قطر،سعودی کشیدگی : اصل وجہ ہے کیا ؟
قطرنے بہارعرب کے نتیجے میں ہونے والی تبدیلیوں کوسپورٹ کیا۔ ایک عام خیال یہ ہے کہ گزشتہ 25سال میں خلیجی تعاون کونسل (جی سی سی) کے چھ رکنی ممالک میں ہونے والے ہربحران میں قطرکاہاتھ رہاہے
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورے اور40کےلگ بھگ اسلامی فوجی اتحاد کے قیام فورا ًبعد سعودی عرب اورا س کے اتحادیوں عرب امارات، بحرین اورمصرنے قطرپرخطے میں دہشت گردی کوفروغ دینے کاالزام عائد کرتے ہوئے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات کے خاتمے کااعلان کردیا۔
قطرایک ایسی سنی ریاست ہے جس کے حکمران عقیدے کے لحاظ سے سعودی عرب سے شائد زیادہ مختلف نہ ہوں۔ نہ ہی یہ ایران کی طرح شیعہ حکومت ہے۔ لیکن یہ کئی لحاظ سےدیگرخلیجی ممالک سےقدرے مختلف بھی ہے۔ فنانشنل ٹائمز کے مطابق کشیدگی کی ایک وجہ قطرکی دیگرخلیجی ممالک سے ایک الگ خارجہ پالیسی بھی ہے۔ دوسرا یہ ان کی کوشش ہے کہ الجزیرہ ٹی وی کی نشریات جوقطرسے ہوتی ہیں، کوبند کیاجائے۔ اگرچہ قطر رقبہ اورآبادی کے لحاظ سے سعودی عرب سے چھوٹاملک ہے لیکن اس کی دولت اورگیس کے ذخائراس کے عمل دخل کوبڑھانے کا ذریعہ ہیں۔ قطر2022کے عالمی فٹبال کا میزبان ہے۔ اس لحاظ سے اس نے کئی تبدیلیاں کیں ہیں جس کومثبت قراردیاجارہاہے۔
موجودہ تنازعہ اس وقت اٹھاجب قطرکے امیرتمیم ابن حمادالثانی نے اسرائیل اورایران کی تعریف کی، جوکہ سعودی عرب کے مخالفین ہیں۔ اگرچہ قطرنے اس کی تردیدکی مگرسعودی عرب کے حکمران یہ ماننے کوتیارنہ ہوئے۔تب مصر، سعودی عرب، بحرین اوریواے ای نے قطری نیوزسائٹ بشمول الجزیرہ کی نشریات بندکردیں تھیں۔ قطرپرالزام ہے کہ اس کی حکومت اورافراد شام میں اسلامی گروپوں، نصرہ فرنٹ کوسپورٹ کرتی ہے ۔
لیکن اس تنازعہ کے محض خطے کے لئے اثرات اہم نہیں۔ اس کےبین الاقوامی اثرات بھی ہیں۔ قطرمیں امریکہ کے سنٹرل کمانڈ کا فوجی ہیڈکوارٹرواقع ہے، جوکہ مشرقِ وسطی سے لے کرافغانستان تک کے آپریشن کوکنڑول کرتاہے۔ داعش کے خلاف خاص کرشام میں جنگ بھی یہیں سے کنٹرول ہوتی ہے۔ اوریہی پر وہ ہوائی اڈہ ہے جس سے امریکی جہازبمباری کے لئے تیارکھڑے رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہاں دس ہزارسے زیادہ امریکی فوجی ہیں۔
یوں ایک طرف قطرکے حکمران بظاہرامریکی مخالفین جیسے اخوان المسلمین اورحماس کوسپورٹ کرتے ہیں تو دوسری طرف یہی حکمران پینٹاگون کو اپنی سرزمین پراڈے دیتے ہیں۔ سوئم یہ کہ قطری حکمران امریکہ کے لئے اسلامی تنظیموں سے معاملات طے کرنے میں مددگاربھی ہیں۔ جیسے طالبان کےساتھ بات چیت قطرمیں ہوئی۔ یوں ان کی پالیسی متضادہے۔ لیکن سعودی عرب نے امریکی صدر ٹرمپ کے دورے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے موجودہ قدم اٹھایاہے۔ چونکہ ٹرمپ نے ایران کوللکاراہے اورقطری حکمرانوں کاایران کی طرف رویہ نسبتاً نرم ہے۔ اس لئے سعودی عرب نے اس موقع کوغنیمت جان کرقطرکے خلاف اقدامات آٹھانے کافیصلہ کیاہے۔
قطرکے ساتھ کشیدگی نے سعودی عرب کی مشکلات میں کمی کے بجائے اضافہ کی نشاندھی کی ہے۔ اگرسعودی عرب اورایران کے درمیان حالیہ بڑھتی ہوئی کشیدگی کوسامنے رکھاجائے توسعودی عرب کے حکمران ایک عرب اتحادی سےشائد محروم دکھائی دے رہے ہیں۔ دوئم یہ اس نے اسلامی فوجی اتحاد کے بھانڈے کوپھوڑ دیاہے۔ ترکی کے صدرطیب اردگان نے قطرکادفاع کرتے ہوئے کہاکہ وہ ذاتی طورپرقطرمیں مداخلت کاحامی ہوتے اگرانہیں ذرا بھی شک گزرتاکہ قطرکسی طرح دہشت گردی کوسپورٹ کررہاہے۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ خلیجی ممالک اورقطرکے درمیان مخاصمت ہوئی۔ اس سے قبل 2014میں بھِی بحرین، سعودی عرب اورعرب امارات نے اپنے سفارت کاروں کو واپس بلایاتھا۔ اور سفارتی تعلقات میں یہ کشیدگی 9ماہ تک برقراررہی۔
اٹلانٹک ڈاٹ کام کے مطابق تناؤکی ایک وجہ تو2011کابہارعرب ہے۔ جس نے پورے خطے کواپنی لپیٹ لے رکھاہے۔ اگرچہ بہارعرب بڑی تبدیلی کاباعث بنامگراس کے نتیجہ میں ایک وبال اورخانہ جنگی بھی شروع ہوئی۔ جوہنوزجاری ہے۔ قطرنے بہارعرب کے نتیجے میں ہونے والی تبدیلیوں جیسے شمالی افریقہ اورشام میں ہونے والی تبدیلیوں کوسپورٹ کیا۔ ایک عام خیال یہ ہے کہ گزشتہ 25سال میں خلیجی تعاون کونسل (جی سی سی) کے چھ رکنی ممالک میں ہونے والے ہربحران میں قطرکاہاتھ رہاہے۔ البتہ قطر اوربحرین کے تعلقات بہت زیادہ کشیدہ رہے ہیں۔ کیونکہ دونوں کے درمیان سرحدی تنازعات اورجزیروں کی ملکیت کی دعووں پرتنازعہ ہے۔ ان پر1986میں جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی اور2001میں عالمی عدالت انصاف سے یہ مسئلہ حل ہوا۔ دونوں میں سفارتی تعلقات کوئی 26سال بعد 1997میں بحال ہوئے۔ اورسعودی عرب کے حکمران بحرین کے الخلفیہ خاندان کی حمایتی اورنگہبان ہیں۔ یہی نہیں بلکہ 1992میں سعودی عرب اورقطرکے درمیان سرحدی تنازعہ میں تین افراد ہلاک ہوئے۔ اس طرح قطران دوممالک کے ساتھ تنازعہ میں توہی ہے۔ لیکن اس کے دیگرممالک کے ساتھ معاملات بھی مقابلہ اورتناؤ پرمبنی ہیں۔
قطر، اپنے دارلحکومت دوحہ کوعالمی پیمانے پراجاگرکرنے کی کوششوں میں لگاہوا۔ یوں اس کا مقابلہ دبئی کے ساتھ ہے۔ قطرچاہتاہے کہ خطےاوردیگرعالمی معاملات کے لئے دوحہ کوایک متبادل مرکزکے طورپرپیش کیاجائے۔ اس لئے قطرنے افغان طالبان کویہاں دفترکھولنے کی اجازت دی۔ یوں اس نے ایک اہم تنازعہ پربات چیت کوایک مرکزفراہم کیا۔
ایک اورمسئلہ جو سعودی عرب اورمصرجیسے طاقتورممالک کے ایک چیلنج ہے وہ ہے اس کااخوان المسلمین کوسپورٹ کرنے کی پالیسی ۔ قطر مصرکی اخوان المسلمین کوسپورٹ کرتاہے جس پرمصری حکومت نے پابندی عائدکررکھی ہے۔ اوریہ اسرائیل کے خلاف غزہ کی پٹی میں حماس کوسپورٹ کرتاہے۔
قطرنے مصرمیں بہارعرب کے نتیجہ میں بننے والی حکومت جس کے سربراہ الاخوان کے مرسی تھے کوسپورٹ کیا۔ جبکہ سعودی عرب اورامریکی موجودہ فوجی حکومت کے سربراہ سیسی کے حمایتی ہیں۔ سعودی عرب نے پورے خطے میں ایک رجعتی کردار اداکیا۔ جبکہ قطرکا کردارنسبتاً جمہوریت پسند اخوان کی حوصلہ افزائی میں نظرآتا ہے۔ قطرنےاردن کے اخوان کوبھی سپورٹ کیا۔ یوں یہ اپنی خارجہ پالیسی کی وجہ سے سعودی عرب کے مقابل آکھڑاہوتاہے۔ خارجہ معاملات میں تناؤ اس حدتک ہےکہ قطرنے 1995میں خلیجی تعاون کونسل کے لئے سعودی عرب کے سیکرٹری جنرل کے عہدے پرتعیناتی کے خلاف آوازبلندکی۔ اوراسی وجہ سے قطرنے کونسل کے آخری سیشن کا بائیکاٹ کیا۔
قطرکی پالیسیوں میں تبدیلی 1995میں اس شیخ حمادبن الخلیفہ الثانی کے اقتدارمیں آنے سے نمایاں ہوئیں جس نے قطرکوعالمی منظرنامہ میں لانےکا فیصلہ کیا۔ شیخ حماد کے تختہ الٹنے کی دوکوششوں کی پشت پناہی سعودی عرب نے کی تھی۔
امریکہ اورعرب ممالک کے لئے قطر،یوں بھی ناپسندیدہ ہے کہ دوحہ سے الجزیرہ کونشرہونے کی جگہ دی۔ جس نے پورے عرب خطے میں امریکی میڈیا چینلزکے لئے ایک چیلنج پیش کردیا۔ الجزیرہ نے امریکی پروپگنڈہ کا توڑکیا۔ اورعرب عوام میں جگہ بنائی۔ سعودی عرب نے 2002میں یہ کہہ کر اپنے سفارتی عملہ کودوحہ سے واپس بلایاکہ یہ چینل سعودی عرب کے اندرونی معاملات کو جس طرح پیش کرتاہے اس سے حکومت کےلئے مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ اس معاملہ کوحل ہونےمیں کوئی 5سال کا عرصہ لگا۔ سعودی عرب نے جہاں یمن میں 1994میں ایک فریق کوسپورٹ کیاتوقطرنےدوسرے کو۔
گارجین کے مطابق قطردنیا کادوسراسب سے امیرترین ملک ہے۔ قطری عوام کی قوت خرید امریکیوں سے کہیں زیادہ ہے۔ لیکن قطرمیں بڑی تعداد میں غیرملکی ملازمین کی ہے۔ بی بی سی کے مطابق ملک میں 90فی صد غیرملکی ہیں جن میں بڑی تعدادمزدوروں کی ہے۔ قطر،زمینی، سرحدی اورفضائی ناکہ بندی سے متاثرہورہاہے۔ قطرکی 40فی صد کے قریب خوراک سعوی سرحد سے آتی ہے۔ تنازعہ میں ملوث ممالک نے قطری سفارتی عملہ اورشہریوں سے نکلنے کوکہاہے۔
خطے میں قطراورسعودی عرب کے درمیان تنازعہ ناصرف خطے اوراسلامی تنظیموں پراثرورسوخ کی جنگ ہے بلکہ یہ امریکہ کے دوبہت ہی قریبی اتحادیوں کےمابین بھی ہے۔ اس تنازعہ اورتناؤ سے امریکہ کے ایران کے خلاف اقدامات میں بھِی تعطل پڑسکتاہے۔ اس سےاسلامی فوجی اتحاد کی کوششوں کودھچکہ لگاہے اورسعودی عرب کی خطے میں سربراہی کوایک چیلنج درپیش ہوگیاہے۔ سعودی عرب اوربحرین کوپہلے اندرونی عوامی بغاوت کاخطرہ ہے۔ یہ پہلے سے ایک غیرمستحکم خطے میں ایک نئے مسئلہ کا اضافہ ہے۔
(مضمون نگار کراچی میں مقیم محقق ہیں)
فیس بک پر تبصرے