فیصل آباد کا گھنٹہ گھر
یوں تو پاکستان کے کئی شہروں میں گھنٹہ گھر ہیں لیکن مشہور فیصل آباد کا ہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس گھنٹہ گھر کی وجہ سے فیصل آباد میں آدمی گم نہیں ہو سکتا کیونکہ جدھر بھی جائیں گھنٹہ گھرسامنے رہتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسلام آباد میں آئے دن لوگ اس لئے گم ہو جاتے ہیں کہ یہاں گھنٹہ گھر نہیں ہے۔ یوں بات سے بات نکالنا ایسی ہی بے معنی جگت بازی ہے جیسے آج کل جس ٹی وی چینل پر جائیں رانا ثناءاللہ ہی دکھائی دیتے ہیں تو کوئی کہے کہ فیصل آباد کا گھنٹہ گھر رانا ثناء اللہ نے ہی تعمیر کرایا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ٹی وی والے جان بوجھ کر رانا صاحب کو ہر چینل پر بلاتے ہیں اور تاکہ رانا صاحب کو گھنٹہ گھر کی طرح ہرجگہ حاضر دکھا کر ہر بات کی ذمہ داری ان پر ڈال سکیں۔
تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ فیصل آباد کا اصل گھنٹہ گھر انگریزوں نے تعمیر کیا تھا۔ اسے یہاں کے لوگوں نے بیت الخلا بنا لیا تو دوسرا تعمیر کرنا پڑا۔ یہ کہنا بھی درست نہیں کہ فیصل آبادی تمام گھنٹہ گھروں کو بیت الخلا بنا لیتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ موجودہ گھنٹہ گھر کو بیت الخلا کے طور پر استعمال نہیں کیا جاتا۔ ایک وجہ تو غالباً یہ ہوگی کہ اس وقت یہاں کے باسیوں کو لائل پوری کہا جاتا تھا۔ وہ نئے آباد کار تھے۔ انگریز گھنٹہ گھر تعمیر کر کے انہیں وقت کی اہمیت بتانا چاہتے تھے۔آباد کاروں کے لئے سب سے اہم وقت صبح صبح بیت الخلا تلاش کرنا ہوتا تھا۔ اس پورے شہر میں یہی عمارت فراغت کے لئے فارغ نظر آئی۔ آزادی کے بعد مورخین نے اس فعل کو استعمار کے خلاف بغاوت کی علامت بتایا۔ ۔ استعمار کی یادوں کے خاتمے کے لئے اس شہر کا نام فیصل آباد بھی رکھ کر دیکھا لیکن سنا ہے یہ فعل اب بھی جاری ہے۔
شاید اسی لئے انگریزوں نے لاہور میں الگ سے گھنٹہ گھر تعمیر نہیں کیا۔ ریلوے اسٹیشن کو ہی گھنٹہ گھر بنا یا تاکہ کم از کم آنے جانے والوں کو وقت کا احساس رہے۔ ویسے تو ریل گاڑی اور ریلوے اسٹیشن خود وقت کی علامت ہیں۔ وقت کی پابندی نہ کریں تو ریل چھوٹ جاتی ہے۔ اسٹیشن اور گاڑی کے ناموں پر نہ جائیں نہ گاڑی یہاں گڑی رہتی ہے نہ اسٹیشن مستقل پڑاؤ ہے۔ سیٹیاں بجاتی آتی جاتی ریل گاڑیاں اور سامان اٹھائے بھاگتے دوڑتے قلی یہی کہتے سنائی دیتے ہیں کہ یہ جگہ دل لگانے کی نہیں ہے۔
آزادی کے بعد سب بدل گیا۔ نہ ریل گاڑی وقت کی پابندی کی علامت رہی نہ اسٹیشن عارضی پڑاؤ۔انگریز چلے گئے توگھنٹہ گھر بھی وقت کے پاسدار نہیں رہے۔انگریزوں کو یہ مغالطہ تھا کہ ان کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا۔ اس لئے رعایا کو وقت کی اہمیت بتانے کے لئے جہاں جاتے سب سے پہلے بگ بین کی طرح بڑے بڑے گھنٹہ گھربناتے ۔
آزادی کے بعد اہل لاہور نے بھی استعمار کی علامتوں کو خیر باد کہا۔ اور لاہور کو لندن کی بجائے پیرس بنانے کا منصوبہ بنایا۔ فرانس کے لوگ لندن کو لوندرے کہتے ہیں، اورعرب لندرہ ۔ اہالیان لاہور نےایک پورے بازار کا نام لنڈا بازار رکھ کر ہر پرانی چیز کو فروخت کے لئے رکھ دیا۔۔ اب لاہور میں کوئی پرانی چیز نظر نہیں آئے گی۔ ہو سکتا ہے اگلے سال تک یہاں چوبرجی اور شالیمار وغیرہ جیسی ماضی کی کھوسٹ پرانی یادوں کو بھلا کر فتوحات کی محرابیں اور ٓرک د ترامف بنائی جائیں گی جن میں سے اورنج ٹرین گذرے تو لاہور پر پیرس کا گماں یقین میں بدل جائے گا۔
ہم جیسے وقت گذارتے ہیں انگریز اسے وقت کا قتل کہتے تھے۔ لیکن یہ کسے پتا کہ کون کسے قتل کرتا ہے۔ ہمارے ہاں وقت کا فائدہ صرف یہ ہے کہ وہ گذر جاتا ہے۔ اسی لئے ہر شہر میں وقت اور گھنٹہ گھرسے مختلف سلوک ہوتا ہے۔
گھنٹہ گھرملتان میں بھی ہے۔ اہل ملتان کے ہاں وقت سرمدی ہے۔ ملتان اولیا اور صوفیا کا شہر ہے۔اہالیان ملتان وقت کو ناپ تول کر نہیں سخیوں کی طرح دل کھول کر بِتاتے ہیں۔ زبان اتنی میٹھی کہ ایک ایک لفظ کو لاڈ پیار سے ٹھہر ٹھہر کر یوں ادا کرتی ہے جیسے وقت ہی ٹھہر گیا ہو۔ اسی لئے اہالیان ملتان نے گھنٹہ گھر کو وہ اہمیت نہیں دی جو انگریز چاہتے تھے۔ ایسے لگتا ہے جیسے یہاں گھنٹہ گھر ہے ہی نہیں ۔ صوفیا وقت کو تلوار کہتے ہیں۔ ایسی تلوار جو خود کوہی لمحہ لمحہ قتل کرتی رہتی ہے۔جو وقت کو سرمدی نہیں مانتے وہ اس کے ٹکڑے کرکے لمحہ لمحہ جیتے ہیں۔
کسی زمانے میں حاکم وقت کے حکم پر نقارے پر چوٹ لگا کر اعلان کیا جاتا کہ وقت کا ایک پہر گذر گیا۔ لوگ کہتے کہ نوبت بج گئی۔ گویا وقت ان بادشاہوں کے کہنے سے چلتا ہے۔ جھنڈے گڑے ہوتے تھے جو ان کی شوکت اورعظمت و جاہ کا پتا دیتے۔کل جو وقت کے بادشاہ کہلاتے تھے۔ رئیس سمجھے جاتے تھے۔ جن کے محلات اور کوٹھیوں کے سامنے نقارے وقت بتاتے تھے آج ان کا نام اور نشان قبروں کے ڈھیر ہیں۔
مالک نوبت و نشان تھے کل
آج نوبت یہ ہے نشان نہیں
نقارے ہٹے گھڑیاں اورگھڑیال آ گئے۔ اب وقت بادشاہ کے نہیں گَردوں یعنی آسمان کے ہاتھ میں تھا۔ گردوں ہو یا آسمان دونوں اس لئے گھومتے ہیں کہ وقت بتا سکیں۔
بقول شاعر
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی ایک اور گھٹا دی
گھڑیال یہ منادی تو دیتا ہے کہ عمر کی ایک گھڑی گھٹ گئی، لیکن گھڑیال بھی یہ نہیں بتا تا کہ عمر کتنی باقی رہ گئی ہے اس لئے جو رہ گئی اسے کسی کسی طور گذارنا پڑتا ہے۔
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یونہی تمام ہوتی ہے
وقت تقسیم تو ہوا لیکن اس کا چکر جوں کا توں رہا۔ انسان نے وقت کو ناپا بھی تو اس طرح کہ گول گھومتا رہے۔ گھڑی میں بھی، گھڑیال اور گھنٹہ گھر میں بھی سوئیاں چکر کاٹتی رہتی ہیں۔انسان یہ سمجھتا ہے کہ وقت گھوم رہاہے لیکن اصل میں وقت انسان کو گھمارہا ہے۔ جیسے انسان یہ سمجھتا ہے کہ آسمان اور سورج زمین کے گرد گھوم رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے دن اوررات ایک دوسرے کے پیچھے چکر لگا رہے ہیں۔ وقت کے اس انسانی تصور کی کہانی ان الفاظ سے سنیں جن سے ہم وقت ناپتے ہیں۔
ہندی میں وقت کو کال کہتے ہیں۔ کال موسم کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے اور قحط اور موت کو بھی کال کہتے ہیں۔ وقت اور زمانے کے ادوار کو جُگ کہ کے جُگ جُگ جینے کی دعا دی جاتی ہے۔ ہندی حساب سے زمانے یعنی جُگ چار ہیں۔ ست جُگ، تریتا جگ، دواپر جگ اور کلجگ۔ کلجگ آخری زمانہ سمجھا جاتا ہے جو تین ہزار ایک سو دو برس قبل مسیح سے شروع ہوچکا ہے۔
وقت دن اور رات کے چکر سے ناپا جاتا تھا۔ اس چکر کو ۲۴ پہروں میں تقسیم کرتے تھے۔ لیکن ہر پہر مشکل سے گذرتا تھا۔
دل دھڑکتا ہے چلی توپ پہر رات گئی
کس طرح کٹیں چار پہر ہجر کی شب ہے
فارسی میں پہراحفاظت اورنگہبانی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ پہرے دار محافظ کو کہتے ہیں۔
پاسبان لیتا ہے تنخواہ بھی رشوت بھی بہت
وہ یہ خدمت ہمیں دیں، مفت میں پہرا چوکی
ماہرین لغت کا کہنا ہے کہ لفظ پہر فارسی اور سنسکرت دونوں میں ہے۔ فرق یہ ہے فارسی میں ہ سکون سے ہے۔ لیکن سنسکرت میں سکون سے نہیں۔ اردو میں بھی ہر پہر بے سکونی میں گذرتا ہے
رخصت اے روز وصال اب وہ بجے تین پہر
جس میں مر مر کے بچے تھے وہی شب ہوتی ہے
وعدہ شام میں فرق آیا خدا خیر کرے
دل دھڑکتا ہے، چلی توپ، پہر رات گئی
اک ایک گھڑی روز قیامت سے بڑی ہے
کس طرح کٹیں چار پہر ہجر کی شب کے
گھڑی پہر سے چھوٹی ہوتی ہے اور اس میں ۶۰ پل ہوتے ہیں۔
گھڑی بجی نہ شب وصل جب پہر کی طرح
تو کان خود مرے بجنے لگےگجر کی طرح
پل وقت کی سب سے چھوٹی اکائی ہے۔ پل اصل میں پلک کا مخفف ہے اس لئے پلک جھپکنے میں گذر جاتا ہے۔
ایسے مرے مژہ کے ہیں بادل بھرے ہوے
پل مارنے میں دیکھے ہیں جل تھل بھرے ہوے
کوئی پل ایسا نہیں کٹتا کہ جس میں چین ہو
دل لگاتے ہی یہ ہم پر کیا قیامت آگئی
پہلے زمانے میں وقت ناپنے کے لئے ریت یا پانی سے کام لیا جاتا تھا۔ پانی سے ناپنے کے آلے کو گھڑیال کہتے تھے۔ ایک کٹورے کے پیندے میں سوراخ کرکے پانی سے بھری ناند میں چھوڑ دیتے ۔ کٹورے میں پانی بھرتا رہتا ۔ جب کٹورا بھر جاتا تو ناند میں غرق ہو جاتا اس کے غرق ہوتے ہی گھنٹی بجنے لگتی۔ جتنی دیر میں کٹورا غرق ہوتا اسے گھڑی گنا جاتا۔
نہ کرتا ضبط میں گریہ تو اے ذوق گھڑی بھر میں
کٹورے کی طرح گھڑیال کے غرق آسماں ہوتا
گھنٹی بڑی ہوکر گھنٹہ اور گھنٹ کہلائی اور گھڑی گھڑیال۔ آگے چل کر پانی کی بجائے فنر یا پنڈولم سے کام لیا گیا تو گھڑی چھوٹی ہوتی گئی جو چابی دے کر چلتی تھی۔ اب چابی کی جگہ بیٹری اور بجلی نے لے لی ہے۔ بہت بڑے کل پرزوں والی گھڑی گھنٹہ گھر میں نصب ہوتی تاکہ دور دور تک سوئیاں نظر آئیں۔ ان دنوں گھڑیال امیر امرا کے دروازے پر نصب ہوتے تھے یا مندروں میں گھنٹے بجائے جاتے۔ شاہی زمانے میں ہر گھڑی پر گھنٹہ بجتا تھا۔ پھرگھڑی خود گھنٹہ کہلا ئی اور گھڑیال گھنٹہ گھر۔ دور جدید میں گھنٹہ پیمانہ بنا تو وقت کو چکر میں رکھنے کے لئے اسے گول دائرہ تصور کرکے دن اور رات کو ایک دائرے میں تقسیم کیا گیا۔ ہر دائرہ ۳۶۰ درجوں میں تقسیم کیا اور ہر درجے کو سیکنڈ، ہر ساٹھ سیکنڈ کا ایک منٹ اور ہر ۶۰ منٹ کا ایک گھنٹہ اور ۲۴ گھنٹوں کا دن رات۔
وقت سے متعلق ٹکنالوجی کو کبھی ممنوع نہیں سمجھا گیا۔ بلکہ گھڑی اور گھڑیال کی ٹکنالوجی میں مسلمانوں کی پیش رفت اس حد تک رہی کہ خلیفہ ہارون الرشید نے فرانس کے بادشاہ شارلیمان کو گھڑی تحفے میں بھیجی تو وہ بہت متاثر ہوا۔ اس میکانکی گھڑی میں ایک خاص وقت گذرنے پر گھڑ سوار باہر نکل کر ایک طبق پر وقت کی گنتی کے مطابق چوٹ لگاتے۔
یہ سب کچھ کرکے بھی وقت انسان کے قابو میں نہیں آیا۔ گھنٹہ گھر انگریزوں کو بھی بتا نہ سکے کہ ان کا سورج غروب ہونے والا ہے۔ وہ جس افراتفری میں واپس لوٹے اس کو پاکستانی اور فلسطینی ہی نہیں وہ خود بھی بھگت رہے ہیں۔ وقت آنی جانی چیز ہے اس لئے ہم وقت پر کبھی بھروسا نہیں کرتے۔
کی دم دا بھروسا یار دم آوے نہ آوے
اسی لئے اب گھنٹہ گھر کی بجائے موٹر وے بنائے جاتے ہیں۔ جو وقت بتاتے نہیں بچاتے ہیں۔
فیس بک پر تبصرے