حالیہ اے ٹی ایم فراڈ نے صارفین کی معلومات کو کسی بھی قسم کے خطرے اورڈیجیٹل معلومات کی چوری سے محفوظ رکھنے کی ضرورت بڑھا دی ہے۔ جس کے بعد مرکزی بینک نے تمام بینکوں کو یہ حکم نامہ جاری کیا ہے کہ وہ 2016 میں پے منٹ کارڈ ز کی سیکیورٹی کیلئے متعارف کروائے گئے قواعدو ضوابط پرعملدرآمد یقینی بنائیں۔
حبیب بنک لمیٹڈ کی انتظامیہ نے اپنے ان صارفین کے نقصان کے ازالے کی یقین دہانی کروائی ہے جن کے اے ٹی ایم کارڈز کی معلومات چوری ہو گئی تھیں ۔ادھر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی نے بھی واقعے کی تحقیق کرنا شروع کر دی ہے۔صارفین کی معلومات کو محفوظ رکھنا پوری دنیا کے بینکوں کیلئے ایک بڑا مسئلہ ہے ۔ تمام ممالک کے مرکزی بینک صارفین کی معلومات کے حفاظتی نظام میں نقائص کے خاتمے کیلئے قواعدو ضوابط میں بہتری کیلئے مسلسل کوششیں کرتے رہتے ہیں ، لیکن پاکستانی بینک اب غیر محفوظ ہو چکے ہیں۔ ایک مقامی بینک کے سربراہ نے کہا کہ “ہمیں نہ صرف ان ہیکرز کا سامنا ہے جو انفرادی طور پر پیسے چوری کرنے کیلئے معلومات تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں، بلکہ ہیکرز کے ایسے منظم گروہ بھی ملوث ہیں جن کا مقصد محض پیسہ چوری کرنا نہیں ہے۔”وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے مستند ذرائع نے بتایا کہ”پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی شروعات کے بعد پاکستان اپنی سلامتی اور تحفظ کے حوالے سے ایک مشکل دور میں داخل ہو رہا ہے۔بیرونی قوتیں پاکستان کو عدمِ استحکام سے دوچار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ایسے میں حالیہ اے ٹی ایم فراڈ کو چینی شہریوں کی طرف سے بینک معلومات کی چوری کے گزشتہ واقعات کی روشنی میں دیکھتے ہوئے ان وارداتوں کے پیچھے چھپے اصل مقاصد کو سامنے لانےکیلئےہمیں مکمل تحقیقات کرنی چاہئیں۔”
ڈان میں شائع شدہ ایک تحقیقاتی رپورٹ میں ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر حمید بھٹو سے منسوب ایک بیان میں کہا گیا کہ گزشتہ سال اور چند ماہ پہلے ادارے نے بینک معلومات کی چوری میں ملوث چینی شہریوں کو گرفتار کیا ہے۔5 دسمبر کو بینک دولت پاکستان کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز میں کہا گیا کہ حالیہ اے ٹی ایم فراڈ میں حبیب بینک کے 296 صارفین دھوکہ دہی کا شکار ہوئے ، جن کے مجموعی مالی نقصان کا تخمینہ ایک کروڑ بیس لاکھ روپے لگایا گیا ہے۔ خبروں کے مطابق فراڈ کی زد میں آنے والے بینک اکاؤنٹس کی تعداد 600 ہے۔ بینک کے ایک اعلیٰ افسر کا کہنا تھا کہ حبیب بینک اپنے صارفین کے نقصان کا ازالہ کرنے کیلئے اقدامات کر رہا ہے۔ اور یہ عمل صارفین کی طرف سے اپنے مالی نقصان کیلئے مہیا کی گئی معلومات کی جانچ پڑتال کے بعد ہی مکمل کیا جا ئے گا۔ابھی تک یہ اندازہ لگانا ممکن نہیں ہوسکا کہ یقینی طور پر صارفین کے بینک اکاؤنٹس سے کتنی رقم چرائی گئی ہے اور یہ بھی کہ ایف آئی اے کو اب تک موصول ہونے والی شکایات میں مزید کتنا اضافہ ہو سکتا ہے۔ ایف آئی اے اور بینک افسران کے مطابق حبیب بنک واحد بینک نہیں ہے جسے اس مسئلے کا سامنا کر پڑ رہا ہے ،تاہم حالیہ کیس میں موصول ہونے والی شکایات ایک ہی بینک کے صارفین کی طرف سے داخل کرائی گئی ہیں۔ 5 دسمبر کو جاری کی گئی ریلیز کے مطابق جون 2016 میں بینک دولت پاکستان نے پے منٹ کارڈ سیکیورٹی قواعد و ضوابط کو مزید کارگر اور قابلِ اعتماد بنانے کیلئے تما م بینکوں کو 30 جون 2018 تک یورپی ماسٹر کارڈ ویزا (EMV) اسٹینڈرڈ ز لاگو کرنے کیلئے اقدامات اٹھانے کا حکم دیا تھا۔ بینک دولت پاکستان نے تمام بینکوں کو یاددہانی کرائی کہ درج بالا مقررہ اسٹینڈرڈ کے مطابق بنائے گئے اے ٹی ایم کارڈز صارفین کی معلومات کی حفاظت اور ہیکنگ سے بچاؤ کیلئے بہترین ہیں ۔ تاہم اگر تمام اے ٹی ایم یا ڈیبٹ کارڈزجون 2018 تک EMV معیار کے حامل ہو بھی جائیں تو ٹیکنالوجی کے ماہر چوروں سے ایک دم مکمل طور پر از خودمحفوظ نہیں ہو جائیں گے۔ ایک معروف بینک کے سافٹ ویئر ڈویلپر محمد کاشف نے کہا کہ اس مسئلے کے حل کیلئے بینکوں کو اپنے داخلی حفاظتی انتظامات میں بہتری لانے اور ڈیبٹ کارڈز استعمال کرنے والے صارفین کو کچھ حفاظتی تدابیر سے آگاہ کرنے کیلئے اقدامات کرنے ہوں گے۔
رواں ماہ کے شروع میں امریکی ادارہ برائےقومی سلامتی نے سکرامنٹو کیلیفورنیا میں ڈیبٹ کارڈ معلومات چوری کی واردات سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا کہ رواں برس اپریل سے اگست تک ہیکرز گولڈن Iکریڈٹ یونین اے ٹی ایم کے سینکڑوں کھاتہ داروں کے اکاؤنٹس سے کس طرح پیسہ چراتے رہےباوجود اس کے کہ یہ کھاتہ داران EMV ڈیبٹ کارڈز استعمال کر رہے تھے۔بینک دولت پاکستان کی طرف سے پیش کردہ ممکنہ حفاظتی تدبیر یہ بھی ہے کہ ایسے کارڈز کے استعمال کو فروغ دینا چاہئے جو دو طرح کے تصدیقی عمل کے حامل ہوں ۔ جیسے کہ پاکستان میں بینک اسلامی کی جانب سے جاری کردہ One Card میں بینک کی طرف سے اپنے صارفین کو یہ سہولت دی گئی ہے کہ وہ کارڈ کے حفاظتی کوڈ کے ساتھ ساتھ انگوٹھے کے نشان کی مدد سے بھی تصدیقی عمل مکمل کر سکتے ہیں۔
بینک دولت پاکستان کے نائب منتظم جمیل احمد نے 7 دسمبر کو تمام بینکوں کو تجویز دی کہ وہ جلد از جلد Pay Pak کارڈز کے اجراء کو یقینی بنائیں جو ملکی سطح کے 1Link سسٹم کے تحت تیار کئے گئے ہیں اور کہا کہ تمام بینک اپنے صارفین کی دولت کو محفوظ رکھنے کیلئے تمام الیکٹرانک آلات کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان میں بینک صارفین کی جانب سے اے ٹی ایم کارڈز کے استعمال میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔بینک دولت پاکستان کے مطابق جولائی 2016 سے مارچ 2017 کے درمیان پاکستا ن میں 1کروڑ 10لاکھ اے ٹی ایم ٹرانزیکشنز ہوئیں جن کی کل مالیت 9کھرب 60 ارب روپے بنتی ہے۔
چونکہ بینک اپنے صارفین کو اے ٹی ایم کارڈز کے استعمال کی ترغیب دیتے ہیں اور خود صارفین بھی ان کارڈز کے استعمال میں سہولت سمجھتے ہیں اسی لئے مستقبل میں بھی ان کے استعمال میں اضافہ ہی ہوگا۔ بینک دولت پاکستان کے مستند ذرائع نے بتایا کہ بینکاری نظام کو محفوظ بنانے کیلئے اے ٹی ایم کارڈ معلومات کی چوری سمیت ہمہ قسم ٹیکنا لوجیکل فراڈ سے بچاؤ کیلئے ہرممکن کوشش کی جائے گی اور اس سلسلے میں بینکوں کی طرف سے کسی بھی کوتاہی کو بالکل معاف نہیں کیا جائے گا۔
ترجمہ: حذیفہ مسعود،بشکریہ ڈیلی ڈان
فیس بک پر تبصرے