مڈل کلاس اور اشرافیہ کے باہمی تعلق کی بنیاد

1,129

سماج میں علم و ہنر اور قابلیت کا مرکز مڈل کلاس ہوا کرتی ہے۔ کیونکہ ان کی بقا کا مدار ہی علم و ہنر کے حصول میں ہوتا ہے۔ طاقت کا منبع اشرافیہ کے پاس ہوتا ہے۔ اشرافیہ ہمیشہ  مڈل کلاس کو بوقت ضرورت اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے آئے ہیں۔ شہنشاہ اکبر اور اس کے نو رتن ہی دیکھ لیجیے۔ شہنشاہ اکبر پڑھا لکھا نہیں تھا، لیکن اس نے اپنے دربار میں اپنے وقت کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے اعلی ترین دماغ اکٹھے کیے تھے۔ یہ تعداد میں نو تھے، جو تاریخ میں نو رتن کے نام سے مشہور ہوئے۔ اس پر بہترین تبصرہ ابن انشاء نے اپنی فکاہیہ کتاب، ‘اردو کی آخری کتاب’ میں کیا ہے۔ اکبر اور اس کے نو رتنوں کا مختصر احوال بتا کر سبق کے آخر میں سوال پوچھتے ہیں، ‘آپ پڑھ لکھ کر بادشاہ اکبر کے نو رتن میں سے کوئی رتن بننا چاہیں گے یا ان پڑھ رہ کر بادشاہ اکبر بننا چاہیں گے؟اس تعلق کی ایک مثال دیکھنی ہو تو چوہدری اعتزاز احسن کو دیکھ لیجیے، جو اپنی تمام تر قابلیت، ذہانت اور عمر کے اس محترم حصے میں پہنچ کر جب کہ وہ سفید ریش ہو چکے ہیں، زرداری کے آنے پر ویلکم ویلکم کے نعرے اس جوش سے لگاتے ہیں کہ آدمی کو ترس آ جاتا ہے۔ اپنی عمر سے تین گنا چھوٹے بلاول بھٹو کے سامنے مودب ہو کر بیٹھتے ہیں اور اس سے ہدایات بھی لیتے ہیں۔

یہ سب کیوں؟ یہ اس لیے کہ مڈل کلاس چاہے کتنی ہی قابلیت کا مظاہرہ کرلے، طاقت کا منبع، جاگیردار اور سرمایہ دار اشرافیہ کے پاس ہوتا ہے۔ اس طاقت سے فائدہ اٹھانے کے لیے، اس طاقت کی چھتری تلے پناہ لینے کے لیے مڈل کلاس کو ان کی چاکری کرنی پڑتی ہے، جس کے لیے اپنی انانیت بھی اکثر قربان کرنی پڑتی ہے۔ جو ایسا نہیں کرتے، یا جن کو ایسا کرنے کا موقع نہیں ملتا، وہ اس بے انصاف، طاقت کے پجاری معاشرے میں یتیم کی طرح وقت گزارتے ہیں، جن کی عزت، آبرو، جان و مال کسی بھی طاقت ور کے ہاتھ سے کسی بھی وقت پامال ہو سکتی ہے۔ یہی کمزوری کا احساس ہے، جس کا مداوا یہ ناتواں پڑھے لکھے مڈل کلاس لوگ، طاقت وروں کی ملازمت اور وفاداری میں تلاش کرتے ہیں۔

مڈل کلاس کے جن قابل لوگوں کو کسی بڑے کی آشیرباد نصیب نہیں ہوتی، یا انہیں اپنی انا قربان کرنا پسند نہیں ہوتا یا انھیں موقع نہیں ملتا کہ کسی بڑے کے جلو میں شامل ہو جائیں، وہ اپنے اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنے اپنے طبقے کی جماعت بندی کر لیتے ہیں۔ وکیلوں، ڈاکٹروں، اساتذہ، صحافیوں وغیرہ نے اپنے تحفظ اور حقوق کی خاطر، اپنی اپنی جماعتیں بنائی ہیں۔ یہ جماعتیں، جمہوریت کی وجہ سے نہیں بنتیں، یہ ملک میں انصاف کا نظام نہ ہونے اور عدم تحفظ کے احساس کی وجہ سے بنتی ہیں۔ البتہ جہاں بھی ان کا بس چلتا ہے، دوسروں کا استحصال کرنے میں وہ بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ وکلاء اور ینگ ڈاکٹرز کا طرز عمل دیکھا جاسکتا ہے۔ ان کے مطالبات یقیناً درست ہوتے ہوں گے، لیکن ان کا طرز عمل اپنے سے کمزوروں کے معاملے میں اشرافیہ سے مختلف نہیں پایا گیا۔ ملک کی اسٹیبلشمنٹ مڈل کلاس لوگوں کی سب سے مضبوط عصبیت ہے۔ اور ان کا طرزِ عمل سب کے سامنے ہے۔ شاید یہ ردعمل کی نفسیات ہے۔ ان کے ساتھ جو ہوتا آیا ہے، معاشرے کو یہ وہی واپس کر رہے ہیں۔

بہرحال،جب تک جاگیر دارانہ نظام  اور اس کی پیدا کردہ ذہنیت موجود ہے اور جب تک سرمایہ دارنہ اشرافیہ کو انصاف و قانون کی لگام نہیں ڈالی جاتی، پڑھے لکھے مڈل کلاس لوگ اسی طرح اپنی ذہانت، لیاقت، اور انا کو اشرافیہ کے قدموں میں گروی رکھتے رہیں گےیا جماعتیں بنا کر اپنے ریوڑ کی حفاظت میں حق و انصاف مانگتے یا حق و انصاف کا خون کرتے رہیں گے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...