا اسٹیٹس کو تبدیل کرنے پر آمادگی ظاہر نہیں کی،نیز رپورٹ کے میں کہا گیا ہے کہ فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرنے سے قبل آئی ڈی پیز کی آباد کاری اور وہاں پرامن ماحول کا قیام ضروری ہے جبکہ اب بعض بااثر سیاسی قوتیں فاٹا کے فوری انضمام اور آئندہ عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی میں فاٹا کو نمائندگی دینے کا مطالبہ کررہی ہیں جوکہ کمیٹی کی سفارشات کے خلاف ہے۔ مذکورہ سیاسی قوتوں کے رہنماﺅں کی جانب سے خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی صورت میں این ایف سی کے تحت ملنے والی ایک سو بیس بلین کی رقم پر خیبرپختونخوا کا اختیار ہوگا جبکہ خیبرپختونخوا آج تک اپنے جنوبی اضلاع کوہاٹ، ڈی آئی خان، کرک و دیگر علاقوں کو ترقی نہیں دے سکا تو فاٹا کے عوام کو کیسے ترقی اور خوشحالی دے سکتا ہے۔ الگ صوبہ بننے کی صورت میں فاٹا کی الگ صوبائی اسمبلی، وزیراعلیٰ، وزارء اور بیوروکریسی ہوگی ۔ این ایف سی کے تحت ملنے والی رقم کا اختیار بھی صرف اور صرف فاٹا کو ہوگا جس سے فاٹا کی ترقی یقینی ہے،اس کے علاوہ خیبرپختونخوا میں ضم ہونے کی صورت میں فاٹا سینٹ میں اپنی آٹھ نشستیں گنوا دے گا اور خیبرپختونخوا کی23 نشستوں میں سے ہی فاٹا کو حصہ دیا جائے گا جبکہ الگ صوبہ ہونے کی صورت میں فاٹا کو سینٹ میں باقی صوبوں کی طرح 23 نشستیں ملیں گیں ، نیز ان کا ماننا ہے کہ فاٹا کو خیبرپختونخوامیں ضم کرنے کی صورت میں قبائلی عوام اپنی روایات اور شناخت کھو دیں گے جبکہ الگ صوبہ بننے کی صورت میں یہ قومی سطح پر اپنی الگ شناخت اور روایات کے حامل ہوں جائیں گے اور اپنی روایات اور ثقافت کا بہتر انداز میں دفاع کرسکیں گے۔ دوسری جانب فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے والی سیاسی جماعتوں کا موقف ہے کہ فاٹا گزشتہ کئی دہائیوں سے معاشی اور معاشرتی طور پر خیبرپختونخوا سے منسلک ہے، فاٹا سے تعلق رکھنے والی کثیر تعداد خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں طویل عرصہ سے مقیم ہے، یہ لوگ صحت، تعلیم و دیگر ضروریات کےلئے خیبرپختونخوا کے ادارے استعمال کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ فاٹا کے خیبرپختونخوا کے ساتھ ضم کرنا ہی بہتر آپشن ہیں۔ نیز فاٹا کی مختلف ایجنسیوں کو جغرافیائی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ بھی جوڑنا ممکن نہیں۔ ریفرنڈم کرانے اور عوام کی رائے جاننے کے حوالے سے مذکورہ سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ فاٹا کے اراکین پارلیمنٹ کو فاٹا کے عوام نے منتخب کیا ہے اور یہ اختیار دیا ہے کہ وہ قومی اسمبلی میں فاٹا کے عوام کےلئے جو بہتر سمجھیں اس حوالے سے قانون سازی کریں۔ اگر فاٹا کے پارلیمنٹرین اس بات پر راضی ہیں کہ فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کیا جانا چاہئے تو اسے عوام ہی کی رائے سمجھتے ہوئے اس فیصلے پر عمل کرنا چاہئے۔ نیز ماضی میں کرائے گئے ریفرنڈم کے نتائج کبھی مثبت نہیں آئے لہذا اس مسلے کو مزید الجھانے کی بجائے فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنا چاہئے۔

سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ الگ صوبہ بنانے کی صورت میں فاٹا کے حالات بلوچستان سے بھی ابتر ہونے کا خدشہ ہےکیونکہ الگ صوبے ہونے کے باوجود فاٹا کے عوام کا انحصار خیبرپختونخوا پر رہے گا جس سے نہ صرف خیبرپختونخواکے اداروں پر بوجھ بڑے گا بلکہ انتظامی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔دوسری جانب فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے سے خیبرپختونخوا بشمول فاٹا کی قومی سیاست اور اسکی   قدروقیمت میں اضافہ ہوگا ، قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے سے خیبرپختونخوا ملک کی قانون سازی میں موثر کردار ادا کرسکے گا جس سے صوبے کو فائدہ ہوگا۔نیز این ایف سی ایوارڈ کے تحت ملنے والی رقم میں اضافہ ہوگا جس سے صوبے میں ترقی کی رفتار میں اضافہ ہوگا۔فاٹا کے مستقبل کے حوالے سے دونوں فریقین کے موقف کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات سامنے آتی ہے کہ فاٹا کے عوام ایف سی آر سے آزادی اور بنیادی حقوق چاہتے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی جماعتیں اس معاملے پر پوائنٹ سکورننگ کی بجائے اس معاملے کی اہمیت کو سمجھیں اور افہام و تفہیم سے معاملہ حل کریں ،کہیں ایسا نہ ہو کہ سیاست چمکانے کی اس دوڑ میں ستر سال بعد ملنے والا یہ موقع بھی گنوادیں ۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...