علاجِ غم نہیں کرتےفقط تقریر کرتے ہیں
پاکستان کے تجارتی اہداف کو حاصل کرنے کیلئے وزارتِ تجارت کے کرتا دھرتا ؤں نے بلند وبانگ دعوؤں ، جہاں گردیوں اوراکتا دینے والے لایعنی اجلاسوں کے سوا ملک کی کوئی خدمت سر انجام نہیں دی۔ تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے ، حصص گر گئے ہیں، تجارتی شرائط وضوابط شراکت داروں کے رحم و کرم پر ہیں اور علاقائی تعاون کا پیش نامہ (ایجنڈا) سیاست کی نذر ہو چکا ہے۔ نجی تجارتی شعبہ اور اس کے نمائندہ ادارے اس صورتِ حال سے پہلو تہی نہیں کر سکتے مگر وہ مناسب نفع پر مبنی تجارتی حکمتِ عملی پر اکتفا کرنے کے بجائے مراعات کیلئے حکومت پر بری طرح دباؤ ڈالے ہوئے ہیں۔
عالمی منڈی میں سرمایہ کاری کے مسابقتی رجحانات کی طرف اپنے اراکین کی رہنمائی اور ان کی کاروباری معاونت میں تمام ترتجارتی اکائیاں ناکام رہی ہیں اور معمولی نفع کے حصول کیلئے اپنی چودھراہٹ قائم رکھنے کی روایت کو فروغ دے رہی ہیں۔پاکستان بزنس کونسل، جو اپنے آپ کو کونفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری کے مدِ مقابل کے طور پر پیش کرتی ہے، اس سے مستثنا ہے۔ کونسل نے تجارت کی موجودہ صورتِ حال اور بہتری کی تجاویز پر قابلِ قدر تحقیقی کام کیا ہے جس سے دو طرفہ تجارت کے تاریخی اعداد و شمار سامنے آئے ہیں جو تجارتی دائرہِ کار اور اس کی وسعت کو واضح کرتے ہیں۔ پاکستان بزنس کونسل نے کاروباری حکمتِ عملی اور تمام دوطرفہ و سہ طرفہ تجارتی معاہدات میں نقائص کی نشاندہی کی اور حکومت سے مطالبہ کیاکہ وہ مستقبل میں آزادانہ تجارت اور تمام ترجیحی تجارتی معاہدات پر پابندی عائد کرے ۔بینک دولت پاکستان کی سالانہ روئداد کے مطابق ” معاشی خسارے میں حالیہ اضافہ ملکی درآمدات میں .817 فیصداضافے کی وجہ سے ہوا ہےجو مالی سال 2017 ء کے آخر تک 48.6 بلین ڈالر کی ریکارڈ حد تک پہنچ جائے گا۔ پچھلے تین برسوں کے دوران برآمدات میں مسلسل کمی کے باعث رواں مالی سال کے آخر تک تجارتی خسارہ 32.5بلین ڈالر تک چلا جائے گا۔قدرِ مطلق اور شرح جی ڈی پی ہر دو حوالوں سے ملکی برآمدات میں کمی بیرونی کاروباری و تجارتی شعبہ جات میں استحکام سے متعلق مسائل کھڑے کر رہی ہے۔” تجارتی اعدادو شمار کا بغور جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ بد قسمتی سے ہر سارک ملک کے ساتھ انفرادی طور پر اور خطے میں مجموعی طور پاکستان کےحصص سکڑچکے ہیں۔رواں مالی سال کے سالانہ شماریاتی ضمیمے میں بینک دولت پاکستان نے جنوب اور وسط ایشیائی ملکوں کا اندراج ایک ساتھ کسی وجہ سے کیا ہے۔
مالی سال 2015ء سے رواں سال تک خطے میں برآمدات 3.1 بلین ڈالر سے سکڑ کر2.5 بلیں ڈالر تک آگئی ہیں جبکہ درآمدات 1.58 بلین ڈالر سے بڑھ کر 1.98 بلین ڈالر تک جا چکی ہیں۔یہ اعدادوشمار علاقائی شراکت داروں کے ساتھ تجارتی توازن کی زوال پذیری کا مظہر ہیں۔ انہیں سالوں کے دوران علاقائی تجارتی حجم 4.71 بلین ڈالر سے کم ہو کر 4.40 بلین ڈالر تک سکڑ گیا ہے۔اس کے ساتھ ہی اب تک افغانستان کے ساتھ دوطرفہ تجارت 1.7 بلین ڈالر سے 1.1 بلین ڈالر، بنگلہ دیش کے ساتھ 0.74 بلین ڈالر سے 0.68 بلین ڈالر، ایران کے ساتھ 0.31 بلین ڈالر سے 0.3 بلین ڈالر اور سری لنکا کے ساتھ 0.54 بلین ڈالر سے 0.10 بلین ڈالر تک کم ہو چکی ہے۔صرف بھارت ایسا ملک ہے جس سے مالی سال 2015 ء سے رواں مالی سال تک تجارتی حجم 1.8بلین ڈالر سے 3.1بلین ڈالر تک پھیلا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ مشرقی ہمسائے سے تجارتی حجم کی اس بڑھوتری میں درآمدات نے نمایاں کردار ادا کیا۔
کچھ ہفتوں پہلے ہی ملک کی اقتصادی صورتِ حال سےمتعلق کراچی میں ایک پرجوش اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ نے علاقائی تجارت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی قسمت علاقائی استحکام کے مستقبل سے جڑی ہوئی ہے۔اس بارے وزارتِ تجارت کے منتظمین سے بارہا رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر اعلیٰ انتظامی عہدیداران کے بیرونِ ملک ہونے کی وجہ سے یہ کوشش رائیگاں گئی جبکہ نچلے درجے کے عہدیداران نے ذرائع ابلاغ سے معلومات کے تبادلے کی اجازت نہ ہونے کا عذر ظاہر کیا۔ تاہم کچھ افسران نے انفرادی طور پریہ تسلیم کیا کہ وزارت کی ناگفتہ بہ کارکردگی کی ان کے پاس کوئی قابلِ ذکر وجہ نہیں ہے۔ بالخصوص اس وقت سے متعلق جب نجی شعبہ کافی عرصہ خاموشی کے بعد تجارتی و پیداواری اساس کو وسعت دینے پر آمادگی کا اظہار کر رہا تھا۔ وزارت کے اندرونی ذرائع نے اعلیٰ وزارتی منتظمین کے پیچیدہ مسائل کے بارے میں اخبار کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ اعلیٰ افسران کے ذاتی مقاصد ان مسائل سے جڑے ہوئے ہیں۔وزارت کی مایوس کن کارکردگی پر ایک افسر پھٹ پڑے اور کہا” یہاں بہت کچھ ہو رہا ہے ، مگربدقسمتی سے درست سمت میں نہیں۔ سیاسی رہنماؤں کے علاقائی تعاون کے وعدے صرف سیاسی نعرے تھے جو کسی کیلئے کوئی اہمیت نہیں رکھتے تھے۔سارک سے وابستگی نے پاکستان کو کچھ نہیں دیا اور پاکستان تنزلی کی سمت جا رہا ہے۔”
علاقائی تعاون تنظیم کے اسلام آباد میں واقع دفتر کے ایک افسر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا “یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ پاکستان کی علاقائی تجارت کی شرح خطے کے کل تجارتی حجم میں علاقائی حصص کی اوسط شرح سے بھی کم ہے۔ 2012 میں جب بین العلاقائی تجارت کی شرح 4.2 فیصد تھی تو پاکستان میں 3.5 فیصد تھی اور جب 2016 میں یہ شرح 5.5 فیصد کی حد کو پہنچی تو پاکستان میں صرف 4.5 فیصد کی حد تک بڑھ سکی۔” 2017 میں ایشیائی ترقیاتی بینک نے علاقائی اقتصادی تعاون کی رپورٹ میں علاقائی تعاون کے جائزے کیلئے Asia- Pacific Regional Cooperation and Integration Index متعارف کرایا جو چھ حوالوں سے نمائندہ ممالک کی کارکردگی کی جانچ کر تا ہے۔ یہ فہرست تجارت و سرمایہ کاری ، مالیات و زرِ مبادلہ، علاقائی قدروں میں تغیر، تعمیراتی ڈھانچہ اوررابطہ سازی، لوگوں کی آمدو رفت اور سماجی و اداراتی تعاون کی بنیادوں پر ممالک کی کارکردگی کا احاطہ کرتی ہے اور علاقائی ہم آہنگی و تعاون کی بہتری کیلئے پالیسی سازوں کو اس کے اجزائے ترکیبی کو سمجھنے اور ان کی پیمائش کیلئے سہولت فراہم کرتی ہے۔یہ فہرست Pacific ممالک کیلئے تو کارگر ہے مگر پاکستان اور دیگر جنوب ایشیائی ممالک کیلئے نہیں کیونکہ اس میں بیشتر جنوب ایشیائی ممالک کو شامل نہیں کیا گیا۔ایک ماہرِ اقتصادیات نے نہایت محتاط انداز میں بات کرتے ہوئے کہا “اسلام آباد تجارتی سفارتکاری کی اہلیت نہیں رکھتا کیونکہ اس کیلئے خاص مہارت درکار ہوتی ہے جو ہمارے بیوروکریٹس میں نہیں ہے۔مگر دراصل جو مسئلہ ہے وہ طاقتور اداروں کا خوف ہے جنہیں بدلاؤ سے نفرت ہے۔”
(ترجمہ: حذیفہ مسعود، بشکریہ ڈان)
فیس بک پر تبصرے