سرسید احمدخان کی روشن خیالی: محرکات و اثرات
ڈاکٹر سید جعفر احمد پاکستان کے سماجی علوم کے ایک ممتاز سکالر ہیں۔ وہ ۱۹۸۴ء سے جنوری ۲۰۱۷ء تک پاکستان اسٹڈی سنٹر، جامعہ کراچی سے وابستہ رہے۔ اس طویل رفاقت کے آخری سترہ برسوں میں وہ ادارے کے ڈائریکٹر کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ ڈاکٹر سید جعفر احمد نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ایم اے، مطالعۂپاکستان میں ایم فِل اور برطانیہ کی کیمبرج یونیو رسٹی سے سماجی و سیاسی علوم میں پی ایچ ڈی کی ڈگر ی حاصل کی۔ تین عشروں سے زیادہ پر پھیلی ہوئی جامعہ کراچی سے وابستہ زندگی میں ڈاکٹر سید جعفر احمد نے پاکستان کی سیاسیات بالخصوص وفاقیت، آئینی ارتقا، انسانی حقوق، تعلیمی مسائل اور منہاجِ تحقیق جیسے مضامین کی تدریس کی۔ علاوہ ازیں انہوں نے تحقیق کے میدان میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ انہوں نے تاریخ، سیاسیات اور ادب پر مجموعی طور پچیس کتابیں تصنیف اور مرتب کی ہیں۔ انگریزی اور اردو میں شائع ہونے والی ان کی کتابیں اپنی معروضیت اور سائنسی طرزِفکر کے حوالے سے ایک نمایاں پہچان رکھتی ہیں۔ ڈاکٹر سید جعفر احمد سول سوسائٹی کی تنظیموں کے ساتھ گہرا تعلق رکھتے ہیں بالخصوص انہوں نے ان اداروں کے ساتھ مل کر کام کیا ہے جو سیاسی تعلیم اور تربیت نیز محنت کشوں اور معاشرے کے دیگر پِچھڑے ہوئے حلقوں کے حقوق کی بازیافت کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ ڈاکٹر سید جعفر احمد اپنے علمی اور تحقیقی کاموں کے حوالے سے کئی بین الاقوامی اور ملکی سطح پر منعقد ہونے والی کانفرنسوں میں اپنے مقالات پیش کر چکے ہیں۔ زیرِ نظر مقالہ ڈاکٹر صاحب نے شعبۂ اردو جامعہ کراچی کی کانفرنس بعنوان ’سرسیداحمد خان، دو سو سالہ یادگاری بین الاقوامی کانفرنس‘ میں ۱۶؍ اکتوبر ۲۰۱۷ء کو کلیدی خطبہ کے طور پر پیش کیا۔ (مدیر )
میرے لیے یہ بات غیر معمولی اعزاز کی حیثیت رکھتی ہے کہ آج کی اس تاریخی بین الاقوامی کانفرنس میں جہاں علم وادب کی دنیا کی بے شمار بلند قامت شخصیات تشریف فرما ہیں، مجھ جیسے طالب علم کو کلیدی خطاب کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔میں اس محفل میں حاضری کا واحد جواز اپنے طالب علم ہونے کی حیثیت کو قرار دوں گا۔ سر سید احمد خان ہماری تاریخ کی ایک ایسی شخصیت ہیں جن سے سماجی علوم سے وابستہ کسی بھی شعبے کے طالب علم اغماض نہیں برت سکتے۔ کانفرنس کے منتظمین نے بھی اس چیز کو پیشِ نظر رکھا ہے چنانچہ کانفرنس صرف سر سید کی ادبی خدمات اور ان کی زبان وانشا کے موضوعات تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس میں تاریخ اور ثقافت اور وسیع تر جنوب ایشیائی تناظر کو شامل کر کے اس کانفرنس کا دائرہ کار بڑھا دیا گیا ہے، اور یوں یہ کانفرنس علوم کی کثرت اور سر سید کی جامعیت دونوں کی آئینہ دار بھی قرار پاتی ہے۔
سر سید احمد خان جن کی پیدائش کو دو سو سال اور وفات کو کوئی ۱۱۹؍ سال ہو رہے ہیں ہماری تاریخ کے ایک ایسے موڑ پر سامنے آئے جو ہندوستان کے لیے عموماً اور برصغیر کے مسلمانوں کے لیے بالخصوص ایک بہت بڑے تہذیبی بحران کا دور تھا۔ سیاست، ثقافت، معاشرت، تعلیم ، ادبیات اور مذہب ومسلک، غرض ہر شعبے میں پچھلے نظریات، خیالات اور تعبیرات کے حوالے سے سوالات اٹھ رہے تھے اور نئے جوابات کی تلاش وقت کی ضرورت بن چکی تھی۔ انیسویں صدی کے نصف آخر میں سر سید نے خود کو کم وبیش ان سب محاذوں پر متحرک کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایسا کرتے وقت انہیں کسی ایک طرف سے نہیں بلکہ مختلف اطراف سے مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ لیکن ایک دیوانگی کی کیفیت تھی جس نے انہیں ہمہ تن مصروف رکھا۔ وہ مختلف محاذوں پر لڑتے بھی رہے۔وہ کہیں رُکے نہیں، بلکہ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود آگے بڑھتے رہے، آگے دیکھتے رہے۔ ایک امید کی خوشی نے اُن کو آخر دم تک متحرک رکھا۔
سر سید کے انتقال کے کوئی بارہ عشروں بعد آج اگر ان کے کام کا اجمالی جائزہ لینے کی کوشش کریں تو شاید آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ انہوں نے انیسویں صدی کے بہترین علم کو جذب کرنے کی پوری کوشش کی اور پھر اس کو بیسویں صدی تک منتقل کرنے کا اہتمام کیا۔ انہوں نے وہ مطبوعات شائع کیں اور وہ ادارے بنائے جو اگلی صدی تک اس علم کی ترسیل کرسکتے تھے۔ تاریخی نقطۂ نظر سے سر سید کا یہ کام انتہائی ارفع اور بروقت ہونے کے ساتھ کچھ نہ کچھ کمزوریوں کا بھی حامل تھا۔ مغربی علوم سے اکتساب میں ان کی تنقیدی نظر ہوسکتا ہے کہیں بھر پور طور پر کارفرمانہ بھی رہ سکی ہو، ان کی ادارہ سازی میں بھی کسی نہ کسی جھول کی گنجائش رہ گئی ہو، مگر بحیثیت مجموعی ان کا کام خیال وفکر کو، مکالمے کو، اور تاریخ کو آگے لے جانے کا باعث بنا۔ وہ ایک انسان تھے اور انسان کی سوچ اور اقدامات میں کچھ نہ کچھ کمی بھی رہ جاتی ہے۔ رشید احمد صدیقی نے علیگڑھ کی بابت گفتگو کرتے ہوئے اسی نکتے کی وضاحت کی تھی:
’’سرسید نے علیگڑھ کی تشکیل جنت یا جہنم کو سامنے رکھ کر نہیں کی تھی، بلکہ انسان اور ابلیس کی اسی دنیا میں تعمیر کی تھی جو جنت اور جہنم دونوں کا نمونہ اور نمائندہ تھی اور یہ دنیا دونوں کی مانند کوئی سہل اور سادہ ادارہ نہ تھی، جہاں گزرے ہوئے اعمال کی سزا یا جزا مل گئی اور مِسل داخلِ دفتر کر دی گئی۔ اس دارالمحن اور دارالعمل میں جس کو دنیا کہتے ہیں، اللہ، انسان اور ابلیس میں کشش، کشیدگی اِتصال وافتراق، سیاہ وسفید اور بست وشکست کے ایسے نوع بہ نوع لامتناہی پیش وخم اور نشیب وفراز آتے ہیں کہ ’’گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل‘‘ ۔خدا کی بنائی ہوئی اس دنیا میں انسان کی بنائی ہوئی دنیا علیگڑھ واقع ہے۔ ‘ (۱)
سر سید دو صدیوں کے درمیان ایک معنوی پل ہی کی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ وہ مشرق اور مغرب کے درمیان ایک مکالمے کا نام بھی ہیں۔ یہ مکالمہ انہوں نے کچھ اس طور کیا کہ مغرب کی دنیا سے متاثر بھی ہوئے بلکہ بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ بالکل مبہوت ہوگئے ہوں، لیکن بہت سے معاملات میں مغرب اور مشرق کے فکر میں ہم آہنگی کی مہم بھی شروع کی۔ اس ساری علمی وفکری کاوش کے پیچھے ایک جذبہ جو غالب رہا وہ ایک ایسے مکالمے کی بنیاد ڈالنے کا جذبہ تھا جس کے نتیجے میں اتحادِ بین المذاہب کی صورت پیدا ہوتی اور مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان ارتباط کی فضا قائم ہوتی۔
سر سید نے اپنے علمی سفر میں کئی ارتقائی منزلیں طے کیں۔ ان کا یہ سفر سیاسی اور سماجی دونوں دائروں میں آگے بڑھا اور یہ دلچسپ بات ہے کہ ان دونوں سمتوں میں یہ دو مختلف منزلوں کی طرف گامزن رہا، حامد حسن قادری نے حسرتؔ موہانی پر اپنی تحقیقی کتاب میں علیگڑھ کے فارغ التحصیل حسرتؔ اور خود علیگڑھ کے تعلق کو ایک ’اجتماع ضدین‘ یا Paradoxقرار دیا ہے۔ انہوں نے حسرت ؔ کے بارے میں لکھا کہ:
“His views were both radical and conservative-conservative in the field of religion and radical in the sphere of politics __ and these were not popular at Aligarh, where precisely the opposite combination prevailed __ i.e. Aligarh was radical in religion and conservative in politics.”(۲)
علیگڑھ کا یہ تناقض یا Paradoxدراصل سر سید کا تناقض تھا۔ ان کے سیاسی خیالات ان کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی ملازمت سے فراغت کے بعد بھی انگریز نوازی اور انگریزی طرزِ حکمرانی سے وابستہ کیے رہے۔ سچی بات یہ ہے کہ ان کی، انگریزکے طرزِ حکمرانی اور انگریز کے قانونی اور بلدیاتی نظام کی تائید وحمایت کے پیچھے کوئی ذاتی منفعت کارفرما نہ تھی بلکہ ایمانداری سے انہوں نے یہ سمجھا تھا کہ استعمار کا سیاسی وقانونی نظام اور حکومت کرنے کے ان کے طریقے ماضی کے ہندوستانی حکمرانوں کے طرزِ حکمرانی سے بہتر تھے۔ سر سید کے اس تخمینے کو دو بڑے واقعات یا اقدامات سے غیر معمولی تقویت حاصل ہوئی، ۱۸۵۷ء کے بعد جب سندھ کے چیف کمشنر بارٹل فرئیر نے اپنے Minutesمیں اپنی حکومت کو یہ مشورہ دیا کہ ہندوستان جیسے وسیع وعریض علاقے اور یہاں کے کروڑوں باشندوں پر حکمرانی صرف یوں ہی ممکن ہے کہ مقامی لوگوں کو قانون ساز اداروں میں کم از کم اتنا حصہ ضرور دے دیا جائے جس سے ان کو یہ تاثر مل سکے کہ ان کے معاملات کے چلائے جانے میں ان کی رائے بھی کوئی اہمیت اور کوئی کردار رکھتی ہے۔ یہاں سے ہندوستان میں نمائندہ اداروں کا چلن عام ہوا اور تحصیلوں اور ضلعوں کی سطح پر نمائندہ ادارے بننا شروع ہوئے۔
Prelude to Partitionکے مصنف ڈیوڈ پیج کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں نچلی سطح سے بتدریج اوپر کی سطح تک نمائندہ اداروں کا پھیلاؤ سیاسی سطح پر جمعیت سازی اور کمیونٹی بلڈنگ کا ذریعہ بنا اور مسلم ثقافتی شناخت، سیاسی معنوں میں مسلم جمعیت سازی(Group Formation)کی بنیاد بن گئی۔(۳) دوسرا اہم واقعہ جو انگریزی تسلط کے بعد وقوع پذیر ہوا وہ نئے حکمرانوں کا ہر چند سال بعد مردم شماری کرانے کا اقدام تھا۔ اس کے نتیجے میں یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی کہ کونسی ثقافتی جمعیت کتنی تعداد پر مشتمل ہے۔ کوئی ایک ہزار سال تک ہندوستان پر حکمرانی کرنے کا تاثر رکھنے والے مسلمانوں پر پہلی بار منکشف ہوا کہ وہ ہندوستان کی کل آبادی کے تقریباً ۲۳ فیصد کے قریب ہیں۔ ہندوستان میں چند مسلم اکثریتی علاقے بھی موجود تھے جہاں فوری طور پر خوف اور سراسیمگی محسوس نہیں کی گئی ہوگی، لیکن شمالی ہند اور خاص طور پر یوپی کے علاقے میں مسلم آبادی کا تناسب ہندوستان کی کل آبادی میں اُن کے تناسب سے بھی بہت کم تھا۔(۴) یہاں کے مسلمانوں کا اندیشہ ہائے دور دراز میں گرفتار ہونا عین ممکن تھا۔ سر سید اسی سرزمین کے چشم وچراغ تھے۔ سو اُن کے دیدۂ بینا کے لیے یہ دیکھ لینا ناممکن نہیں تھا کہ آنے والا وقت کس بحران کی خبر دے رہا ہے۔ شمالی ہند کے اسی خطے میں مسلم دور کے مراکزِ اقتدار بھی واقع تھے۔ جہاں فارسی کے سرکاری زبان ہونے کے ناطے مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں، عدالتوں، مالیاتی نوکر شاہی اور انہی جیسے اداروں میں اپنی آبادی کے تناسب سے زیادہ نمائندگی حاصل رہی تھی۔ انگریز حکومت کی جانب سے جب انگلش کو سرکاری زبان بنانے کا فیصلہ ہوا تو یوپی کے مسلمان، خاص طور سے وہ جو ملازمتوں میں تھے یا وہ جو خاندانی طور پر ملازمتوں کا رُخ کرتے تھے، انہوں نے خود کو تباہی کے کنارے پر محسوس کیا۔ سر سید اسی سماجی طبقے، جس کا بڑا حصہ اشراف پر مشتمل تھا، کی زبان بنے۔
سر سید نے ایک سہ طرفہ حکمتِ عملی اختیار کی۔ ایک طرف انہوں نے انگریز عُمّال سے اپنے تعلقات کی بنیاد پر ان کے ذہنوں میں مسلمانوں کے حوالے سے پائی جانے والی بدظنی کو دور کرنے کی کوشش کی۔ ’اسبابِ بغاوت ہند‘ تحریر کرنے کا مدّعا یہی تھا۔(۵) دوسری طرف سر سید نے مسلمانوں کو باور کرانے کی کوشش کی کہ اندریں حالات ان کے لیے بہترین لائحہ عمل یہی ہے کہ وہ انگریز سے مخاصمت کے بجائے اس کے ساتھ وفاداری کا رشتہ استوار کریں، کیونکہ ان کے لیے انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنا تو ممکن نہیں ہے، ان سے دشمنی اختیار کر کے وہ خود کو مزید نقصان پہنچائیں گے۔لہٰذا بہتر یہی ہے کہ وہ ان کے ساتھ مل کر چلنے کا راستہ اختیار کریں۔ سر سید کے نزدیک احتجاج اور ایجی ٹیشن کا راستہ اختیار کرنا مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا تھا۔(۶) سر سید کی حکمت عملی کا تیسرا پہلو یہ تھا کہ انہوں نے جونہی یہ اندازہ لگایا کہ مسلمانوں کی اقلیتی حیثیت آئندہ کے سیاسی وآئینی نظام میں ان کی کمزور پوزیشن پر منتج ہوگی، انہوں نے مسلمانوں کو ایک قوم قرار دینے میں دیر نہیں لگائی۔ ایک اقلیت کو ایک قوم قرار دینا سرسید کے نزدیک مسلمانوں کے بہتر مستقبل کے لیے ناگزیر بن چکا تھا۔ سر سید کے نزدیک یہ یوں بھی ضروری ہوچکا تھا کیونکہ انگریزہی کے ایما پر ۱۸۸۵ء میں بننے والی انڈین نیشنل کانگریس بھی نیشنلزم کے دعوے کے ساتھ منظر عام پرآئی تھی۔ سیاسی اور عمرانی مفکرین ایک عرصے سے اس بحث میں مبتلا ہیں کہ کیا انیسویں صدی کا ہندوستان ان معنوں میں قوم سازی کے لیے یا قومی دعووں کے لیے تیار ہوچکا تھا، جن معنوں میں امریکہ وبرطانیہ اور دیگر مغربی ملکوں میں تجارتی اور صنعتی سرمائے پر تصرف رکھنے والے حلقوں نے اپنے جداگانہ قومی وجود کا اٹھارہویں اور انیسویں صدیوں میں اعلان کیا تھا۔ لیکن سر سید کا مدعا واضح تھا۔ وہ یوپی کے اشراف کی ڈوبتی ہوئی ناؤ کو سہارا دے رہے تھے اور وہ اس میں کسی حد تک کامیاب بھی رہے۔
سرسید کے سیاسی مشن کے علی الرغم ان کے سماجی نظریات، ان کی جدتِ طبع اور ان کے مزاج کے خلّاقی پر دلالت کرتے ہیں۔ وہ ہر وقت نئے خیالات کو قبول کرنے پر آمادہ رہتے تھے۔ بعض اوقات ایسا کرتے وقت انہوں نے عجلت کا بھی مظاہرہ کیا۔سماجی شعبے میں ان کے رشحاتِ فکر اور عملی اقدامات تاریخ، فلسفے، الہٰیات، اور سائنس کے موضوعات پر تصنیف وتالیف کے علاوہ علمی وتہذیبی اداروں کے قیام کو محیط ہیں۔ جہاں تک مؤخر الذکرکا تعلق ہے، جب انہوں نے ایک بار یہ فیصلہ کر لیا کہ جدید تعلیم مسلمانوں کی نجات کی کلید فراہم کرتی ہے تو انہوں نے پھر اسی سمت میں عملی اقدامات شروع کیے۔انگلستان میں اپنے کوئی ڈیڑھ سال کے قیام میں انہوں نے وہاں کے تعلیمی نظام اور خاص طور سے آکسفورڈ اور کیمبرج کے طرزِ تعلیم کا بغور جائزہ لیا تھا۔ اسی نہج پر انہوں نے علیگڑھ اسکول کی ابتدا کی جہاں نہ صرف نصاب سازی میں بلکہ طالب علموں کی تربیت اور ادارے کے انتظام وانصرام میں بھی برطانوی طریقوں کو اختیار کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہندوستان کے تناظر میں یہ ایک بالکل نیا تجربہ تھا سو اس کی مخالفت بھی ضرور ہوئی لیکن سرسید اپنے مشن میں ثابت قدم رہے۔ سر سید کا لڑکیوں کی تعلیم کی طرف متوجہ نہ ہونا ان پر تنقید کا سبب بنتا ہے۔ لیکن اس سلسلے میں ان کی سوچ کو گیل مینالٹ (Gail Minault)نے Trickle Down Effect کے مصداق قرار دیا ہے۔ گویا ان کا خیال تھا کہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ، لڑکوں کی تعلیم ضروری ہے اور تعلیم یافتہ مرد ہی اگلے مرحلے میں عورتوں کی تعلیم کو ذہناً اور عملاً قبول کریں گے اور اس کو ممکن بنائیں گے۔(۷)
سر سید کی علمی اور تصنیف وتالیف کی کاوشیں ان کی روشن خیالی کا اصل میدان بن کر سامنے آتی ہیں۔ عملی اقدامات اٹھاتے وقت ان کو چاروناچار مصالحتیں بھی کرنی پڑیں، معاندات کے سامنے لچک کا مظاہرہ بھی کرنا پڑا اور اپنے اقدامات کی نتیجہ خیزی کو یقینی بنانے کے لیے رفتارِ کار پر بھی سمجھوتا کرنا پڑالیکن علمی وادبی کام میں وہ کسی کمی بیشی پر آمادہ نہیں ہوئے اور جو دیانتدارانہ رائے ان کی بنی، وہ اس کو ضابطۂ تحریر میں لے آئے۔ وہ دل کی بات دل میں اتارنے کے قائل تھے۔ جدید علوم سے ان کا شغف حادثاتی نہیں بلکہ ارتقائی تھا۔ انہوں نے جب تصنیف وتالیف کے میدان میں قدم رکھاتو مغربی علوم کے لیے فضا کسی نہ کسی حد تک پہلے سے ہموار ہورہی تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیر اثر بنگال میں انگریزی طرز کے بہت اسکول کھل چکے تھے۔ ۱۷۸۱ء میں وارن ہیسٹنگز نے کلکتہ میں مدرسۂ عالیہ کی بنیاد رکھ دی تھی۔ ۱۷۸۴ء میں ایشیا ٹک سوسائٹی آف بنگال وجود میں آچکی تھی۔ ان مغرب نواز سرگرمیوں کانقطۂ عروج فورٹ ولیم کالج کا قیام تھا جہاں فارسی، عربی اور سنسکرت کی کتب، جو ادب ، قانون، تاریخ، فقہ اور مذہب کے موضوعات پر مشتمل تھیں، ترجمہ ہو کر انگریزی کے قالب میں ڈھل رہی تھیں۔ یہ کام بنیادی طور پر انگریزوں کے اپنے مفاد میں تھا کیونکہ اس کے ذریعے وہ ہندوستان کے علمی سرمائے سے آگاہی حاصل کر رہے تھے۔ لیکن مستشرقین کے اس کام کے علی الرغم کمپنی کے کچھ ملازم ہندوستانیوں کو انگریزی زبان کی تعلیم دینے اور ولایتی تہذیب سے مانوس کروانے میں مصروف تھے۔ ۱۸۰۳ء میں دہلی اور آگرہ بھی کمپنی کے قبضے میں آگئے جس کے بعد دہلی کالج کا قیام عمل میں آیا، جس کے وسیلے سے بے شمار انگریزی کتب ہندوستانی زبانوں میں منتقل ہوئیں اور شمالی ہند کے مسلمان پہلی بار جدید علوم سے آگاہ ہوئے۔ دہلی کالج کے اس تاریخی کردار کا ذکر کرتے ہوئے مولوی عبدالحق رقمطراز ہیں کہ:
’’یہی وہ پہلی درسگاہ تھی جہاں مغرب و مشرق کا سنگم قائم ہوا۔ اسی ملاپ نے خیالات کے بدلنے، معلومات میں اضافہ کرنے اور ذوق کی اصلاح میں جادو کا کام کیا اور ایک نئی تہذیب اور نئے دور کی بنیاد رکھی اور ایک نئی جماعت ایسی پیدا کی جس میں ایسے پختہ، روشن خیال اور بالغ نظر انسان اور مصنف نکلے جن کا احسان ہماری زبان اور ہماری سوسائٹی پر ہمیشہ رہے گا۔‘ ‘(۸)
اٹھارہویں صدی کے اواخر اور انیسویں صدی کے اوائل کا یہی ہندوستان تھا جس میں راجہ رام موہن رائے ۱۷۷۴ء میں بنگال میں پیدا ہوئے۔ سر سید کی طرح انہوں نے بھی کمپنی کی ملازمت کی تھی لیکن ۱۸۱۵ء میں انہوں نے پینشن لے کر خود کو سماجی کاموں کے لیے وقف کر دیا تھا۔ انہوں نے ہندو مذہب اور معاشرت میں اصلاح کا بیڑا اٹھایا اور برہمو سماج کی تنظیم کے ذریعے جدید علوم وفنون کے حصول کی مہم شروع کی۔ یہی کام ایک مختلف سماجی پس منظر میں کوئی تیس پینتیس برس بعد سر سید نے کیا۔ سر سید اپنے ثقافتی ورثے سے مضبوطی سے جڑے ہونے کے باوجود کشادہ ذہن رکھتے تھے۔ آزاد خیالی شروع میں بھی ان کے ہاں ناپید نہیں تھی، مگر وقت کا سیلِ رواں ان کو بہت تیزی سے نئے منطقوں کی طرف لے جاتا رہا۔ خاص طور سے ۱۸۵۷ء کے داروگیر نے ان کے سوچنے کے انداز کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ لیکن اس سے ذرا پہلے ان کو جھنجھوڑنے کا ایک واقعہ غالبؔ کے حوالے سے ظہور پذیر ہوچکا تھا۔ غالب کو مسلم ہند میں روشن خیالی کے حوالے سے سر سید کا پیش روکہنا غلط نہیں ہوگا۔ ابھی ۱۸۵۷ء وقوع پذیر نہیں ہوا تھا، غالبؔ کو کوئی دو سال کلکتہ میں رہنے کا موقع ملا۔ گئے تو وہ اپنی پینشن کے سلسلے میں تھے اورانہوں نے وہاں ٹھوکریں بھی خوب کھائیں، کلکتہ کا موسم بھی ان کے لیے اذیت بخش ثابت ہوا لیکن جدید زندگی کے جو نقوش انہوں نے وہاں دیکھے، سائنس اور ٹیکنالوجی کی جو محیر العقول ایجادات اور ان کی کارستانیاں ان کی نظر میں آئیں، انہوں نے غالبؔ کے فکر واحساس کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ دہلی واپسی پر انہوں نے اپنے ایک دوست کو خط میں لکھا:
’’کلکتے کی خاک نشینی دوسرے مقام کی تخت نشینی سے بہتر ہے۔ خدا کی قسم، بال بچوں کا بکھیڑا نہ ہوتا تو میں کب کا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر وہیں پہنچ جاتا۔‘‘(۹)
کلکتہ میں غالبؔ نے ریل کی پٹڑیاں دیکھیں، بھاپ کے انجن دیکھے، ٹیلیفون اور ٹیلیگرام کا نظام دیکھا۔ وہ انتظامِ کار دیکھا جن پر ادارے چلائے جارہے تھے۔ اس سارے مشاہدے اور تجربے نے ان کو ایک نئی نظر، ایک نئی بصیرت فراہم کی۔ سو ۱۸۵۵ء میں جب سر سید نے آئینِ اکبری، کو ترتیب وتدوین کے بعد تقریظ لکھنے کی خاطر غالبؔ کے پاس بھیجا تو غالبؔ نے تقریظ لکھ تو دی، لیکن اس میں یہ بند بھی شامل کیا جس کا مفہوم یہ تھا کہ ایک ’دیدۂ بینا‘ نے ’کہنگی‘ کو نیا لباس پہنایا ہے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ اس مشغلے سے آپ نے یعنی سر سید احمد خان نے بے شک اپنا دل خوش کیا ہے، مگر میں ’آئینِ ریا‘ کا دشمن ہوں لہٰذا آپ کے کام پر آفرین نہیں کہہ سکتا۔ غالبؔ انگریزوں کے لباس اور پوشاک سے متاثر نہیں تھے نہ ان کو انگریزی زبان سے کوئی رغبت پیدا ہوئی تھی کہ وہ اپنی زبان وتہذیب کا خود ہی بہترین مثالیہ تھے، البتہ مغربی علوم اور سائنسی ایجادات نے ان کو غیر معمولی طور پر متاثر کیا تھا۔ اس وقت سر سید کو غالبؔ کی تنقید پسند نہیں آئی تھی، انہوں نے غالبؔ کی لکھی ہوئی تقریظ کو شاملِ اشاعت بھی نہیں کیا، لیکن ان کے دل اور ذہن پر جو چوٹ غالب نے لگائی تھی وہ آسانی سے ختم ہونے والی نہیں تھی۔ یہ چوٹ ہی مہمیز بنی اور آئندہ برسوں میں ان کے ذہن کے دریچے کھلتے چلے گئے اور تازہ ہوا اور روشنی ان کے افکار کو نکھارتی چلی گئی۔
سر سید کا سائنسی ترقیات سے متاثر ہونا صرف متاثر ہونے کی حد تک نہیں تھا بلکہ رفتہ رفتہ وہ سائنسی طرزِ فکر کے بھی حامل ہوتے چلے گئے۔ مغرب سے اُن کا واسطہ اس ذہنی انقلاب کو مہمیز کرنے کا ذریعہ بھی بنا۔ اس ضمن میں رشید احمد صدیقی کا بیان بہت قابل ذکر ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’مغرب میں سائنس کی ترقی سے جو ذہنی انقلاب آیا اور جس طرح علمی اور مادی ترقی وکامرانی کے بے شمار نئے دروازے کھلے سر سید ان سے گہرے طور پر متاثر ہوئے۔ وہ اپنے ملک میں بھی ایک سائنسی ذہن پیدا کرنا چاہتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے اپنی قوم میں جامد مذہبی خیالات وتوہمّات کے خلاف سخت جدوجہد کی اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ سائنس کی ترقی مذہب کے منافی نہ تھی۔ اوہام پرستی اور قدامت پسندی کو مذہب کا دشمن بتایا اور سائنس کو اصلاً ایک ناطرف دار عمل قرار دیا جس کے امکانات لاتعداد اور لامحدود ہیں جو انسانی معاشرے کی مسلسل اور مستقل ترقی کی ضمانت دیتی ہے۔ انہوں نے مغربی تعلیم وسائنس کی بڑی شدت سے حمایت اور وکالت کی۔ یہ قوم کی عام غفلت اور شدید تعصب کے خلاف ایک جہاد تھا جس میں سر سید تمام عمر مصروف رہے۔‘‘(۱۰)
سر سید کے مقالات اور مضامین کی فہرست بہت طویل ہے۔ ان میں اخلاقی واصلاحی مضامین، فلسفیانہ مضامین، تاریخ اور ادب سے متعلق مضامین اور خالص سیاسی موضوعات پر مضامین شامل ہیں۔ اخلاقی وسیاسی مضامین میں وہ قدامت پسندرسوم وروایات کی مذمت کرتے ہیں۔ مذہب کے نام پر اختیار کی گئی سماجی برائیوں کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کو مسلمانوں کی پسماندگی اور اپنی حالتِ زار سے اُن کی لاتعلقی پر افسوس ہوتا ہے۔ وہ مسلمانوں کو رزقِ حلال کمانے اور دنیا کی ترقی یافتہ قوموں سے سبق سیکھنے کے مشورے دیتے ہیں۔ وہ مہذب اور غیر مہذب حکومتوں کا فرق واضح کرتے ہیں۔(۱۱) ان کے فلسفیانہ مضامین زمان ومکان کے بنیادی مسائل سے بحث کرتے ہیں۔ وہ مسلم فلاسفہ کے رشحاتِ فکر کو تنقید کی کسوٹی پر جانچتے ہیں۔ ہم انہیں امام غزالی سے الجھتے(۱۲) اور رازی سے گفتگو کرتے پاتے ہیں۔(۱۳) ان کو یہ جاننے میں بھی دلچسپی ہے کہ جادو کی حقیقت کیا ہے؟(۱۴) اور روح بدن کا حصہ ہے یا بدن سے ماورا اپنا وجود رکھتی ہے۔ (۱۵) وہ جس جس موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہیں، اُس میں ان کی سوچ کی انفرادیت نمایاں رہتی ہے۔ مذہبی امور میں اظہارِ خیال کرتے وقت ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ جدید سائنسی تعبیرات کی روشنی میں مذہبی تعلیمات اور مذہبی پوزیشن کو ازسرِ نو بیان کریں۔ اس سلسلے میں انہوں نے بعض بہت معنی انگیز مؤقف اختیار کیے ہیں۔ مثلاً ان کا کہنا ہے کہ مذہب انسان کا امرِ طبیعی ہے یعنی کوئی انسان مذہب سے خود کو جدا نہیں کرسکتا۔(۱۶) ایک اور مقالے میں وہ دکھاتے ہیں کہ سورج کی گردش زمین کے گرد قرآن مجید سے ثابت نہیں۔ان کا کہنا ہے کہ قرآن کا یہ ارشاد کہ سورج مشرق سے نکل کر مغرب میں غروب ہوتا ہے، کسی طور سورج کے زمین کے گرد گردش کرنے کا مفہوم نہیں رکھتا۔(۱۷) ایک اور مضمون کا عنوان ’ادنیٰ حالت سے اعلیٰ حالت پر انسان کی ترقی‘ ہے، اس مضمون میں وہ ڈارون کا نام لے کر اس کے نظریۂ ارتقا کی توثیق کرتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ نظریۂ ارتقا اور اسلام میں کوئی فرق نہیں ہے،(۱۸) اس سلسلے میں وہ منطق کا بھی سہارا لیتے ہیں اور ہمیں یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ انہوں نے ڈارون کی تصنیف ’انواع کے آغاز کے بارے میں‘ (On the Origin of Species)کے نفس مضمون کو مکمل طور پر اور بہت احسن طور پر سمجھ رکھا تھا۔ سر سید کی یہ اور ایسی ہی تاویلات، اتفاق و اختلاف کا مرکز بھی بنی رہیں۔ خاص طور سے قدامت پسند حلقو ں میں ان کی آزاد خیالی کو سخت ناپسند کیا گیا۔ اُس وقت کے علمائے مذہب سے لے کر مولانا ابوالحسن ندوی تک کتنے ہی علما نے سر سید پر سخت گرفت کی ہے لیکن سر سید اپنے زمانے کے تناظر میں بہترین استدلال کے ساتھ اپنا کیس پیش کرتے نظر آتے ہیں۔
روشن خیالی کے باب میں یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ تاریخ کا یہ بھی تجربہ رہا ہے کہ انسانی معاشروں نے سائنسی ایجادات سے مستفید ہونے میں کبھی دیر نہیں لگائی۔ ہر سائنسی ایجاد قبولیت کے اعزاز سے متصف ہوئی لیکن سائنسی طرزِ فکر اور ذہنوں کا سائنسی بننا ہمیشہ بہت دیر سے ہوا۔ خود سائنس کے ارتقا کی تاریخ اس تضاد سے آزاد نہیں رہی۔ سائنسدان چیزیں ایجاد بھی کرتے ہیں،دریافت بھی کرتے ہیں، لیکن ضروری نہیں کہ ان کے ذہن بھی اسی نہج پر اور اسی رفتار سے تبدیل ہوتے رہیں۔ سو دماغ سے مشتق جو چیزیں ہماری زندگیوں میں عمل دخل رکھتی ہیں مثلاً یہ کہ انسانی دماغ معلومات تک کیسے رسائی حاصل کرتاہے، انسانی دماغ اخلاقی اقدار کو کیسے وضع کرتا ہے، جمالیات کا دماغ سے کیا تعلق ہے، جذبات اور احساسات کس طور مرتب ہوتے ہیں، ان سب چیزوں نے واضح ہونے میں وقت لیا۔ اٹھارہویں صدی میں سائنسی ذہن پر تبصرہ کرتے ہوئے عیسائیہ برلن (Isaiah Berlin) نے کہا تھا کہ:
“A science of nature had been created; a science of mind had yet to be made.”
(ترجمہ: نیچر کی سائنس وجود میں آچکی تھی، دماغ کی سائنس ابھی منصہ شہود پر آنا باقی تھی۔)(۱۹)
سائنسی ایجادات کے وجود میں آنے اور سائنسی ذہن کے بننے کے درمیان جو فاصلہ ہے اس کو مغرب میں بھی ایک زمانے تک مابعد الطبیعیات کے ذریعے طے کیا جاتارہا۔ نیوٹن کے قانون کو جو لوگ سائنس کی زبان میں نہیں سمجھ سکے، انہیں سمجھایا گیا کہ:
“Nature and Nature’s Laws Lay hid in Night; God said, Let Newton be! and all was Light.”
(ترجمہ: نیچر اور نیچر کے قوانین پوشیدہ تھے تاریکی میں خدا نے کہا، نیوٹن ہوجا، اور روشنی ہر سُو پھیل گئی)(۲۰)
سو، اگر سرسید سائنسی ایجادات اور انکشافات کی تشریح منطق اور مابعد الطبیعیات کے حوالے سے کرتے ہیں تو یہ کوئی انہونی بات نہیں تھی۔ سر سید کے معاملے میں تو یہ یوں بھی ضروری تھا کہ نہ صرف یہ کہ وہ جن لوگوں سے مخاطب تھے، وہ سائنس کی زبان سے یکسر نابلد تھے،اور اُن کی فکر ونظر پر مابعدالطبیعیات کا غلبہ تھا بلکہ اس لیے بھی کہ جن سائنسی نظریات کو وہ لوگوں تک پہنچا رہے تھے وہ خود اُن کے معاشرے کی پیداوار نہیں تھے۔ اس پس منظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ سر سید کا جو علم الکلام وجود میں آیا وہ تمام تر اُن کے ذاتی ارادے اور فیصلے کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ اس کے کچھ خارجی اسباب بھی تھے۔
سرسید نے اسلام اور سائنس کے درمیان ارتباط تلاش کرنے اور اس کو قدامت پسند ذہنوں میں اتارنے کی خاطر یہ دلیل وضع کی کہ کائنات کا نظام دراصل ’خدا کا کام‘ ہے جبکہ قرآن کریم، ’خدا کا کلام‘ ہے۔(۲۱) اُن کا کہنا تھا کہ خدا کے کام اور کلام میں تضاد نہیں ہوسکتا۔ سو جو کچھ دنیا ئے فطرت یعنی نیچر میں ہے اُس کے قوانین ومظاہر کلامِ خدا کی توثیق کرتے ہیں اور کلام خدا، قوانین فطرت کو سند فراہم کرتا ہے۔ سر سید کی اس توجیح نے قدامت پسند حلقوں کی طرف سے اُن کو نیچری ہونے کا خطاب دلوایا۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ سر سید کی علمی اور فکری خدمات کو کیا قبولیت حاصل ہوئی اور یہ معاشرے پر کس حد تک اثر انداز ہوئیں؟ افکار کے، معاشرتی تبدیلیوں کے ساتھ تعلق کی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ نتیجہ اخذ کرنے میں چنداں دشواری نہیں ہوتی کہ وہی افکار اورخیالات پذیرائی حاصل کرتے ہیں اور معاشرے میں قبولیت حاصل کرتے ہیں اور جو سماج یا اس کے کسی حلقے کے لیے مفیدِ مطلب ہوتے ہیں۔ ہر بیج ہر طرح کی مٹی میں نمو نہیں پاتا۔ بیج کی نمو اسی مٹی میں ہوتی ہے جو بیج کو وصول کرنے کے لیے تیار ہوتی ہے۔ افکار کتنے ہی اعلیٰ وارفع کیوں نہ ہوں معاشرہ اگر ان کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوتو وہ کسی تحرّک اور عمل درآمد سے محروم رہتے ہیں۔ بہت سے افکار اور نظریات کچھ عرصے کے بعد سازگار فضا اور سرزمین سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ سر سید کے متنوع خیالات اور رشحاتِ فکر جو مذہب، سیاست، معاشرت اور تعلیم جیسے شعبوں کے حوالے سے سامنے آئے، اپنے زمانے میں سب کے سب یکساں طور پر جڑ نہیں پکڑ سکے۔ مذہبی موضوعات پر انہوں نے جو کچھ لکھا اور جو اسلامی جدیدیت کی روایت کے آغاز کا موجب بھی بنا، اس کو اپنے زمانے میں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ روایت کسی نہ کسی طور آگے بڑھتی بھی رہی۔ مولوی چراغ علی، سید امیر علی اور اقبال جیسے نابغہ ہائے عصر نے اس کو ترقی دی ، اور آزادی کے بعد تک اس روایت سے منسلک کئی نام ہمارے سامنے آئے، لیکن بوجوہ آزادی کے بعد یہ روایت معاشرے کی غالب فکری روایت نہیں بن سکی۔ اس کے برعکس بیسویں صدی کے اوائل میں سیاسی اسلام (Political Islam)کی جس روایت کا آغاز ہوا، اور جس کو تحریک خلافت کی فضا سے مہمیز بھی ملی اُس سے آزادی کے بعد پاکستان کی ریاستی حکمرانی پر فائز طبقات اور اداروں نے حسبِ منشا استفادہ کیا۔ آج سیاسی اسلام خود ریاست کے لیے ایک بڑے چیلنج کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اور ریاست ایک متبادل بیانیے کی تلاش میں سرگرداں ہے۔
سرسید کے افکار کے وہ عناصر جو سیاست کے دائرے سے تعلق رکھتے تھے وہ زیادہ اثرا نداز ہوئے، اور ان کے حوالے سے مسلم علیحدگی پسندی (Muslim Separatism)ایک سیاسی حقیقت بن کر سر سید کے بعد کے عشروں میں ہندوستانی سیاست کا ایک اہم موضوع بن گئی۔ یہی مسلم شناخت مسلم لیگ کی بنیاد اور اس کی بعد کی جدوجہد کا سرنامہ قرار پائی۔سر سید کے تعلیمی نظریات کے لیے بھی شمالی ہند کی سرزمین باقی ہندوستانی علاقوں کے مقابلے میں پہلے پہل زیادہ زرخیز ثابت ہوئی۔ انگریزی تعلیم تمام رکاوٹوں کے باوجود ان حلقوں میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی جن کو ملازمتوں سے محروم ہوجانے کا خدشہ تھا یا جن کو آئندہ برسوں میں ملازمتوں کی دوڑ میں شامل ہونا تھا۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ بیسویں صدی کے نصف اوّل میں چلنے والی تحریکِ آزادی کی سماجی بنیادوں کو تلاش کیا جائے تو صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ فیوڈل اور سرمایہ دار طبقات اس تحریک میں بہت بعد کے مرحلوں میں، جبکہ تقسیمِ ہند نوشتۂ دیوار بن چکی تھی، شامل ہوئے، جبکہ اساسی طور پر یہ تحریک اولاً مسلم اقلیتی صوبوں اور بعدازاں اکثریتی صوبوں کی اس سماجی پرت کی تحریک بن کر ابھری جو متوسط طبقے یا تعلیم یافتہ، ملازمت پیشہ اور ملازمت کی متلاشی سماجی پرت تھی۔ معروف سماجی دانشور حمزہ علوی نے اس کو تنخواہ دار طبقے (Salariat)کی اصطلاح سے موسوم کیا ہے۔(۲۲) یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سر سید کے تعلیمی افکار اور انگریزی دانشگاہوں کی ان کی حکمت عملی اسی طبقے کے لیے زیادہ مفیدِ مطلب ثابت ہوئی۔
پاکستان بننے کے بعد انگریزی میڈیم تعلیمی اداروں نے فروغ ضرور حاصل کیا لیکن ایک آزاد اور خودمختار مملکت کے اہداف کو نوآبادیاتی دور کے مقاصد سے جس طرح جدا ہونا چاہیے تھا، اس کی عدم موجودگی میں انگریزی میڈیم ادارے صرف انگریزی دان اہلکار ہی پیدا کرتے رہے۔ دوسری طرف تعلیمی نظام میں بیک وقت چار یا پانچ طرح کے تعلیمی اداروں کی موجودگی نہ تو تعلیم کو ایک تشخص اور مزاج عطا کرسکی اور نہ ہی قومی مقاصد کی عدم موجودگی میں اس کی کوئی واضح سمت متعین ہوسکی۔ رہا سر سید کی اسلامی جدیدیت کا تعلق، اس کے اگر کچھ آثار بچے ہیں تو آج کے پاکستان میں وہ چھپ چھپا کر کہیں پائے جاتے ہوں گے۔ بظاہر معاشرے پر قدامت پسندی کا غلبہ ہے۔ جن خیالات کی تکذیب انیسویں صدی میں کر دی گئی تھی، وہ اب ٹی وی چینلوں کی ریٹنگ بڑھا رہے ہیں۔ آئے دن ضعیف الاعتقادی کے نئے برانڈلانچ ہوتے ہیں۔روشن خیالی کو دیوار سے لگادیا گیا ہے۔ ایک صارفانہ معیشت نے پورے معاشرے کو حلقہ کر رکھا ہے۔ صارفین کے اس معاشرے کی ترجیحات مصنوعات تک رسائی تک محدود ہیں، اس طبقے کی سیاست، اس کے تعلیمی اہداف اور ثقافتی زندگی سب اسی نکتے پر مرتکز ہیں کہ اس کی مادی آسودگی میں اضافہ ہوتا رہے۔ ہمارا کارپوریٹ سیکٹر اس طلب کو پورا بھی کرتا ہے اور اس میں اضافے کے ہنر بھی آزماتا ہے۔ ایک مرتبہ معاشرہ سازی کا کام کارپوریٹ سیکٹر کے ہاتھ میں آجائے تو آزاد خیال دانشوروں اور حریت فکر کی گنجائش محدود ہوجاتی ہے۔ تب معاشرے میں سائنس تو ہوتی ہے سائنسی طرزِ فکر نہیں ہوتا۔ ہم آج اسی المیے سے دوچار ہیں۔ ہم آج سر سید کا دو صد سالہ جشن منا رہے ہیں۔ مگر سچ پوچھیے تو سر سید کے حضور ہماری ندامت چھپائے نہیں چھپتی۔
***
حوالہ جات وحواشی
۱۔ منقول از ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی، ’مقدمہ‘، مشمولہ، پروفیسر رشید احمد صدیقی، ’سرسید کا مغربی تعلیم کا تصور اور اس کا نفاذ علی گڑھ میں‘، مرتبین، مہر الہٰی ندیم اور لطیف الزماں خان (کراچی: مکتبۂ دانیال ۱۹۹۳ء)، ص ص ر،ڑ۔
2. Khalid Hasan Qadiri, Hasrat Mohani (Delhi: Idara-i-Adabiyat-i-Dilli, 1985), p.89.
3. See: David Page, Prelude to Partition: The India Muslims and the Imperial System of Control 1920-1932 (Karachi: Oxford University Press, 1987).
4. See: Anil Seal, The Emergence of Indian Nationalism Competition and Collaboration in the Later Nineteenth Century (Cambridge: Cambridge University Press, 1971).
انیل سیل نے اپنی محولہ بالا کتاب میں انیسویں صدی کے ہندوستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی آبادی، ان کے تعلیمی کوائف اور لسانی صورت حال کے بارے میں بہت سے اعدادوشمار پیش کیے ہیں جن کی روشنی میں ہندوستان کی اُس وقت کی سیاست اور سیاسی اہداف کے لیے مذہبی شناختوں کے استعمال کے بارے میں رائے قائم کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ ان اعدادوشمار سے یہ اندازہ لگانا بھی ممکن ہوجاتا ہے کہ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کی نوعیت کیا تھی اور سر سید جیسے قومی اصلاح کی بات کرنے والے رہنما کی ترجیحات میں تعلیم سرفہرست کیوں شامل ہوئی۔ اس موضوع پر حمزہ علوی کا مقالہ بھی فکر انگیز مباحث کا حامل ہے۔ ملاحظہ ہو:
Hamza Alavi, ‘Pakistan and Islam: Ethnicity and Ideology’, in Fred Halliday and Hamza Alavi (eds.), State and Ideology in the Middle East and Pakistan (London: Macmillan 1987), pp.64-111.
۵۔ ملاحظہ ہو:
سرسید احمد خان، ’اسبابِ بغاوتِ ہند: تین غیر مطبوعہ مضامین‘، تالیف وتدوین: سلیم الدین قریشی (لاہور: سنگِ میل پبلی کیشنز، ۱۹۹۷ء)۔
۶۔ [سرسید احمد خان]، ’ہندوستان اور انگلش گورنمنٹ‘، مشمولہ، ’مقالاتِ سر سید‘، مرتب: مولانا محمد اسماعیل پانی پتی، حصہ نہم (لاہور: مجلسِ ترقئ ادب، ۱۹۹۲ء)، ص ص ۲۰۔۱۴۔
7. Gail Minault, Secluded Scholars, Women’s Education and Muslim Social Reform in Colonial India (New Delhi: Oxford University Press, 1999), p.18.
۸۔ سبط حسن،’نویدِ فکر‘ (کراچی: دانیال، نواں ایڈیشن، ۲۰۰۲ء)، ص ۱۲۷۔
۹۔ ایضاً، ص ۱۳۴۔
۱۰۔ رشید احمد صدیقی، بحوالہ سابقہ، ص ۲۵۔
۱۱۔ [سرسید احمد خان]، ’مہذب ملک اور نامہذب گورنمنٹ‘، مشمولہ، ’مقالاتِ سر سید‘، مرتبہ: مولانا محمد اسماعیل پانی پتی، حصّہ نہم (لاہور: مجلس ترقئ ادب، ۱۹۹۲ء) ص ص ۱۳۔۱۔
۱۲۔ [سرسید احمد خان]، ’امام غزالی کے فلسفیانہ خیالات‘،مشمولہ، ’مقالاتِ سر سید‘، ایضاً، حصّہ سوم، ص ص ۱۱۱۔۳۳۔
۱۳۔ [سرسید احمد خان]، ’کیا دنیا ومافیہا چھ دن میں بن گئی ہے؟‘، مشمولہ، ایضاً، حصّہ چہارم، ص ص ۲۸۔۱۲۔
۱۴۔ [سرسید احمد خان]، ’جادو‘، مشمولہ، ایضاً، ص ص۳۰۵۔۳۰۰۔
۱۵۔ [سرسید احمد خان]، ’علوم طبیعیہ کی تحقیقاتِ جدید‘، مشمولہ، ایضاً، ص ص ۵۰۔۴۸۔
۱۶۔ [سرسید احمد خان]، ’مذہب انسان کا امیر طبیعی ہے‘، ایضاً، ص ص ۵۰۔۴۸۔
۱۷۔ [سرسید احمد خان]،’سورج کی گردش زمین کے گرد قرآن مجید سے ثابت نہیں‘، ایضاً، ص ص ۶۲۔۵۸۔
۱۸۔ [سرسید احمد خان]،’ادنیٰ حالت سے اعلی حالت پر انسان کی ترقی‘، ایضاً، ص ص ۶۲۔۵۸۔
۱۹۔ ایسائیہ برلن (Isaiah Berlin)، The Age of Enlightenment the 18th Century Philosophers (New York: The New American Library of World Literature, Inc., 1956), p.16.
۲۰۔ ایضاً، ص ۱۵۔
۲۱۔ [سرسید احمد خان]، ’قرآن مجید کی تفسیر کے اصول‘، مشمولہ، ’مقالاتِ سر سید‘، ایضاً،حصہ دوم، ص ص ۶۔۲۔
۲۲۔ حمزہ علوی، بحوالۂ سابقہ، ص ص ۸۹۔۸۸۔
فیس بک پر تبصرے