سعد الحریری کی واپسی

1,144

لبنان کے وزیر اعظم سعد الحریری نہ صرف    وطن واپس پہنچ گئے ہیں بلکہ انہوں نے بیروت  پہنچتے ہی اپنا استعفی واپس لینے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔بدھ کے روز  اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ  چونکہ صدر میشال عون نے ان کی وطن واپسی تک استعفے کو منظور نہیں کیا تھا اور اس کو زیر التوا رکھا ہوا تھا ،وطن واپسی پر صدر نے انہیں استعفی کے اسباب پر مزید غور کرنے  کا کہا ہے اس لیے عون سے بات چیت کے بعد  وہ استعفی واپس لینے کا اعلان کر رہے ہیں۔

بیروت واپسی پر انہوں  نے یوم آزادی کی تقریبات میں شرکت کی  اور صدر عون اور پارلیمان کے اسپیکر نبیہ بیری  کی معیت میں بیروت کے وسط میں فوجی پریڈ کا بھی معائنہ کیا ۔سعد الحریری نے 4نومبر کو  سعودی عرب سے  اپنے استعفی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ   لبنان میں ان کی جان  کو خطرہ ہے۔

سعد الحریری کی واپسی پر استعفی واپس لینے کے اعلان نے صدر میشال عون  کے اس بیان کو  بظاہر درست ثابت کر دیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ   سعد الحریری کو سعودی عرب نے یرغمال بنا لیا ہے اور ان سے جبری استعفی کا اعلان کروایا گیا ہے اور اسی وجہ سے وہ یہ استعفی منظور نہیں کر  رہے تاوقتیکہ  حریری خود واپس آ کر اپنے فیصلے کی تو ثیق کریں۔تاہم  سفارتکاری کے عمل میں ظاہر   ی صورتحال پر  اعتماد نہیں کیا جاتا بلکہ   سعودی عرب کا حریری کو آزادی سے واپسی کی راہ دینا اور پھر ان کا  فرانس،مصر اور قبرص سے ہوتے ہوئے بیروت پہنچ کر استعفی واپسی کا اعلان کرنا بہت سے سوالات اور شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔

وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے مستعفی ہونے کے اعلان کے بعد  انہوں  نے چند روز سعودی دارالحکومت ریاض  میں اقامت اختیار کی  جس کےبعد  وہ فرانسیسی  صدر میکرون کی دعوت پر گذشتہ ہفتے کے روز فرانس کے دارالحکومت پیرس  پہنچے۔اس کے بعد انہوں نے منگل کو مصر اور پھر  قبرص  کا بھی مختصر دورہ  کیا۔

الحریری   کو لبنان واپس پہنچانے میں  فرانس نے اہم کردار ادا کیا ہے کیونکہ    لبنانی وزیراعظم  سعودی عرب کے ساتھ ساتھ فرانسیسی نیشنلٹی کے بھی حامل ہیں۔تاہم  بہت سے رازوں سے پردے آنے والے دنوں میں ہی  اٹھیں گے جب  الحریری اپنی نئی کابینہ کا اعلان کریں گے۔اگر  وہ پرانی کابینہ  کو ہی بحال کرتے ہیں جس میں حزب اللہ  کے وزراء بھی شامل تھے تو  اس سے صدر  میشال عون کے الزام کو تقویت ملے  گی  اور ثابت ہو جائے گا کہ الحریری  یا لبنان کو حزب اللہ سے کوئی خطرہ نہیں ہے اور انہوں نے استعفی کا فیصلہ  سعودی دباو میں آکر کیا تھا۔

اگر   وہ   اپنی کابینہ میں حزب اللہ کے وزراء کو شامل نہیں کرتے تو اس سے  اگر ایک طرف یہ پیغام جائے گا کہ  استعفی کا بیان انہوں نے اپنی مرضی سے اور حزب اللہ کے خطرات کو پیش نظر رکھتے ہوئے دیا تھا تو دوسری طرف  یہ بات بھی اخذ کی جا سکتی ہے  کہ   سعودی عرب سے نکل جانے کے باوجود  وہ  دباو میں ہیں۔

ایک ممکنہ صورت اور بھی  ہو سکتی ہے   اور وہ یہ کہ مئی  ۲۰۱۸ میں آنے والے انتخابات  تک  حریری کی سربراہی میں ٹیکنوکریٹ حکومت قائم کر دی جائے،اس لیے یہ قطعا نہیں کہا جا سکتا کہ ۴ نومبر کو  شروع ہونے والا کھیل اپنے انجام  کو پہنچ گیا ہے۔بلکہ  موجودہ صورتحال کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے  کہ ۴ نومبر سے ۲۲ نومبر تک کے اٹھارہ دنوں نے لبنان  کی داخلی قوتوں  مزید مستحکم ہونے کا موقع فراہم کیا ہے  اور سعودی عرب کے بارے میں لبنان سمیت دنیا بھر میں منفی رائے قائم ہوئی ہے،اور بجائے یہ تاثر جانے کے کہ  ایران لبنان میں مداخلت کر رہا ہے (جو کہ مبینہ طور پر سعودی عرب کا مقصد بتایا جاتا ہے)ساری دنیا   کو یہ پیغام گیا کہ  سعودی عرب  لبنان کے داخلی امور میں مداخلت کر رہا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ سعودی عرب  اس تاثر کو دور کرنے کے لیے کیا اقدامات اٹھاتا ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...