جنوبی ایشیا میں داعش کا ظہور
حامد کرزئی کاکہنا ہے کہ امریکی فورسز افغانستان میں داعش کو اسلحہ اور تربیت دے رہی ہیں۔ نجی ٹی وی چینل کو دئے گئے انٹرویو میں انہوں نے انکشاف کیا کہ امریکی اڈوں سے غیر فوجی ہیلی کاپٹرز داعش کے ٹھکانوں تک سازوسامان پہنچاتے ہیں۔ القاعدہ اور طالبان بلاشبہ پہلے سے یہاں موجود تھے تاہم داعش کا وجود افغانستان میں امریکی خفیہ اداروں کے مرہونِ منت ہے۔ امریکہ یہاں امن و استحکام لانے کیلئے آیا تھا لیکن امریکی فوج اور خفیہ اداروں کی موجودگی شدت پسندی بڑھانے کا وسیلہ بن گئی۔اس سے قبل روسی صدر پیوٹن بھی یہ الزام عائد کر چکے ہیں کہ عراق و شام کے بیشتر علاقوں میں داعش کے مضبوط ٹھکانے امریکی فورسز کے تحفظ میں ہیں جنہیں روسی فضائیہ نشانہ نہیں بنا سکتی۔
مشرق وسطیٰ کے معاملات پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگار خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ امریکہ شام کے جنوبی علاقوں میں داعش کی سنی ریاست بنانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ مشرقی عراق کے ایرانی بارڈر سے ملحقہ علاقوں میں کرد ریاست کے قیام کا منصوبہ بھی عراق کو نسلی اور مسلکی بنیادوں پر منقسم کرنے کی سازش کا عکاس ہے۔ دمشق اور کیپرئیوکے علاقوں میں ایسی شیعہ ریاست بنانے کی کوشش کی جائے گی جو سنی ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان حائل رہے۔ اگر ایسا ہوگیا تو سعودی عرب اور ایران کے جغرافیہ کو مربوط رکھنا مشکل ہوجائے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا افغانستان میں داعش کی افزائش بھی جنوبی ایشاء میں جغرافیائی تبدیلیوں کی محرک بن سکتی ہے؟غالب امکان یہی ہے کہ امریکہ داعش سمیت دیگر انتہا پسند گروپوں کے ذریعے پاک افغان بارڈر پر نسلی تعصبات سے ممّلو مذہبی ریاست بنا کر اس خطہ کے جغرافیہ کو بدلنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ فاٹا میں اصلاحات کے نفاذ کیلئے امریکی انتظامیہ کی غیر معمولی دلچسپی اس گریٹ گیم کو اسباب مہیا کرنے کی ابتداء ہو سکتی ہے لیکن جبری تقسیم کی یہ لہریں بالآخر بھارت سمیت خطہ کے دیگر ممالک کی جغرافیائی وحدت کو بھی منتشرکر دیں گی۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ 20 ویں صدی کے دوسرے عشرہ سے ہی روس اور امریکہ نے دنیا کے مادی وسائل پر یکساں تصرف اور عالمی معاملات پر حتمی اجارہ داری کی خاطر سرد جنگ کے پردوں تلے تاجرانہ لین دین کا بازار گرم رکھاہے۔ رواں صدی میں لڑی جانے والی دو عالمی جنگیں بھی دراصل اس کرہِ ارض کے وسائل اور اقوام کو کئی حصوں میں تقسیم کرنے کی سکیم کا ذریعہ تھیں ۔ 1960 کی دہائی میں جب وسط مشرقی ممالک عرب قوم پرستی اور سوشل ازم کے نظریات سے متاثر ہو کر روسی بلاک جوائن کر رہے تھے اسی دور میں سوویت یونین مصر میں دنیا کے دوسرے بڑے اسوان ڈیم کی تعمیر کے ذریعے شرق الاوسط میں اپنے پاؤں مضبوط کرنے میں مشغول تھا۔ اسی اثناء میں روسی قیادت نے اسرائیلی اثر و رسوخ کے ذریعے امریکہ سے خفیہ ڈیل کر کے مشرقی یورپ پر روسی تسلط کو خاموشی سے تسلیم کرنے کے عوض عرب ممالک سے دستبرداری قبول کرلی۔ چنانچہ کیمونسٹ روسی قیادت، مصر،شام، لیبیااور عراق جیسی سوشلسٹ حکومتوں کو امریکی استعمار کے حوالے کرتے ہوئے اسوان ڈیم کا تعمیراتی کام ادھورا چھوڑ کر اچانک واپس پلٹ گئی۔ بعد ازاں امریکہ نے اسوان ڈیم کی تعمیر کا باقی ماندہ کام مکمل کیا اور اسی عہد میں امریکی ایجنسیوں نے بلاد عرب میں شدت پسند مذہبی تحریکوں کی آبیاری کر کے امت مسلمہ کو داخلی انتشار کی آگ میں دھکیل دیا۔
80 ء کی دہائی میں سوویت زوال پذیر ہوا تو مشرقی یورپ کے چھوٹے ممالک کیمونزم کی آہنی دیواریں توڑ کے ایک بار پھر روشن یورپ سے ہم آغوش ہوئے۔بیسویں صدی کے آخری عشرے میں روس بدترین معاشی بحرانوں کا شکار رہا لیکن اکیسویں صدی کے آغاز پر نائن الیون کے بعد امریکہ کے افغانستان اور عراق کی جنگوں میں الجھ جانے کے باعث روس اور چین کو تیزی سے معاشی ترقی پانے کے مواقع ملے(یا دانستہ فراہم کئے گئے) تو دونوں ممالک نے غیر روائتی اتحاد کے ذریعے مشرق و مغرب کی جغرافیائی حدود تک اپنے معاشی و سیاسی اثرات کو وسعت دیکر ایک بار پھر خود کو کرہ ارض کے معاملات کا اسٹیک ہولڈر اور اقوام عالم کے وسائل پر یکساں تصرف کے قابل بنا لیا۔ جب شام میں امریکی انتظامیہ نے بشارالاسد حکومت کا تختہ الٹ کر وہاں سنی ریاست کے قیام کی کوششوں کا آغاز کیا تو روس نے فوجی مداخلت کر کے اس منصوبہ کی راہ روک لی نتیجتاً تاریخ میں پہلی بار امریکی حکومت کو شام پر مکمل جنگ مسلط کرنے کا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ روسی مداخلت نے شام میں امریکی عزائم کی راہ روک لی لیکن اگر ماضی وحال کے معاملات کو جوڑ کے دیکھا جائے تو روس کی تازہ مزاحمت بھی ماضی کی اسی منافع بخش سکیم کا عکس نظر آتی ہے جس کے تحت1950 اور 1960کی دہائی میں ایک غیر مرئی بندوبست کے تحت دنیا بھر کے اقوام اور وسائل امریکہ اور روس کے درمیان منقسم رہے۔ حال ہی میں سعودی عرب کے امریکہ سے چار ارب ڈالرز اور روس سے تین ارب ڈالرزکا اسلحہ خریدنے کے معاہدے اس امرکی تصدیق کرتے ہیں کہ کمزور اقوام کے وسائل پر تصرف پانے کے لئے امریکہ اور روس کے درمیان اب بھی کوئی نادیدہ گٹھ جوڑ موجود ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے موجودہ و آئندہ حالات و واقعات میں امریکہ کے ساتھ روسی ایما بھی شامل ہو گی اور دونوں ملکوں کے درمیان طے شدہ معاملات کو ایک مشتبہ مگر منضبط کشمکش کے ذریعے روبہ عمل لا کر مقہور اقوام کا استحصال کیا جائے گا۔ بلاشبہ مقدس آمریتیں ہمیشہ استعماری تشدد کو سرمایہ فراہم کر کے سیاسی استیلاء کا سبب بنتی ہیں۔جدید رموزحکمرانی کی مہارت کی حامل روس و امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں پر مشتمل عالمی اسٹبلشمنٹ حالات کے دھارے کو اپنی مرضی کے مطابق گردش کناں رکھنے کی خاطرملکر کانفلکٹ منیجمنٹ کرتی ہے تاہم انہی سودا بازیوں کے پہلو بہ پہلو وہ ایک دوسرے پر خفیہ حملے اور بعض اوقات ایک دوسرے کو سنگین نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔ ابھی حال ہی میں شام کے شہر دارالعزر میں داعش کے مبینہ حملوں کے دوران روسی جنرل ویلرے کی ہلاکت اسی خفیہ کشمکش کا شاخسانہ تھی۔
اگرچہ ایسی ہی جدلیات اجتماعی حیات کی جزیات تک برپا رہتی ہے لیکن وسیع ترمصالح اور عظیم ترین مقاصد کے دائروں میں خاص قسم کی ہم آہنگی دونوں ممالک کی بقاء باہمی کے لئے لازم ہوتی ہے۔روس اور مریکہ اگر ایک دوسرے کے خلاف عملاًبر سر جنگ رہتے تو دنیا آزاد ہو جاتی جیسے ہٹلر نے جنگ عظیم دوم چھیڑکر مشرق و مغرب پر مسلط برطانوی استعمارکو اپنے تین جزائر میں سمٹنے پر مجبور کر دیاتھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان کی آزادی جنگ عظیم دوم کا فطری نتیجہ تھی لیکن افسوس کہ یہ دونوں ممالک براہ راست لڑنے کی بجائے چھوٹے ممالک کو میدان جنگ بنا کر ان کے وسائل اور حاکمیت اعلی کو سلب کر لیتے ہیں اور دنیا کے جغرافیہ کو اپنی ضرورتوں کے مطابق بدلتے رہتے ہیں۔اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں عراق، شام اور سعودی عرب کے وسائل پہ قبضہ اور خطہ کی جغرافیائی تقسیم کے ذریعے وہاں چھوٹی اور تابع فرمان شیعہ اور سنی ریاستیں بنانے کی سکیم پر امریکی اور روسی قیادت کے مابین سنجیدہ مشاورت جاری ہے۔شاید پاکستان کو روس اور چین کی طرف دھکیلنے کی امریکی حکمت عملی بھی ایسی ہی کسی سکیم کا حصہ ہو۔اگر افغانستان میں داعش کے ظہور کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ روس ایک بار پھر داعش کے خطرہ کو جواز بنا کر افغانستان میں فوجی مداخلت کے ذریعے جنوبی ایشیا میں وسائل اور جغرافیہ کی تقسیم کے دو طرفہ عمل کو نتیجہ خیز بنانے میں امریکہ کی مدد کر سکتا ہے۔
فیس بک پر تبصرے