ٹیکنوکریٹ حکمرانی۔۔۔آئین سے کھلواڑ

1,132

سپریم کورٹ کے فیصلے اور نواز شریف کی  نااہلی کے بعد جن نام نہاد مبصرین نے دعویٰ کیا تھا کہ نواز شریف اس فیصلے کے بعد مقتدر قوت کے ساتھ ڈیل کرکے باہر چلیں جائیں گے کیونکہ  میاں نواز شریف کی سرشت میں مصالحت،موقع پرستی گہرائی کے ساتھ سرایت شدہ ہے،لہٰذا وہ مزاحمت نہیں کریں گے۔اب وہی گروہ میاں نواز شریف کی مزاحمتی پالیسی کو ہدف تنقید بنا رہا ہے اور شہباز شریف کے موقف کی تائید کررہا ہے کہ مفاہمت کے ذریعے مقتدر حلقوں سے صلح کرلی جائے۔ناقدین میاں شہباز شریف کی سوچ کو مدبرانہ عملیت پسندی ثابت کررہے ہیں، ان کے نزدیک نواز شریف کی مزاحمتی حکمت عملی محض شخصی انانیت ہے جو اداروں کے ساتھ تصادم  کرواکے تباہی کا راستہ ہموار کرے گی۔سوال یہ ہے کہ  اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کے ایک فریق تو نواز شریف  اوران کے ہم خیال  ساتھی ہیں لیکن اس تصادم و کشیدگی کا فریق ثانی کون ہے؟  وہ کن اصولوں کو جواز  بنا  کر محاذ آرائی پہ تلے ہوئے ہیں؟ناقدین کبھی بھی  اس گروہ کا رخ دوسری طرف موڑنے کی کوشش نہیں  کرتےاور نہ ہی انہیں   یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنے کردار اور  فرائض  کوآئینی حدود تک محدود رکھیں۔

ذرائع ابلاغ میں بڑے فخر سے لکھا اور بولا جارہا ہے کہ فوج چاہتی ہے کہ نواز شریف کی بجائے شہباز شریف مسلم لیگ کے سربراہ ہوں۔اس تجویز پر اتفاق و اختلاف کے پہلو ہوسکتے ہیں مگرسوال یہ ہے کہ ملکی دفاع کے ایک محترم اور اہم ادارے کی ساکھ،وقار پر دھبہ لگانے والی اس طرح کی خبریں کیوں چھپتی ہیں؟وہ ادارہ جسکی طرف سے آئینی  بالادستی کا عزم واشگاف الفاظ میں آچکا ہے،ایسی خبروں پر کیوں چپ سادھے ہوئے ہے، حالانکہ ایسی خبریں دینے والے اپنے آپ کو عسکری ترجمان کہتے ہیں اور عسکری اداروں سے قربت کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ یہی لوگ دو ماہ میں ٹیکنوکریٹ حکومت کا فیصلہ کن شوشہ بھی چھوڑ چکے ہیں ، گو کہ آئی ایس پی آر نے اس کی تردید کی  ہے لیکن افواہوں اور رازدارانہ انداز بیان کے ذریعے انکشاف کرنے والے مسلسل اس تھیوری پرجلد عمل کی سرگوشیاں کررہے ہیں۔اس پر مستزاد یہ کہ جماعت اسلامی کے سربراہ جناب سراج الحق نے بھی “پہلے احتساب پھر انتخاب کے نعرے کا اعادہ کردیا ہے”جسے جناب پیرپگاڑا کے  بیان سے مزید تقویت ملی ہے۔پیر صاحب نے ارشاد فرمایا ہے کہ2018ء میں انتخابات کرانے گئے تو خون خرابہ ہوگا۔یادش بخیر2013ء کے انتخابات ملتوی کرانے کیلئے بھی ایسی ہی دلیلوں کا مختلف جماعتوں نے سہارا لیا تھا۔اب پیر صاحب نے تو فرما دیا ہے کہ اگلے سال انتخابات نہیں ہوں گے۔کیا یہ مفروضہ  بیان تین سالہ دور اقتدار پر مشتمل ٹیکنوکریٹ حکومت کے قیام کی پیش  بندی ہے،ایک سیاسی بیانیہ ہے یا اطلاعات پر مبنی ایک  اعلان؟میں میاں شہباز شریف کے اس نقطہ نظر کی تائید کرتا ہوں کہ سینیٹ کے انتخابات تک مزاحمت کی بجائے مفاہمت یا خاموشی اختیار کرلی جائے مگر یہ ایک غیر سیاسی  اورموقع پرستانہ رجحان  ہوگا ۔تاہم اس سے برآمد ہونے والے نتیجے کو( سینیٹ انتخابات) جو سیاسی توازن کو بدل دے گا ،ملحوظ رکھتے ہوئے اس کی تائید کی جاسکتی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ اگر اگلے سال انتخابات کا امکان ہی نہیں تو پھر سینیٹ انتخابات اور تب تک مفاہمت کی کیا اہمیت و افادیت باقی رہ جاتی ہے؟اگر عام انتخابات کا انعقاد واقعتاً مشکوک ہورہا ہے تو پھر نواز شریف کو تمام سیاسی جماعتوں اور جمہوریت پسند حلقوں کو ساتھ ملا کر زیادہ وسیع المعنی سیاسی مزاحمتی تحریک منظم کرنے پر غور کرنا ہوگا۔

یہ سوال بہر طور تجزیے کا متقاضی ہےکہ  ٹیکنوکریٹ حکومت کس طرح قائم ہوسکتی ہے؟ یہ بات تو واضح ہے کہ آئین پاکستان میں اس کی کوئی گنجائش  نہیں لیکن نام نہاد ماہرین پر مشتمل عبوری حکومت کے ذریعے اعلیٰ عدلیہ میں  پٹیشن دائر کی جاسکتی ہے جس میں احتساب کی تکمیل،بدامنی کی فضا اور نئی مردم شماری کی روشنی میں اسمبلیوں کے ارکان کی تعداد کا ازسر نو تعین کرنے،نئی انتخابی حلقہ بندیاں قائم کرنے جیسے سوالات اٹھائے جائیں اور عدلیہ سے مؤدبانہ التماس کی جائے کہ وہ نظریہ ضرورت کے تحت عبوری حکومت کو قانونی جواز کے تحت متذکرہ اہداف کے حصول کا حکم اور تین سال کی مہلت عنایت کردے۔
رہا یہ سوال کہ کیا عدلیہ ایسی درخواست کو پذیرائی دے سکے گی تو اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔پھر کس بنیاد پر ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ کا خاکہ مرتب کرلیا جائے؟محض  یقین دہانیوں کی بنا پر اس خواب کی تعبیر ممکن نہیں ہے۔دوسرا راستہ طاقت کی منطق کا ہے کہ پارلیمنٹ کے ارکان کو مجبور کردیا جائے کہ وہ خود رخصت ہونے سے قبل آئین میں عبوری ترمیم کرجائیں مگر اس جبر اور دباؤ کے کیا ذرائع ہوسکتے ہیں ان کا تذکرہ مناسب نہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بذریعہ پارلیمان ٹیکنوکریٹ حکومت کے قیام کا خواب دیکھنے والے  یہ بھول گئے ہیں کہ اراکین اسمبلی کسی کی خاطر مذکورہ تجویز کو قبولیت  کیوں بخشیں گے۔کیا وہ ایسی حکومت کو آئینی تحفظ دینے پر آمادہ ہوسکتے ہیں جو خود سیاستدانوں کو تین سال تک اقتدار و قانون سازی سے  محروم کرنے کا ارادہ رکھتی ہو؟یا وہ  حکومت آئینی تحفظ پانے کے بعد سیاستدانوں کے کپڑے اتارنے کا ارادہ بھی رکھتی ہو؟لہٰذا ٹیکنوکریٹ یا ماہرین کی خدمات سے استفادہ کرنے کے جو آئینی ذرائع ہیں ،انہیں استعمال میں لایا جائے کیونکہ آئین سے کھلواڑ کی اب گنجائش ہے نہ افادیت۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...