سعودی عرب میں معتدل اسلام کی لہر

1,371

ان دنوں سعودی عرب میں’’معتدل اسلام‘‘ کے چرچے ہیں۔ ولی عہد محمد بن سلمان جو 32برس کے پرجوش جوان ہیں اور سعودی تاریخ میں سب سے کم عمر ولی عہد ہیں، کا کہنا ہے کہ وہ سعودی عرب میں ’’معتدل اسلام‘‘ کی واپسی کے لیے کوشاں ہیں۔انھوں نے یہ بات 24اکتوبر2017 کو ایک کانفرنس کے میں کہی جو اقتصادی امور کے حوالے سے منعقد ہوئی تھی۔جواں سال سعودی شہزادے نے کہا کہ ہم اپنی زندگیوں کے آئندہ 30سال اِن تباہ کن عناصر کی نذر نہیں ہونے دیں گے۔ ہم انتہا پسندی کو ختم کردیں گے۔ انھوں نے کہا کہ ہم پہلے ایسے نہیں تھے، ہم اس جانب جا رہے ہیں جیسے ہم پہلے تھے۔ ایسا اسلام جو معتدل ہے اور جس میں دنیا اور دیگر مذاہب کے لیے جگہ ہے۔

ان کے تصورات کے مطابق سعودی عرب میں جو پیش رفت ہو رہی ہے اس کے کئی ایک مظاہر سامنے آچکے ہیں۔ انھیں یقینی طور پر اپنے والد سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلمان کی پوری حمایت اور سرپرستی حاصل ہے، جنھوں نے حال ہی میں اپنے ایک فرمان میں خواتین کو ملک میں پہلی بار گاڑی چلانے کی اجازت دی ہے۔ اس سلسلے میں متعلقہ وزارت کو حکم جاری کر دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ حکم 24جون 2018تک ہر صورت میں نافذ العمل ہو جائے گا۔ معتدل اسلام یا روشن خیالی کا ایک اور مظاہرہ اس وقت سامنے آیا جب سعودی عرب میں ٹی وی پر معروف مصری گلوکارہ ام کلثوم کا کنسرٹ نشر کیا گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے کلچر اور آرٹ کے چینل الثقافیہ پر کئی دہائیوں کے بعد معروف عرب گلوکارہ ام کلثوم کا یہ کنسرٹ نشر کیا گیا ہے۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی گلیوں میں اب مذہبی پولیس نظر نہیں آتی جسے مطوع کہا جاتا ہے۔ اس پولیس کے ذمے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس پولیس کے گلیوں سے غائب ہونے کا سہرا بھی ولی عہد محمد بن سلمان کے سر جاتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریاض کے امیر شہری کہتے ہیں کہ شہر میں کچھ ایسے ریستوران کھل گئے ہیں جہاں عورتیں اور مرد مخلوط طور پر بیٹھ جاتے ہیں اور انھیں اس سلسلے میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آتی۔ وہاں تیز موسیقی بھی بجتی ہے۔مغربی معاشرے میں پروان چڑھنے والے اور وہاں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے واپس آنے والے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اب سعودی عرب میں ایک ایسے ماحول کے منتظر ہیں جہاں عورتیں گاڑیاں چلا سکیں، سینما کھلے ہوں اور صحرائی ریس میں عورتیں اور مرد دونوں شریک ہوسکیں۔ سال رواں کے شروع میں بی بی سی نے اپنے عالمی نامہ نگار لیز ڈوسیٹچیف کی ایک رپورٹ شائع کی تھی جس کا عنوان تھا’’کیا سعودی عرب میں تبدیلی آرہی ہے‘‘۔ رپورٹ میں انھوں نے General Recreation Department کے چیئرمین احمد الخطیب کا ایک قول نقل کیا تھا جس میں وہ کہتے ہیں کہ میرا مشن لوگوں کو خوش و خرم رکھنا ہے۔ ہم نے سال بھر میں 80کے قریب میلے، آتش بازی کے ایونٹ،موسیقی کے شو اور دوسرے مواقع ڈھونڈے ہیں جہاں لوگوں کو تفریح فراہم کی جاسکتی ہے۔البتہ سال کے اختتام تک پہنچتے پہنچتے کئی ایک نئے اقدامات سرکاری سطح پر دیکھنے میں آرہے ہیں جن میں سے خاص طور پر خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دینا اور معروف گلوکارہ ام کلثوم کا کنسرٹ سرکاری ٹی وی پر نشر کیا جانا ہے۔ جدہ کے قریب کنگ عبداللہ اکنامک سٹی تعمیر کرنے کے فیصلے کو جدیدیت پسندی کی طرف ایک بہت بڑا قدم قرار دیا جارہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ شہر پانچ سو ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر کیا جائے گا۔ اس پراجیکٹ کے تحت سیاحت اورتفریحی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے گا۔ رائٹرز کے مطابق شہر تعمیر کرنے والے گروپ ای ای سی کے گروپ چیف ایگزیکٹو فہد آل راشد نے بتایا ہے کہ وہ سعودی عرب میں رواں برس کے اختتام پر جاز موسیقی کا فیسٹیول منعقد کریں گے۔ انھوں نے بتایا کہ اس فیسٹیول میں غیر ملکی موسیقار اپنے فن کا مظاہرہ کریں گے۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ملک میں اس طرح کے ایونٹ اور ثقافتی سرگرمیوں کی بہت زیادہ مانگ ہے جس پر کام نہیں کیا گیا۔ اس پروگرام کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ویژن کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ ’’محمد بن سلمان، سعودی قیادت میں انقلاب کے داعی‘‘ کے عنوان سے شائع کی ہے۔ اس رپورٹ میں بہت دلچسپ پہلوؤں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ رپورٹ میں محمد بن سلمان کو روایت شکن قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ قیادت کے اندر آنے والی تبدیلیاں ڈرامائی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ راتوں رات آل سعود کے قدیم طریقہ کار متروک ٹھہرے۔ وقت طلب طریقہ کار ترک کردیا گیا جس کے تحت اہم فیصلے کرتے وقت شہزادوں سے نجی ملاقاتیں کرکے ان کی منشاء حاصل کی جاتی تھی۔ اب بادشاہ اور ان کا بیٹا جو دل میںآئے فوراً کر گزرتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ محمد بن سلمان کو کئی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ان کے ناقدین انھیں غیر محتاط اور من موجی قرار دیتے ہیں۔

سعودی عرب میں آنے والی سماجی اور معاشرتی تبدیلیاں تو سب کے سامنے ہیں لیکن کیا یہ تبدیلیاں مطلوبہ نتائج پیدا کر سکیں گی یا نہیں اور کیا محمد بن سلمان کے اقدامات کو غیر محتاط کہنے والوں کی بات میں کچھ وزن ہے یا نہیں۔ شاید ابھی جوش و ہوش کے باہمی تضادات کی وجہ سے حتمی نتیجے تک پہنچنا مشکل ہو لیکن یہ سوال بہت اہم ہے کہ سعودی نظام کے دو بنیادی ستونوں میں سے کیا دونوں ان تبدیلیوں کو ٹھنڈے پیٹوں قبول کرلیں گے یا نہیں۔
سعودی نظام میں ایک ستون آل سعود پر مشتمل ہے اور دوسرا آل شیخ پر۔ آل سعود سیاسی اور حکومتی امور کے ذمے دار سمجھتے ہیں اور آل شیخ مذہبی امور کے ذمے دار قرار دیے جاتے ہیں۔ دونوں کے حوالے سے سوال موجود ہیں۔ کیا آل سعود کے تمام شہزادے ان تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہیں یا نہیں۔ ہم اس سلسلے میں ان خبروں اور رپورٹوں سے صرف نظر نہیں کر سکتے جن کے مطابق کئی ایک اہم اور موثر شہزادے اس وقت نظربندی کے دن گزار رہے ہیں۔ خاندان کے اندر مشاورت کا عمل تقریباً ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ پھر جواں سال محمد بن سلمان کے ہاتھ میں اقتدار آنے کے بعد اس وقت موجود کنگ عبدالعزیز کی تقریباً باقی ساری اولاد اپنے لیے بادشاہ بننے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں دیکھ رہی۔ کیا یہ تمام شہزادے جن کی تعداد ہزاروں میں ہے اس قابل ہیں کہ وہ کوئی ردعمل کر سکیں؟دوسری طرف آل شیخ کے بارے میں عمومی تاثر مذہبی امور میں شدت پسندی کا رہا ہے۔ نئے اقدامات جن میں اعتدال پسندی کے مغربی مظاہر رونما ہو رہے ہیں کیا انھیں آل شیخ کے مفتی اور علماء آسانی سے قبول کرلیں گے؟ مطوع کے نام پر آل شیخ کے ماتحت جو فوج ظفر موج تمام شہروں اور گلیوں میں موجود تھی، اس کا کیا بنے گا۔ کیا ان کی طرف سے اختیارات سے محروم ہونے پر کسی ردعمل کا امکان ہے یا نہیں۔ اسی طرح کیا یہ ممکن ہے کہ آل شیخ کے کسی موثر اور انتہا پسند دھڑے کی آل سعود کے اقتدار سے محروم ہوجانے والے شہزادوں کے ساتھ کوئی نئی ہم آہنگی پیدا ہو جائے گی اور کیاوہ کسی مشترکہ منصوبے کے تحت محمد بن سلمان کی حکومت کے لیے کسی مشکل کا باعث بن سکیں گے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد بن سلمان کے نئے ویژن کو موجودہ امریکی انتظامیہ کی حمایت حاصل ہے۔ تاہم ضروری نہیں کہ تمام تر نتائج محمد بن سلمان اور ان کے حامیوں کی منشاء کے مطابق ہی سامنے آئیں کیونکہ ملک کے اندر اور باہر دونوں کی ہم آہنگی سے ہونے والے بہت سے کاموں کے وہ نتائج سامنے نہیں آسکے جن کے لیے انھوں نے یہ اقدامات کیے تھے؟

سعودی بادشاہت کے بعض داخلی اور خارجی اقدامات کے خلاف پہلے بھی مختلف طرح کا ردعمل سامنے آ چکا ہے۔ القاعدہ کی قیادت کے سعودی خاندان سے اختلافات کا بطور مثال ذکر کیا جاسکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ محمد بن سلمان کے مذکورہ اقدامات کے نتیجے میں داعش اور القاعدہ جیسی تنظیموں کو ملک کے اندر مذہبی انتہا پسندوں کی تائید حاصل ہو جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ سعودی عرب کو کمزور کرنے کے لیے اسرائیل اسی طرح سے داعش جیسی تنظیموں کی سرپرستی کرے جیسے وہ ان تنظیموں کی شام اور دیگر علاقوں میں سرپرستی کر چکا ہے اور کررہا ہے۔اس سارے معاملے میں ہمیں یہ نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ ’’معتدل اسلام‘‘ کے آنے سے سعودی عرب کی خارجہ پالیسی میں کوئی بنیادی تبدیلی واقع ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ اس کے لیے ہمیں متحدہ عرب امارات کے نمونے کو سامنے رکھنا ہوگا۔ دوبئی’’معتدل اسلام‘‘ ہی کا ایک نمونہ ہے اور اس کی خارجہ پالیسی آج کے سعودی عرب سے پوری طرح سے ہم آہنگ ہے۔ لہٰذاسعودی’’ معتدل اسلام‘‘ سے یمن والوں کی مشکلیں آسان ہوں گی نہ بحرین کے لوگوں کی طرف کوئی ٹھنڈی ہوا جائے گی۔ اسی طرح مغرب اور امریکا کے بارے میں بھی سعودی عرب کی پالیسیاں برقرار رہیں گی۔ اسرائیل کے بارے میں بھی اس کی پالیسیاں جاری رہیں گی۔ حماس اور اخوان المسلمین جیسی تنظیمیں سعودی عرب کے نزدیک دہشت گرد ہی قرارپائیں گی۔ ’’معتدل اسلام‘‘ کا اثر ان پالیسیوں کو اعتدال کی طرف لانے میں دکھائی نہیں دے گا۔ یہ پالیسیاں جس طرف سعودی عرب کو لے جا رہی ہیں گویا وہ اسی طرف جاتا رہے گا۔

ان امکانات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا مناسب ہو گا کہ سعودی قیادت کو ایک نئی اور جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اسے ایسی نئی اقتصادی پالیسیوں کی ضرورت ہے جو اسے تیل کی کم ہوجانے والی آمدنی کی وجہ سے لاحق مشکلات سے نکال سکیں۔ سعودی عرب کو داخلی طور پر اپنے تمام طبقوں اور معاشروں کو بھی ہم آہنگ کرکے حکومت اور عوام کی یکتائی کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ مغرب پر اور خصوصاً امریکا کی حمایت پر انحصار سعودی عرب کو ختم کرنا ہوگا۔ خطے کے مختلف ملکوں کے ساتھ دوستانہ روابط کی سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ اسلحہ کی خریداری پر بھروسہ کرنے کے بجائے مذاکرات کی سیاست کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ ورنہ محمد بن سلمان کا’’معتدل اسلام‘‘ سعودی مملکت کے درد کا مداوا نہیں بن سکے گا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...