مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے پاکستان و سعودی عرب کی کوششیں
اقبال انٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ فارریسرچ اینڈ ڈائیلاگ کے زیر اہتمام بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں مسئلہ فلسطین کے عنوان پر منعقد ہونے والے بین الاقوامی سیمینار کی رپورٹ
چھ دسمبر کو امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے القدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے اعلان کے بعد سے پوری امت مسلمہ ایک اضطراب کی کیفیت سے گزر رہی ہے اور دنیا بھر میں اس مذموم فیصلے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی جا رہی ہے۔اسی سلسلہ میں اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی نے بھی13 دسمبر کو استنبول میں ایک ہنگامی اجلاس منعقد کیا جس میں 57 اسلامی ممالک کے سربراہان اور نمائندے امریکی فیصلے کے خلاف مشترکہ موقف اختیار کرنے کے لیے جمع ہوئے، اجلاس میں اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ القدس کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کرے۔
مسئلے کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور فلسطینی بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ایک تقریب14دسمبر کو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں منعقد ہوئی جس میں سینیٹر مشاہد حسین سید،چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز،روزنامہ جنگ کے معروف کالم نگار واینکرسلیم صافی،سینیٹر سحر کامران،حافظ طاہر محمود اشرفی،فلسطین کے سفیر ولید ابو علی،سعودی سفیرمعالی نواف سعید المالکی ،مصر،انڈونیشیا اور یمن کے سفراء سمیت دیگر اہم شخصیات نے شرکت کی۔
سیمینار کا آغاز سورۃ اسراء کی تلاوت سے ہوا ،جس کے بعد بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ریکٹر اور وائس چانسلرز کمیٹی پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر معصوم یٰسین زئی نے افتتاحی خطبے میں کہا کہ ٹرمپ کے فیصلے سے پوری مسلم دنیا کی دل آزاری ہوئی ہے۔میں پاکستان کی180 یونیورسٹیوں کی نمائندگی کرتے ہوئے فلسطینیوں کو مکمل حمایت کا یقین دلاتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ آج کی دنیا بڑی ظالم ہے ،آپ کو کوئی بھی آپ کا حق نہیں دے گا۔آپ خود کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر کے اس سطح پر پہنچائیں کہ کسی میں آپ کا حق دبانے کی ہمت نہ رہے،تعلیم،سائنس،ٹیکنالوجی اور میڈیا میں آگے بڑھیں اور اقوام عالم میں اپنا مقام پیدا کریں۔افتتاحی خطبے کے بعد فلسطین پر ایک ڈاکومنٹری فلم چلائی گئی، جس میں شاہ فیصل شہید کو فلسطین کے بارے میں دوٹوک موقف پیش کرتے ہوئے دکھایا گیا۔جس کے بعد صدر جامعہ ڈاکٹر احمد بن یوسف الدریویش نے اپنے خطاب میں کہا کہ سعودی عرب کا آج بھی وہی موقف ہے جو آپ نے ابھی شاہ فیصل شہید کی زبانی سنا۔شاہ فیصل کی شہادت کا ایک بڑا سبب فلسطین سے متعلق یہ موقف اپنانا بھی تھا،سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز وہ پہلے شخص تھے، جنہوں نے سب سے پہلے فلسطین کی حمایت میں1948 میں ایک لشکر بھیجا۔ان کے بعد شاہ سعود نے بھی ان کے مشن کو جاری رکھا اور آج بھی امریکی فیصلے کے بعد سب سے پہلے شاہ سلمان نے ٹرمپ کو فون کر کے فیصلے کے بھیانک نتائج سے آگاہ کیا۔ڈاکٹر درویش نے کہا کہ فلسطین کے مسئلہ کے حل کے لیے پاکستان اور سعودی عرب ایک ہی راستے پر ہیں۔
سیمینار میں کلیدی خطبہ جناب سینیٹر مشاہد حسین سید نے پیش کیا۔ سنیٹر مشاہد حسین سید نے اپنی گفتگو میں کہا کہ آئی آر ڈی نے نہایت اہم موضوع پر یہ سیمینار رکھا ہے۔گزشتہ روز پوری امت مسلمہ کی نظریں او آئی سی اجلاس پر تھیں لیکن افسوس کہ استنبول سے جاری ہونے والے اعلامیے میں صرف مذمت ہی کی گئی،کوئی عملی پلان نہیں دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ فلسطین کے ساتھ پاکستان کا تعلق قیام پاکستان سے بھی پہلے کا ہے،بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کا فلسطین سے متعلق بڑا واضح موقف تھا،جب اقبال سے کہا گیا کہ فلسطین میں پہلے بھی یہودی آباد رہے ہیں اس لیے اس پر یہودیوں کا حق ہے تو جواب میں انہوں نے کہا کہ پھر سپین کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ وہاں بھی تو مسلمان آباد رہے ہیں۔23 مارچ 1940 کو لاہور میں ایک نہیں ،دو قراردادیں پاس ہوئیں تھی،ایک فلسطین کی حمایت کی اور دوسری قیام پاکستان کی۔ پاکستان بننے کے بعد بھی ہر موقع اور ہر فورم پر پاکستان فلسطین کے ساتھ کھڑا رہا۔اکتوبر1973 میں جب عرب اسرائیل جنگ شروع ہوئی تو شاہ فیصل نے امریکہ اور یورپ کو آئل کی ترسیل روک دی تھی۔اس موقع پر پاکستان ایئرفورس کے پائلٹ بھی جنگ میں شریک ہوئے، دو اسرائیلی طیارے مارگرائے تھے۔انہوں نے کہا کہ 90 کی دہائی میں جب میں نے یاسر عرفات کا انٹرویو لیا تھا تو انہوں نے مجھے خود بتایا تھا کہ ہمیں تین ملکوں نے فوج بھیجنے کی آفر کی تھی،جن میں ایک پاکستان بھی تھا۔1974 میں جب بھٹو صاحب کے دور میں اسلامی سربراہی کانفرنس ہوئی تو پاکستان اس مسئلے میں پیش پیش تھا۔
سعودی عرب کا کردار بھی ہمیشہ قائدانہ رہاہے ،جب بوسنیا کے مسلمانوں پر ظلم ڈھایا جا رہا تھا تو اس کے خلاف سخت موقف اختیار کرنے والے صرف دو ملک تھے،پاکستان اور سعودی عرب۔1998 میں جب پاکستان ایٹمی طاقت بنا اور اس پر عالمی پابندیاں عائد کی گئیں تو وہ واحد ملک جس نے پاکستان کی سپورٹ کی وہ سعودی عرب ہی تھا اور دو بلین ڈالر پاکستان کو دیے۔مشاہد حسین سید نے کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ وہ سینیٹ کی ڈیفنس کمیٹی کا وفد لے کر فلسطین جائیں اور مسجد اقصی میں نماز ادا کریں۔
سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ وہ امریکہ کو عالمی دہشتگرد سمجھتی ہیں جو کہ پوری دنیا میں عدم استحکام چاہتا ہے۔مسلم ممالک کے داخلی مسائل بہت سے ہیں لیکن جب بات قبلہ اول کی آئے گی تو ہم ایک ہیں۔یروشلم فلسطین کا تھا،ہے اور رہے گا۔انہوں نے اقوام متحدہ کے مایوس کن کردار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب یہ ادارہ کوئی کردار ہی نہیں ادا کر رہا تو پھر اس کی ضرورت کیا ہے؟انہوں نے مسلمانوں کو متحد ہونے اور امریکی واسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کرنے کی تجویز بھی دی۔
سینیٹ میں قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا کہ یہ سیمینار شاہ فیصل شہید کی بنائی ہوئی مسجد کے احاطے میں ہو رہا ہے،شاہ فیصل شہید فلسطین ہیں،امریکہ سےآج بھی اسرائیل کو فلسطین میں آبادکاری کے لیے مسلسل سپورٹ جا رہی ہے،ہم ہر قیمت پر فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں۔
فلسطینی سفیر ولید ابو علی نے کہا کہ رسول اللہﷺ کا معراج کے سفر میں مسجد اقصیٰ جانا محض کوئی اتفاق نہیں تھا،القدس کا تقدس مسلمہ امر ہے ،چاہے ٹرمپ کو پسند ہو یا نہ ہو،ٹرمپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ ایک مقبوضہ علاقے پر اپنا سفارتخانہ کھولے،پاکستان اور سعودی عرب ہمیشہ ہر محاذ پر فلسطین کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔فلسطین دو حصوں میں منقسم ہے لیکن مصر نے ہمیشہ غزہ کے مسلمانوں کی مدد کی۔پاکستان اور انڈونیشیا بڑے اسلامی ممالک ہیں۔ ہمیں توقع ہے کہ وہ اقصیٰ کی آزادی میں اپنا کردار ادا کریں گے اور ایک دن آئے گا کہ ہم مسجد اقصی میں مل کر نماز پڑھیں گے۔
پاکستان علما کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر اشرفی نے کہا کہ امریکی فیصلہ اس صدی کی دوسری بڑی دہشت گردی ہے۔کچھ لوگ امت کو تقسیم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔وہ ٹرمپ کے خلاف تو ایک لفظ بھی نہیں بولیں گے لیکن سعودی عرب اور اسلامی ممالک کے خلاف بولتے رہتے ہیں۔بہت سے ایسے اسلامی ممالک بھی ہیں جنہوں نے اسرائیل میں سفارتخانے اور اسٹیڈیم تک بنائے ہوئے ہیں جبکہ پاکستان اور سعودی عرب کا وہاں کوئی بھی دفتر نہیں ہے۔ میرا یہ دعوی ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے اسرائیل سے کوئی خفیہ روابط نہیں ہیں۔جعلی تصویروں کے ذریعہ سعودی عرب کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے۔شاہ فیصل شہید کے بارے میں ساری دنیا جانتی ہے کہ وہ شہید القدس ہیں،ان کے بعد شاہ خالد کی وفات کا سبب بھی یہی تھا کہ انہیں مظلوم فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی ویڈیو دکھائی گئی جسے دیکھ کر انہیں دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔چھ ماہ پہلے میری ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات ہوئی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہم نہ کشمیر کو چھوڑ سکتے ہیں نہ فلسطین کو۔دشمنوں کو تکلیف اس لیے ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کیوں ترقی کر رہے ہیں؟ ہم جس طرح حرمین کا دفاع واجب سمجھتے ہیں اسی طرح القدس کا دفاع بھی لازمی سمجھتے ہیں۔
سینئر صحافی سلیم صافی کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کے فیصلے پر مجھے قرآنی آیت یاد آ رہی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ تم ایک چیز کو برا سمجھتے ہو، حالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔عرب ایران تنازعہ کی وجہ سے یہ مسئلہ نظرانداز ہو رہا تھا اور فلسطینی تنہائی کی طرف جا رہے تھے لیکن ٹرمپ کا یہ بیان عرب اور ایران کی غیرت کو بیدارکر سکتا ہے۔میری دعا ہے کہ اللہ مسلمان قیادت کو بصیرت عطا فرمائے تاکہ یہ طوفان مغرب مسلمان کو مسلمان کر دے۔
سیمینار میں ایک سیشن القدس سے متعلق عربی و عالمی ادب پر بھی ہوا،جس میں مصر،سوڈان،الجزائر،اردن اور پاکستان کے نمائندوں نے شرکت کی اور مقالے پیش کیے۔اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز،سعودی سفیر نواف سعید المالکی اور مصر سفیر نے بھی تقریب سے خطاب کیا۔
فیس بک پر تبصرے