ایک اور طرح کے گمشدہ افراد

ڈاکٹر مہتاب ایس کریم

1,212

2017 کی مردم شماری کے نتائج  ماہرینِ آبادیات سمیت تمام  سماجی طبقات  کیلئے حیران کن ہیں اور وہ ان نتائج کی صحت پر سراپا سوال ہیں۔ ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی آبادی تقریباً 20 کروڑ 78 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔  یہ عدد حکومت کی جانب سے لگائے گئے تخمینے سے 1 کروڑ زیادہ ہے۔حکومتِ پاکستان کے اندازے کے مطابق1998 سے  2017  تک ملکی آبادی 2 فیصد بڑھنے کے امکانات تھے، تاہم مردم شماری کے نتائج کے مطابق آبادی میں اضافے کا تناسب 2.4 فیصد رہا ہے۔تعجب انگیز بات یہ ہے کہ سندھ کی آبادی گزشتہ  19 برسوں میں بالکل نہیں بڑھی  ، اور اس پر مستزاد یہ کہ  1981 کے بعد سے اب تک،34برسوں میں   سندھ کی آبادی میں اضافے کی  حد بہت  کم بڑھ پائی۔  پنجاب کی آبادی میں سالانہ اضافے کی شرح  قومی اور دیگر صوبائی آبادیوں میں اضافے کی اوسط  شرح  سے روایتی طور پر کم رہی، جوکہ 2.1 فیصد ہے اور صوبے میں شرح پیدائش میں کمی کی غماز ہے۔خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی آبادی  میں اضافے کی شرح بالترتیب 2.9 فیصد اور 3.4 فیصد رہی، جو کہ ملکی آبادی میں اضافے کی اوسط شرح سے خاطر خواہ زیادہ ہے،  غالباًافغان مہاجرین کا یہاں رچ بس جانا آبادی میں اضافے کی ممکنہ وجہ ہو سکتی ہے۔

سندھ کی آبادی میں اضافے کی شرح گزشتہ  34 برسوں میں انتہائی کم رہی ہے ۔ جبکہ 1972 سے 1981 تک سندھ کی آبادی میں اضافے کی شرح3.9 فصد تھی، جبکہ 1998 اور 2017 کے نتائج کے مطابق سکڑ کر 2.4 فیصد رہ گئی ہے۔ 1951 سے 1981 تک ، 30 سالوں میں سند ھ کی آبادی میں اضافے کی شرح  4.5 فیصد رہی، آبادی میں یہ خاطر خواہ اضافہ دیگر علاقوں کے لوگوں کے کراچی میں آبسنے سے ہوا۔ 1951 میں ملکی آبادی میں سندھی آبادی کا حصہ 18 فیصد تھا، جبکہ 30 سال بعد یہ حصہ 23 فیصد تک بڑھ چکا تھا۔تاہم 1981 سے 2017 تک اس رجحان میں  قابلِ ذکر حد تک کمی آئی اور سندھ کی آبادی محض 0.4 فیصد تک بڑھ سکی۔آخری تین عشروں میں پہلے تین عشروں کی نسبت  آبادی میں اضافے کی شرح میں حیرت انگیز کمی  کی کئی  ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ اول یہ کہ سندھ میں شرح پیدائش باقی صوبوں کی نسبت انتہائی  کم رہی، دوم یہ کہ دیگر صوبوں  کے عوام میں کراچی کی طرف نقل مکانی کے رجحان میں خاطر خواہ کمی آئی۔ اور سوم یہ کہ  آخری دو مردم شماریوں میں سندھ کی آبادی کے نتائج میں  کمی بیشی  کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

پاکستان ان چند ایشیائی ممالک میں سے ایک ہے جہاں شرح پیدائش میں کمی کی رفتار انتہائی سست ہے۔ تاہم شرح پیدائش میں کمی کے مجموعی رجحان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ پاکستان کے تمام  صوبوں میں یہ رجحان تقریباً برابر ہے۔  تاہم اوسطاً پنجاب میں ایک خاتون  کے ہاں سندھی خاتون کی نسبت  بچوں کی تعداد کم از کم نصف  ہے۔ دیگر دو صوبوں کے رجحانات کے بارے میں کوئی معلومات موجود نہیں ہیں۔ قیامِ پاکستان سے اب تک دیہاتوں سے شہروں اور بالخصوص کراچی کی جانب لوگوں کی کثیر تعداد میں نقل مکانی کے رجحان کے سبب  سندھ کی آبادی میں خاطر خوا ہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔یہ ہجرت اسی اور نوے کی دہائیوں میں جاری رہی۔ 1998 کے بعد کے عشرے میں تقریباً 38 لاکھ افراد نے دیہاتوں سے شہروں کی طرف ہجرت کی، جبکہ ان میں سے نصف تعداد   دیگر صوبوں اور نصف افراد اپنے ہی صوبے کے دیگر علاقوں میں رہائش پذیر ہوئے۔تاہم مختلف صوبوں میں نقل مکانی کا یہ رجحان مختلف رہا۔مثال کے طور پر سندھ میں آ بسنے والے  71 فیصد افراد دیگر صوبوں سے ہجرت کر کے آئے ۔ جبکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نقل مکانی کرنے والے افراد کی اکثریت نے  اپنے ہی صوبے کے دیگر اضلاع میں رہائش اختیار کی ۔ 1998  کی مردم  شماری میں بین الصوبائی اور بین الاضلاعی نقل مکانی کو نظر انداز کیے جانے کی وجہ سے ان رجحانات کا  صحیح تخمینہ  نہیں لگا یا جا سکا۔تاہم یہ بات بالکل واضح ہے کہ گزشتہ دو عشروں کے دوران  دیگر صوبوں کے اضلاع سے کراچی کی طرف  نقل مکانی کاقابلِ ذکر  رجحان موجود رہا ہے۔

گزشتہ مردم شماریوں کے برعکس 2017 کی مردم شماری  کسی بھی فرد کی مستقل رہائش  کی بنیا د پر کی گئی ہے ۔ اسی لیے  دیگر صوبہ جات سے سندھ  نقل مکانی کرجانے کے باوجود جن افراد کے شناختی کارڈز پر ان کے پیدائشی صوبے کا پتہ درج ہے، انہیں اسی صوبے کا شہری تسلیم کیا گیا ہے۔پھر بھی مذکورہ مردم شماری کے نتائج  درست نہیں ہیں اور ان میں کمی بیشی کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔  ان نتائج کی صحت جانچنے کیلئے ” بعد ازمردم شماری  شماریاتی جائزہ ” لینا ضروری ہے جس کا طریقہ کار عالمی سطح پر مقبول ہونے کے ساتھ ساتھ کئی ممالک میں رائج  بھی ہے۔  اس طریقہ کار میں کسی بھی منتخب علاقے کی آبادی کا جائزہ لے کر  اسی علاقے کے مردم شماری کے نتائج سے موزانہ کیا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر امریکہ میں 1950 کی مردم شماری کے بعد لیے گئے شماریاتی جائزے  کے مطابق مردم شماری میں   5 فیصد لوگ شمار نہیں کیے جا سکے تھے۔ 1990 میں شمار نہ کیے جانے والے افراد کی شرح 1.9 فیصد  تھی۔  2001  کی آسٹریلوی مردم شماری کے بعد کے شماریاتی جائزے کے مطابق مردم شماری میں 2 فیصد لوگ شمار نہیں کیے جا سکے تھے۔ اسی طرح 2011  میں بھارت میں 2.3 فیصد اور بنگلہ دیش میں 4.2 فیصد افراد شماریاتی عمل میں شمار نہیں کیے جا سکے تھے۔ پاکستان میں 1961 کی مردم شماری کے بعد لیے گئے شماریاتی جائزے کے مطابق مردم شماری میں 6.7 فیصد افراد کا شمار نہیں کیا گیا تھا، بعد ازاں اس جائزے کی بنا پر مردم شماری کے نتائج میں  موزوں اضافہ کیا گیا۔ 1981 کی مردم شماری کے بعد بھی شماریاتی جائزے  کا اہتمام کیا گیا ، تاہم اس کے نتائج راز ہی رہے۔ 1998 کی مردم شماری کے بعد ایسے کسی جائزے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی اور اب 2017 میں ایسا کوئی لائحہِ عمل ترتیب نہیں دیا گیا۔

مردم شماری کےنتائج کو  آبادیاتی خاکہ نگاری  کے عمل کے ذریعے بھی  پرکھا جا سکتا ہے، جس میں  دو مردم شماریوں کے درمیان کسی بھی وقت میں میسر پیدائش و وفات اور نقل مکانی  کے اعداد وشمار پر مبنی آبادیاتی  اشاریوں کی مدد سے   ان رجحانات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔1998 کی مردم شماری کے نتائج  جانچنے کیلئے اقوامِ متحدہ اور پاکستان کی جانب سے قائم کی گئی جائزہ کمیٹی کے رکن کے طور پر میں نے 1982 سے 1997 تک کیے گئے آبادیاتی جائزوں کے اعدادو شمار کوبغور دیکھا۔ اس دوران میں نے 1981 سے 1998 تک امریکہ،  یورپ اور خلیجی ممالک کی جانب سے نقل مکانی کر جانے والے افراد کے اعدادو شمار اکٹھے کیے گئے۔ ان اعدادو شمار کا جائزہ لینے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ مردم شماری میں 60 لاکھ افراد کو شمار نہیں کیا گیا اور ان میں افراد کی اکثریت سندھ سے تعلق رکھتی تھی۔ بدقسمتی سے پاکستان میں  2007 کے بعد سے اس طرح کے آبادیاتی جائزے  نہیں لیے جا سکے ، اسی لئے ملک کے تمام صوبوں میں آبادی کی عددی  تقسیم کے متعلق کوئی تخمینہ لگانا  انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔ بین الصوبائی اور بین الاضلاعی نقل مکانی کی بابت گزشتہ مردم شماریوں میں پوچھے گئے سوالات کو 2017 کی مردم شماری سے خارج کردیے جانے کی بنا پر بین الصوبائی نقل  مکانی کے رجحانات   کا اندازہ ممکن نہیں ہے۔ قیامِ پاکستان سے مسلسل سندھ کی جانب نقل مکانی کے بےہنگم  رجحان کے سبب سندھ کی آبادی  کا  ملکی آبادی میں تناسب  پہلے 33 برسوں میں  18 فیصد سے 23 فیصد   تک بڑھا، تاہم گزشتہ دونوں مردم شماریوں کے مطابق تقریباً  36 برس میں  آبادی کا تناسب  23 فیصد تک ہی رہا اور اس میں کوئی قابلِ ذکر اضافہ نہیں ہوا۔

اعداد و شمار کے تجزئے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ  سندھ میں فی گھر  رہائش پذیر افراد کی اوسط تعداد 1981، 1998 اور 2017 میں بالترتیب 6.8 ، 6.3  اور 5.6 رہی، جو فی گھر افراد کی اوسط تعداد میں بتدریج تنزلی کی عکاس ہے۔بلوچستان میں بھی اسی قسم کا رجحان سامنے آتا ہے، جہاں  1981 میں فی گھر افراد کی اوسط تعد اد 7.2 تھی، جو 2017 میں  7 تک گر چکی ہے۔ جبکہ دوسری طرف پنجاب میں یہ عدد 1981 میں 6.3 ، 1998 میں 7 اور 2017 میں 6.4 کی حد پر رہا ۔ اسی طرح خیبر پختونخوا میں یہ حد 1981 میں 6.8 جبکہ 2017 میں 7.9  تک بڑھی۔جبکہ یہ عین ممکن ہے کہ شرح پیدائش میں کمی کی سست روی اور نئے گھروں کی عدمِ تعمیر کے باعث فی گھر افراد کی اوسط تعداد میں اضافہ ہوا ہو، لیکن یہی رجحان سندھ میں کیوں دیکھنے میں نہیں آیا، جبکہ دیگر صوبوں کی نسبت سندھ میں آبادی کا بہاؤ زیادہ رہا۔ کیا 1998 اور 2017 کی مردم شماری میں سندھ میں  فی گھر افراد کی اوسط تعداد  میں تنزلی اس بات کی غماز ہے کہ   سندھ کی آبادی کو کم ظاہر کیا گیا ہے؟

1998 اور 2017 کی مردم شماریوں کے اعداد وشمار  کا ادارہ شماریات کی جانب سے لیے گئے  سالانہ جائزوں کے نتائج سے  موازنہ کیا جائے تو ان میں مطابقت پید ا نہیں ہوتی۔ گزشتہ برسوں کے سالانہ گھریلو حجم کے  جائزوں  کے مطابق پنجاب میں  فی گھر افراد کی اوسط تعداد 6.1 جبکہ سندھ میں 6.5 ہے۔اس کا مطلب ہے کہ حالیہ مردم شماری میں  سندھ  میں  فی گھر ایک فرد اور بلوچستان میں فی گھر نصف فرد کم شمار کیا گیا۔ جبکہ پنجاب میں فی گھر اعشاریہ تین فرد اور خیبر پختونخوا میں فی گھر اعشاریہ سات فرد زائد شمار کیے گئے ہیں۔  اس سلسلے میں لگائے گئے تخمینوں کے مطابق سندھ ا ور بلوچستان میں بالترتیب    ستر لاکھ  90 ہزار   اور 6 لاکھ   افراد کم شمار کیے گئے جبکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بالترتیب  50 لاکھ 70 ہزار اور  20 لاکھ 80 ہزار افراد زیادہ شمار کیے گئے ہیں۔اعدادوشمار میں کسی بھی نوعیت کی کمی بیشی نہ ہونے کے مفروضے  کی بنیاد پر ترمیم شدہ نتائج کے مطابق  ملکی آبادی میں سندھ اور بلوچستا ن کا تناسب بالترتیب 26 اعشاریہ 9 اور 6 اعشاریہ 2  فیصد تک بڑھ جائیگا، جبکہ دوسری جانب پنجاب کی آبادی کا تناسب کم ہو کر  50 اعشاریہ 2 فیصد اور خیبر پختونخوا کی آبادی کا تناسب  کم ہو کر  13 اعشاریہ 3  فیصد تک ہو جائیگا۔ اگر 2011 سے 2016 کے دوران ہونے والے سالانہ جائزوں میں بیان کیے گئے  اوسط   گھریلو حجم   کو زیرِ غور لایا جاتا ہے تو ملکی آبادی میں از سرِ نو مطابقت پید اکرنی پڑے گی، جس کے تحت ملکی آبادی میں صوبائی آبادیاتی  تناسب  بدل جائیں گے۔سندھ اور بلوچستان کے آبادیاتی تناسب میں اضافہ اور خیبر پختونخوا اور پنجاب کے آبادیاتی تناسب میں کمی واقع ہوگی۔ غرضیکہ  اگر 2017 کی مردم شماری صحیح طور پر کی جاتی  ہے تو قومی مالیاتی ایوارڈ  اور  مقننہ میں سندھ کی شراکت کا حجم  کافی حد تک بڑھ سکتا  ہے۔

مردم شماری کے نتائج کی جانچ کیلئے بین الاقوامی معیارات کی عدم موجودگی کے باعث اگر 2017 کی مردم شماری کے نتائج کو من و عن قبول کر لیا جاتا ہے تو ایک طرف سندھ اور بلوچستان میں بے چینی و عدم اطمینانی کے جذبات جنم لیں گے تو دوسری طرف یہ چیز ہمیں   تباہ کن پالیسی سازی کی جانب  لے جائے گی۔  بعد از مردم شماری شماریاتی جائزے کی مدد سے شماریاتی نتائج کی جانچ کیے بغیر حالیہ مردم شماری کے نتائج کو ہو بہو قبول کرنا  قطعاً ملکی مفادمیں نہیں ہے۔  ادارہ شماریات پاکستان کو یہ  توثیقی عمل ماہرینِ آبادیات اور مستند جامعات کے شعبہ شماریات کی مدد سے انجام دینا چاہیے۔ اگر 2017 کی مردم شماری کے بعد شماریاتی جائزے کا اہتمام کیا جاتا تو مردم شماری کے نتائج میں کسی بھی طرح کی کمی بیشی کو کم سے کم سطح تک لایا جا سکتا تھا۔ ادارہ شماریات کے ساتھ منعقدہ ایک مجلس میں ماہرینِ آبادیات  نے ایک  شماریاتی جائزےکی تجویز  پیش کی تھی ، تاہم   اس خوف سے   اس تجویز کی مخالفت کی گئی کہ کہیں مردم شماری کے نتائج شماریاتی جائزے سے متصادم نہ ہوں۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ملک کے 2 فیصد منتخب آبادیاتی  حلقوں کاشماریاتی جائزہ لے کر ملکی آبادی کا صحیح تعین کیا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ عمل ادارہ شماریات پاکستان کے تعاون سے ہی پایہ تکمیل کو پہنچایا جا سکتا ہے۔اخباری ذرائع کے مطابق سندھ حکومت نے ادارہ شماریات سے مردم شماری کے نتائج  کی دستاویز ات طلب کی تھیں، تاکہ ان نتائج کی صحت کا جائزہ لیا جاسکے، لیکن سندھ حکومت کی اس درخواست کو  نامنظور کر دیا گیا۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف یہ کہ شفافیت  کے اصولوں کے خلاف ہے بلکہ اگر  اعدادو شمار میں واقعتاًفرق ہے، تو اس کے پالیسی نتائج  ضرور نقصان دہ ثابت ہوں گے۔

 

(ترجمہ: حذیفہ مسعود، بشکریہ: دی فرائیڈے ٹائمز)

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...