ریاست کا چوتھا ستون۔۔۔آزاد میڈیا یا زرد صحافت

1,032

صحافت کاتعلق صحیفہ سے ہے ،عربی زبان میں وہ چیز جس میں کچھ لکھا جاتا ہے،اُسے صحیفہ کہتے ہیں۔ گویا صحافت کا تعلق لکھنے سے ہے اور لکھا قلم سے جاتا ہے ۔ قلم کی حرمت کا یہ عالم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں قلم کی قسم کھائی ہے ۔ مولانا روم نے کہا ہے کہ علم کو “من”پہ مارو تو یار یعنی دوست بن جاتا ہے اگر” تن”پہ مارو تو ماریعنی سانپ بن جاتا ہے ۔ ایسا ہی معاملہ قلم کا ہے بہت سے لوگوں نے قلم بیچ کر اپنا تن بلکہ کئی تن پالے ہیں اور اسی قلم سے کئی لوگوں نے من کی پرورش کی اور اسے اپنا دوست بنایا ہے۔
ہماری تاریخ ایسے مشاہیر کے ذکر سےبھری ہوئی ہے جنہوں نے قلم کی حرمت و تقدس کی خاطر ہر طرح کی صعوبتیں اٹھائیں  لیکن اس کا سودا نہ کیا اور ایسے بھی ہیں جنہوں نے قدم قدم پہ اس عفت مآب کو بیچ ڈالا۔ وہ اہل قلم نہیں  ،قلم کے بیوپاری تھے جو چند روز کے فاقوں اورخستہ حالی کا مقابلہ نہ کرسکے۔اپنے نظریات کی دوکان سجائے کسی بڑے گاہک کے انتظار میں رہے اور ایک ہی بار سارا سودا بیچ کر راتوں رات امیر ہو گئے ۔کچھ ایسے سر پھرے بھی تھے جنہیں بقول فیض احمد فیض یہ دُھن سوار تھی۔
ہم پرورش لوح وقلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
ہاں تلخیِ ایام ابھی اور بڑھے گی
ہاں اہلِ ستم، مشقِ ستم کرتے رہیں گے
منظور یہ تلخی یہ ستم ہم کو گوارا
دم ہے تو مداوۂ الم کرتے رہیں گے
مے خانہ سلامت ہے تو ہم سرخئی مے سے
تزئین درو بامِ حرم کرتے رہیں گے
بدلتے حالات وواقعات کے ساتھ، ایسے “آشفتہ سروں” میں کمی ضرور آئی ہے لیکن ابھی “نایاب” نہیں ہوئے۔ تخلیقِ پاکستان سے قبل شاعر، ادیب اورصحافی انگریز کی بدیسی حکومت کے خلاف اپنے عوام کی ذہن سازی کرتے رہے۔ انہوں نے مسلمانوں کی اخلاقی تعلیم و تربیت کیلئے بہت کچھ لکھا اوربولا۔تخلیق پاکستان کے بعد انہی کے خاندان اور ان کے علاوہ بہت سے لوگ پاکستان منتقل ہوئے۔ یہاں انہوں نے روزانہ، ماہانہ ، ہفتہ وار اور پندرہ روزہ کی بنیاد پہ اخبارات ، رسائل اور میگزین کا سلسلہ شروع کیا۔ پاکستان میں آمرانہ اور جمہوری حکومتوں کے دوران ،عوام کی سیاسی تربیت کے لئے صحافت کا کردار اہم ہوتا چلاگیا جس سے صحافیوں کا بھی حکومتوں کے استحکام میں عمل دخل بڑھ گیا۔ صحافیوں کے اس کردار نے  انہیں اقتدار کے ایوانوں میں  پہنچا دیا جس کے بعد چل سو چل ۔ یہ ایک ایسی بھیڑ چال شروع ہو ئی ہے جس کا اختتام دکھائی نہیں دیتا۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ میڈیا پاکستانی ریاست کاچوتھا “آزاد ستون” بن چکا ہے جو ہر شخص کے ظلم اور استحصال کا رونا روتا اور تنقید کرتادکھائی دیتا ہے لیکن جوظلم و استحصال خود میڈیا اپنے ملازمین اورغریب ورکروں پہ کر تا ہے اس کا کوئی ذکر نہیں ہوتا۔ انکا مداوا جمہوری حکومتیں بھی نہیں کر سکتیں کیونکہ صحافت کے” سر پینچ” ان کی حکومت کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں۔ اس طرح محکوم طبقہ تنخواہوں سے محروم خودکشی پہ مجبور ہوجاتا ہے لیکن ان کی خودکشی کی خبر بھی کوئی ٹی وی چینل نہیں چلاتا اور نہ اخبار شائع کرتا حالانکہ یہ ایک” بریکنگ نیوز” ہوتی ہے

وہ علمائے کرام جو آئے روز فحاشی ،عریانی کارونا روتے اور پی ٹی وی کی عمارت کے سامنے بینرز لیے کھڑے ہوتے تھے۔ اب وہ کبھی کسی چینل کے سامنے احتجاج کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ اب انہیں ظلم دکھائی دیتاہے اور نہ فحاشی ۔ یہ  مذہب ، سیاست اور صحافت کاایسا ٹرائیکاہے جس کا یک نکاتی ایجنڈا ہے کہ عوام کانہیں بس اپنے مفاد کا تحفظ کرو۔

 

پاکستانی عوام کے حقوق کی جنگ لڑنے والوں نے کبھی میڈیا کے مظلوموں کی جنگ نہیں لڑی۔ یہ جنگ صرف اور صرف حکومت کیخلاف کیوں ہوتی ہے، روز روز نئے چینلز اور اخبارات نکالنے والے ، اپنے محکوم طبقے کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں اس ظلم کے خلاف کوئی بھی کھڑا نہیں ہوتا۔ان کی جنگ کوئی سیاستدان ،مذہبی رہنما ، سول سوسائٹی اور کوئی سینئر سٹیزن نہیں لڑتا آخر کیوں؟

 

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...