رہمنما کسے تسلیم کریں؟

1,034

پاکستانی مسلمانوں کی سادہ دلی اوراسلام سے غیرمشروط محبت کے ثبوت کے لئے یہی بات کافی ہے، جس سے پاکستان، اسلام اور پیغمبر اسلام  ﷺسے محبت وعشق کی بات سنتے ہیں اس کے گن گاتے اوراس کے پیچھے چل پڑتے ہیں ۔ ایک لحاظ سے یکسوئی اور یکجائی کی اعلیٰ مثال ہے ۔ دوسری طرف اس کا تجزیہ کیا جائے تو اس میں ہوشمندی، دانائی اور تدبر نہ ہو تو عملی زندگی میں اس کے نتائج نہایت سنگین اور منفی بھی ظاہر ہوسکتے ہیں۔پاکستان کی تاریخ اس نکتہ کو سمجھنے کے لئے بہت سی مثالیں اپنے دامن میں چھپائے ہوئے ہے۔
کسی تحریک یااس کے راہنما کے مجموعی مزاج و مذاق کوسمجھنا بہت ضروری ہوتاہے۔ کراچی کی ایم کیو ایم ہو،طالبان ہوں  یا سپاہ صحابہ یا ان سے ملتی جلتی کسی تحریک کے مقاصد کبھی بھی ادنیٰ نہیں رہے۔ طالبان اس خطے کو امریکہ کی غلامی سے آزاد  کرواکے یہاں نفاذ اسلام چاہتے تھے۔ ایم کیوایم مہاجر قوم کی ترقی اور بہتری کے لئے قائم ہوئی تھی۔اسی طرح سپاہ صحابہ تحفظ ناموسِ صحابہ کے عظیم مقصد کے  لئے قائم ہوئی ۔ان مقاصد کے تقدس اور اہمیت سے کسی مسلمان کو انکارنہیں لیکن صرف اِن مقاصد سے جذباتی وابستگی ہر مسئلے کاحل نہیں ہے۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ ان مقاصد کو لیکر اٹھے ہیں ان کی زبان، لہجہ اورماضی میں تربیت اورذہنی ساخت کیسی ہے؟ ایک جماعت کے وجود کے جواز اورعوامی حمایت کے لئے سب سے پہلی خوبی عسکری رویہ سے پاک ہونا ہے، دوسری خوبی فرقہ واریت و تعصب سے مبرّاء  اورتیسری خوبی شدت و تشدد کی سوچ سے بلند ہونا ہے ۔کوئی بھی جماعت خوشنما اور خوبصورت نعروں اور مقاصد سے مزّین ہولیکن وہ عسکری سوچ رکھتی ہویا فرقہ واریت کامزاج یاشدت و عدم برداشت کے جراثیم رکھتی ہے تو نعروں کی بنیاد پر اس کی حمایت و شمولیت پاکستان کے لئے خطرناک ہی نہیں مہلک بھی ہو سکتی ہے۔اب یہ ذمہ داری قوم کے کندھوں پہ آ گئی ہے کہ وہ جذباتیت کے بجائے عقل وہوش سے فیصلہ کریں کہ انہوں نے کسے اپنا راہنما تسلیم کرنا ہے۔
گزشتہ دہائی میں ہمارے مذہبی و سیاسی طبقے طالبان کی حمایت ومخالفت پہ تقسیم رہے، کچھ نے طالبان کی علی الاعلان حمایت کی، بعض نے علی الاعلان مخالفت کی اور ایسے بھی تھے جنہوں نے سکوت اختیار کیا۔ پاکستان کی تباہی وبربادی فقط طالبان کے ” اعلیٰ مقاصد”کی وجہ سے برداشت کی گئی۔اب دوبارہ پاکستان کوا سی صورتِ حال کاسامنا ہے لیکن مختلف انداز میں۔سکرپٹ  رائٹر اور فنکار بدل گئے ہیں لیکن پلاٹنگ(Plotting)وہی ہے۔ ہم اس صورتِ حال کا طالبان سے تقابل نہیں کرسکتے لیکن اس کا آغاز سے تجزیہ نہ ہوا تو صورتِ حال گھمبیر ہو سکتی ہے کیونکہ افرادی قوت میں اضافہ سرمائے کی آمد کا سبب ہوتا ہے۔ جب یہ دونوں مل جائیں تو قدم کسی طرف بھی اٹھ سکتے ہیں ۔اس کی بنیادوں میں مصالحہ وہی ہے جس پہ متشدد تحریکوں کی عمارت کھڑی ہوتی ہے مثلاً اپنے موقف سے مختلف رائے رکھنے والے کیخلاف سخت گیررویہ، دوسرے مسالک کے علماء و عوام سے میل جول سے پرہیز ، تقریر و کلام میں بد کلامی اور فحش گوئی۔اپنے تشخص، عقائد و نظریات کے غلبے کا جنوں۔یہ وہ علامات و آثار ہیں جنہیں ہر حال میں ریاست و حکومت ہی نہیں عوام بھی پیش نظررکھیں۔ ورنہ سال ہا سال کا سفر ضائع ہی نہیں ہوتا بلکہ قوم کو بڑے بڑے سانحات وحادثات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...