کالادھن

ژین میئر(ترجمہ: حذیفہ مسعود)

1,034

۲۰۰۶ء میں شائع ہونے والی ژین میئر کی کتاب ’’کالا دھن‘‘ امریکی سیاست کے ا س تشویشناک پہلو سے پردہ اٹھاتی ہے کہ کس طرح ستر کے بعد کی دہائیوں سے امریکی سیاسی منظر نامے پر چند امیر خاندان اثرا نداز ہوتے چلے آرہے ہیں۔کسی سازشی نظریے سے قطع نظر حالیہ دور میں قدامت پسنددائیں بازو کی بنیاد پرستانہ تحریک میں ابھار کا موجب بننے والے دولت مند اور بااثر افراد کی اصل حقیقت یہی ہے۔
ژین میئر ایک تحقیقی صحافی ہیں ، امریکی اخبار نیو یارکر کی اسٹاف رائٹر ہیں۔۲۰۰۸ء میں صحافتی خدمات کے اعتراف میں انھیں جان چانسلر ایوارڈبرائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا۔’’پسِ دیوار: دہشت گردی کے خلاف جنگ سے امریکی مفادات کی جنگ بننے تک کے سفر کی اندرونی کہانی‘‘ بھی انھی کی تصنیف ہے۔

وجہِ اہمیت
آپ نے کبھی۱۹۷۶ء میں بننے والی فلم All the President’s Mens سے شہرت حاصل کرنے والا محاورہ follow the money سنا ہے ؟ آپ اردو میں اسے ’’جدھر پیسہ، اُدھر چور‘‘ کہہ سکتے ہیں، جسے ایف بی آئی کے ایک مخبرڈیپ تھروٹ نے اس منی ٹریل کی وضاحت کرنے کے لیے استعمال کیا تھا جس سے بد عنوان سیاستدانوں تک پہنچنا ممکن بنایا جا سکتا تھا۔ مندرجہ ذیل جھلکیوں میں آپ جان سکیں گے کہ دو قدامت پرست بھائیوں چارلس کوچ ، ڈیوڈ کوچ اور ان کے دیگر دوستوں نے امریکی سیاست میں اثرو رسوخ اور اور سیاسی تغیرات پر اثر انداز ہونے کے لیے گزشتہ دہائیوں میں کس طرح اپنی بیش بہا دولت خرچ کی ہے۔ ہم ان مندرجات سے کوچ برادران کے ہتھکنڈوں، ملکی سیاسی منظرنامے پر ان کے اثر ات اور یہ کہ اس مداخلت کے ڈانڈے کہاں کہاں ملتے ہیں، کے بارے میں جان سکیں گے۔
سو آئیے پیسے کی غیر قانونی ترسیل کے بارے میں جانتے ہیں کہ کس طرح ملک میں بنیاد پرستانہ قدیمی سیاست کی پرورش کو ممکن بنایا گیا۔
ان جھلکیوں میں آپ جان سکیں گے کہ:
۱۔ کوچ برادران ملکی سیاست کا کس طرح حصہ بنے اور اس پر اثر انداز ہونے کا فیصلہ کیوں کر کیا؟
۲۔ کس طرح تھنک ٹینک اور غیر سرکاری تنظیمیں منی ٹریل چھپاتی ہیں؟
۳۔ کس طرح کوچ برادران نے ٹی پارٹی موومنٹ کو یرغمال بناکر اپنے حق میں استعمال کیا؟
کوچ برادران ایک ایسے نیٹ ورک کے کرتا دھرتا ہیں جو امریکی سیاست کو اپنے اختیار میں کرنے کے خواہش مند ارب پتی امریکیوں کی مدد سے چل رہا ہے۔ جب ارب پتی امریکیوں کی بات آتی ہے تو ہمارے ذہن میں سب سے پہلے مارک زکر برگ اور بل گیٹس کے نام آتے ہیں، مگر ان سے زیادہ طاقتور اور دولت مند افراد اور بھی ہیں جو اپنے آپ کو ظاہر نہیں کرتے۔ کوچ برادران انھیں میں سے ایک ہیں جو اس وقت امریکا کی دوسری بڑی نجی کمپنی کوچ انڈسٹریز کے مالک ہیں ، جسے ۱۹۴۰ء میں ان کے باپ فریڈ کوچ نے بنایا تھا۔فریڈ کوچ نے سوویت یونین اور جوزف سٹالین کے لیے آئل ریفائنریز لگانے سے اپنی قسمت کا آغاز کیا اور بعد ازاں۱۹۴۳ میں نازی جرمنی کی طرف سے ایک بڑی آئل ریفائنری کا ٹھیکہ کوچ کمپنی کو ملا، ان دنو ں فریڈرک کوچ نازیت پسند تھا۔یہاں تک کہ اس نے اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے ایک نازی آیا بھی رکھی۔ درحقیقت وہ آیا انتہا پسند نازیت پرست تھی کہ ہٹلر کی طرف سے فرانس پر چڑھائی کے بعد وہ فریڈرک کے دونوں بچوں چارلس اور ڈیوڈ کو تنہا چھوڑ کر جرمنی چلی گئی۔ ان دنوں چارلس کی عمر ۱۰سال اور ڈیوڈ ابھی نو مولود بچہ تھا۔بہر طور دونوں بھائی بڑے ہوکر کاروباری شراکت دار بنے اور وہ ۱۹۷۰ء سے سیاسی عطیات کنندگان کا ایک وسیع نیٹ ورک اور عطیات اکٹھے کرنے والے ادارے چلا رہے ہیں۔اس نیٹ ورک کے پنجے امریکی سیاست کے دل میں اس طرح پیوست ہو چکے ہیں کہ اس نیٹ ورک کو کوچٹوپس کہا جاتا ہے۔ دراصل ان کامقصد آزادیِ اقدار کے پیغام کو پھیلانا ہے۔ان اقدارکا مرکزی نکتہ محصولات اور کسی بھی ایسی چیز کی مخالفت جو منافع کی مد میں حکومت کی طرف سے وصول کی جاتی ہو، اور قوانین کے اطلاق کے اختیار سے عاری حکومت اور فری مارکیٹ کی حمایت ہے۔۱۹۸۰ء میں ڈیوڈ کوچ نے لیبرپارٹی کی جانب سے نائب صدارتی امیدوار کے طور پر حصہ لیا مگر وہ بمشکل ایک فیصد قومی رائے دہندگان کی توجہ حاصل کرسکے۔ لیکن اس تجربے نے دونوں بھائیوں کو آئندہ سیاسی منظر نامے پر اثر انداز ہونے کا گُر سکھا دیا۔انھیں احساس ہو اکہ سیاستدان عوام کی آواز ہوتے ہیں اور اصل طاقت رائے عامہ کی تخلیق و تشکیل میں پنہاں ہے۔یہی وجہ ہے کہ کوچ برادران نے پسِ پردہ رہنے کا فیصلہ کرتے ہوئے صبر آزما لائحۂ عمل کے لیے اپنی توانائیاں صرف کرنے پر توجہ مرکوز کردی۔
کوچ نیٹ ورک نے سیاسی عطیات کو ٹیکس فری اور گمنام رکھنے کے لیے غیر منفعتی خیراتی اداروں کا سہارا لیا۔ کوچ برادران جانتے تھے کہ رائے عامہ میں من چاہی تبدیلی لانے کے لیے انھیں ایک بہترین راہ کاا نتخاب کرنا ہے تاکہ ان کے خیالات و نظریات عوامی توجہ حاصل کر سکیں۔آخر کار انھوں نے ایک کارآمد راستہ ڈھونڈ نکالا کہ اپنے سیاسی ایجنڈے کو انسان دوستی یا خدمتِ خلق کے روپ میں پیش کیاجائے۔جلد ہی انھوں نے پریشر گروپوں ، تھنک ٹینکس اور نجی اداروں جیسی غیر منفعتی تنظیموں کی مدد سے اپنے آزادی پسند نظریات کے پرچار کا آغاز کردیا۔یہ حکمتِ عملی کامیاب رہی کیونکہ غیر منفعتی ادارے معاشی حوالے سے سود مند رہتے ہیں اور انھیں عوام کو جوابدہ بھی نہیں ہونا پڑتا۔ اس کا مطلب ہے کہ عطیات کے لیے رقم بغیر کسی شناخت کے دی جاتی ہے اور رقم کے متعلق عوام کو آگاہ کرنا بھی ضروری نہیں ہوتا۔ عطیات کنندہ اپنی مرضی سے کتنی بھی بڑی رقم کا چیک سائن کر سکتے ہیں اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ اسی رازداری کے سبب ہی ’’کالا دھن‘‘ جیسی اصطلاح سامنے آتی ہے۔ غیر منفعتی ادارے بڑی آسانی سے ان سب چیزوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں کہ کس قدر رقم کہاں سے آئی اور کہاں خرچ ہو رہی ہے۔ ان تنظیموں کا سہارا لینے کی ایک وجہ اور بھی ہے کہ خیراتی عطیات پر بھی ٹیکس کٹوتی ہوتی ہے اور اس طرح اگر وہ اپنی خاندانی وراثت کسی خیراتی ادارے کو عطیہ کردیتے ہیں تو انھیں وراثتی ٹیکس سے چھٹکارا مل جاتا ہے اور وہ یہ عطیات اپنی منشا کے مطابق کہیں بھی خرچ کر سکتے ہیں۔رفتہ رفتہ سینیٹر ٹیڈ کروز اورنیوجرسی کے گورنر کرس کرسٹی جیسے بڑے سیاسی نام بھی کوچ اداروں کے نیٹ ورک کاحصہ بن گئے۔ اس نیٹ ورک کے عطیات کنندگان میں چارلس شواب اور ایم وے کمپنی کے شریک بانی رچرڈ ڈیووس جیسی گھاگ کاروباری شخصیات شامل ہیں جو۲۰۱۱ء اور ۲۰۱۲ء میں کم از کم ۱۰لاکھ ڈالرکا حصہ ڈال چکے ہیں۔یہ تما م کا تمام پیسہ کوچ برادران کے معاشی وسائل میں اضافے کے لیے لٹایا گیا۔۲۰۱۳ء تک یہ دونوں بھائی ایک لاکھ سے زائد خیراتی اداروں پر اپنا تسلط قائم کر چکے تھے جن کی کل مالیت ۸۰۰ بلین ڈالر بنتی تھی۔کوچٹوپس کا سب سے پرانااور با اثر مہرہ ہیرٹیج فاؤنڈیشن ہے جس کی مالیت۱۷۴ ملین ڈالر ہے۔یہ اس قدر خطیر رقم رائے عامہ پر اثر انداز ی ، رائے دہندگان کی جانچ پڑتال سے فرار، سیاسی شفافیت سے بچاؤ اورنظامِ محصولات میں سقم کا فائدہ سمیٹنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
دیرپا غلبے کو ممکن بنانے کے لیے کوچ نیٹ ورک نے نہ صرف یہ کہ کئی تھنک ٹینک قائم کیے ہوئے ہیں بلکہ مختلف تعلیمی منصوبہ جات بھی شروع کر رکھے ہیں ۔
رائے عامہ پر بہتر طور پر اثر انداز ہونے اور مستقبل میں مزاحمت کم کرنے کے لیے تعلیمی تنظیمیں اور منصوبے کوچ برادران کے قدامت پسند عطیات کنندہ نیٹ ورک کا لازمی جزو بن چکے ہیں۔ نئی نسل میں قدامت پسند فکر کو فروغ دینے کے خیال کے پیشِ نظر ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو عطیات دینے کا آغاز کیا گیا۔مستقبل کی سیاست میں کوچ نظریات کے حامل سیاسی رہنما ؤں کے سامنے آنے سے سماج میں ان کے تسلط کو بقا ملے گی۔ یہی وجہ ہے کہ لا ء سکول ان کی بنیادی ترجیح ہیں ۔ دائیں بازو کی سب سے پہلی تعلیمی تنظیم اولن فاؤنڈیشن تھی جو ہتھیار بنانے والی کمپنی اولن انڈسٹریز کے سربراہ جان ایم اولن کے نام سے معنون ہے۔ اولن ہارورڈ میں جاریMasterfield’s Program on Constitutional Government کا محر ک تھا ، جس کے لیے ادارے کو اولن فاؤندیشن کی جانب سے ۳۳ لاکھ ڈالر کی خطیر رقم عطیہ کی گئی تھی۔ اس قانون کے تحت طلبا کو امریکی نظامِ حکومت کی قدامت پسندانہ تشریح و توضیح سے روشناس کرایا گیا جو بعد ازاں ہارورڈ، ییل اور جارج ٹاؤن جیسے بڑے اداروں میں معلّمانہ خدمات سرانجام دیتے رہے۔قدامت پسندانہ ایجنڈے کے فروغ کے لیے قدامت پسند تھنک ٹینکس کا قیام عمل میں لایا گیا جو سائنسی نظریات میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیے پر اثر ثابت ہوئے۔ مثال کے طور پر جارج سی مارشل انسٹی ٹیوٹ ایک معروف قدامت پسند فکری ادارہ ہے جسے کوچ نیٹ ورک کی طرف سے عطیات دیے جاتے ہیں۔یہ ادارہ فریڈ سیٹز اور فریڈسنگر جیسے ماہرینِ طبیعات کا پشت بان ہے جو ماحولیاتی تغیرات کی سائنس کو چیلنج کرنے میں پیش پیش تھے۔اس کے باوجود کہ فریڈین اس مضمون کے ماہر نہیں تھے مگر وہ عوامی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ان اداروں کا دعویٰ ہے کہ وہ سائنسی مباحث میں توازن کے لیے کوششیں کررہے ہیں مگر درحقیقت وہ پست منطقی معیار کے ساتھ معلومات کو خلط ملط کرنے کی خدمت سر انجام دے رہے ہیں۔ آسان الفاظ میں وہ ان لوگوں کے من چاہے نتائج پر مشتمل تحقیقات کو پیش کررہے ہیں جو انھیں اس لیے عطیات دیتے ہیں کہ وہ ادارے اپنے عطیات کنندگان کے مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے ان کی اعانت کر سکیں۔ رونالڈ ریگن کے دورِ صدارت میں ہیری ٹیج فاؤنڈیشن کی جانب سے شائع شدہ کتاب Mandate for Leadership کی کاپیاں امریکی کانگریس کے تمام اراکین میں بانٹ کر حکومت کے خلام مہم جوئی میں ان تھنک ٹینکس نے بطورِ خاص کردار ادا کیا۔
ٹی پارٹی موومنٹ عوامی اعتماد کے حصول کاذریعہ بن گئی۔
۲۰۰۹ء میں کوچ برادران کی طرف سے سیاسی تحریک کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔یہی وقت تھا کہ غیرمنفعتی خیراتی اداروں اور تعلیمی منصوبوں کی پرورش کے صبر آزما طویل سفر کی ثمر آوری ٹی پارٹی موومنٹ کی شکل میں ہوئی تھی ، جو آزادی پسند وں کو بالآخر قومی دھارے میں لے آئے تھی۔ اس شورش کی جڑیں کوچ برادران کے دست و بازو رچرڈ فرینک اور اَسّی کی دہائی میں اس کے سماج بدل منشور سے جا ملتی ہیں۔ اس منصوبے نے ایک جائز سیاسی تحریک چلانے کی طرف بجا طور پر رہنمائی کی۔اولاً یہ کہ معلومات کا بہاؤ تھنک ٹینکس کے عالی دماغوں سے چوٹی پر موجود سیاستدانوں کی طرف ہونا چاہیے۔ اور پھر پیادہ سپاہیوں کی مدد سے گلی گلی پیغام کو عام کرنے کا وقت آ سکتا ہے۔اور یہ آخری قدم بیسویں صدی کی آخری اور اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں اٹھایا گیا کہ کوچ نیٹ ورک نے حقیقی نظر آنے والی یورش بپا کرنے کے لیے تمام تر ضروری مالی وسائل فراہم کیے۔یہ واقعات کچھ بھی ہو سکتے ہیں مگر اچانک اور حقیقی نہیں ، تاہم عوام کو یہ یقین دلا کر بے وقوف بنایا گیا کہ یقیناًوہ واقعات فطری طور پربغیر کسی پلاننگ کے وقوع پذیر ہوئے تھے۔ اس تحریک کا سیاسی طور پر جائز نظر آنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ آزادی پسندوں کا پیغام عوامی دلچسپی کا حامل ظاہر ہو اور ایسا معلوم ہو کہ اس کی ابتداء عام لوگوں سے ہوئی ہے۔ لیکن چونکہ یہ سارا کچھ کوچ برادران نے منظم کیا تھا ، سو اس کا نام مصنوعی گھاس کی ایک قسم ’’ایسٹروٹرف‘‘ ہونا چاہیے تھا۔روایت پسند ذرائع ابلاغ نے بھی ان کے مشن کو خاطر خواہ فائدہ پہنچایا۔اکثر جب سی این بی سی کا رپورٹر ریک سینٹالی اس بات کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرتاہے کہ اس نے ٹی پارٹی موومنٹ کی مہم کے آغاز میں معاونت کی تھی تو دراصل اس نے وہلبر روس کی ہی بات کو آگے بڑھایا تھا۔ ڈیوڈ کوچ کا قریبی دوست وہلبر روس سی این بی سی پر امریکا میں مالی بحران کے دنوں میں صدر باراک اوباما کے بحران سے نکلنے کے لیے لوگوں کی مدد کرنے کے لاءأہ عمل کی مخالفت کررہا تھا تو ریک سینٹالی نے بات آگے بڑھاتے ہوئے باراک اوباما کی غلط پالیسی کو ’’بری عادت ڈالنے‘‘ کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم عوامی ٹیکس کا پیسہ بے جا صرف کیوں کریں۔فریڈم ورکس کے نام سے قائم ایک اور تھنک ٹینک نے میڈیا کی قدامت پسند شخصیت گلین بیک کو فاکس نیوز پر تھنک ٹینک کالکھا ہوا مسودہ پڑھنے کے لیے لاکھوں ڈالر ادا کیے۔
امریکی عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے سٹیزن یونائیٹڈ کے حق میں فیصلے سے کوچ برادران کو مزید تقویت ملی۔
معاملات نے۲۰۱۰ء میں اس وقت ڈرامائی رخ اختیار کر لیا جب سٹیزن یونائیٹڈ بنام فیڈرل الیکشن کمیشن مقدمہ امریکی عدالتِ عظمیٰ کے سامنے پیش کیا گیا۔ قدامت پسند تھنک ٹینک سٹیزن یونائیٹڈ نے یہ مقدمہ جیت لیا اور فیصلے میں کہا گیا کہ انجمنوں کو آزادیِ اظہارِ رائے کا حق حاصل ہے۔اس فیصلے نے بازی ہی پلٹ دی اور کوچ نیٹ ورک میں پیسے کی ترسیل کے لیے مزیددروازے کھول دیے۔ سب سے بڑی تبدیلی یہ آئی کہ ہر طرح کی غیر منفعتی یا منفعتی انجمن اپنے سیاسی امیدواروں کی حمایت یا مخالفت میں اندھا دھند پیسا خرچ کرنے لگی۔یہ ساری صورتِ حال صدیوں پرانے اہم قوانین کے برعکس تھی جن کے مطابق اس بات کو یقینی بنانا ضرروی تھا کہ مستحکم سیاسی میدان میں دولت مند حامیوں کی وجہ سے مالی عدمِ توازن پیدا نہ ہو۔اس فیصلے کا قدامت پسند وں کو ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ اس کے باعث لبرل سیاستدانوں کے مابین قانون میں پہلی ترمیم کو بنیادی انسانی حقوق تک وسعت دینے کی حمایت اور مخالفت کے معاملے پر پھوٹ پڑ گئی۔ایک چیز جس پر اس ساری صورتِ حال کا کچھ اثر نہ ہوا وہ یہ تھی کہ عطیات کنندگان اب بھی اپنے آپ کو گمنام رکھ سکتے تھے اور یہ رازداری امریکی سیاست میں کالے دھن میں اضافے کے لیے سازگار ماحول فراہم کررہی تھی۔ اس فیصلے کے بعد تو یونائیٹڈ فاؤنڈیشن کے لیے عطیہ کردہ پیسا پانی کی طرح آنے لگا، اور یہ رقم اس قدر تھی اس کا ۴۹ فیصد صرف سیاسی سرگرمیوں پرلٹا دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی وہ عوام کی نظروں سے بچا کر پکڑ میں نہ آنے والے پیسے کی نہ ختم ہونے والی لڑی بناتے ہوئے لاکھوں اربوں ڈالر کسی دوسری تنظیم کو بالکل ہی مختلف مقصد کے لیے ہبہ کر سکتے تھے۔۲۰۱۰ء کے وسط مدتی انتخابات سے پہلے کے ایام میں نئے قوانین کے باعث کوچٹوپس اس قابل تھا کہ وہ نئے ولولے کے ساتھ آکر اپنی کامیابی کو حیرت انگیز طور پر یقینی بناسکے۔
کوچ برادران کے ریڈمیپ نے ہی ریپبلیکنز کی ایوانِ نمائندگان اور اہم ریاستوں میں کامیابی یقینی بنائی۔
۲۰۰۸ء کے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی کامیابی کے بعد ایوان نمائندگان اور سینیٹ ، دونوں میں ان کی برتری میں اضافہ ہوا تو ریپبلکن منصوبہ ساز ایڈ گلسپی نے ریڈ میپ کے نام سے ایک منصوبہ پیش کر دیا۔ مقصد واضح تھا کہ کسی طرح ۲۰۱۰ء کے وسط مدتی انتخابات میں ریپبلکن پارٹی کو کانگریس میں زیادہ سے زیادہ کامیاب کروایا جائے تاکہ انھیں قانون سازی کا اس قدر اختیار مل جائے کہ ۲۰۱۱ء کانگریسی اضلاع کی ازسرِ نو حلقہ بندیوں کو ممکن بنا یا جا سکے۔کسی مخصوص پارٹی کو انتخابی فائدہ پہنچانے کے لیے کانگریسی اضلاع کی نئی حلقہ بندی کا عمل حربہ آزمائی (gerrymandering) کہلاتا ہے۔ ریڈمیپ منصوبے کے تحت ڈیموکریٹک پارٹی کے حامیوں کی زیادہ تعداد رکھنے والے علاقوں کی اس طرح حلقہ بندی کیا جانا مقصود تھا کہ انھیں ایک ہی کانگریسی ضلع میں یکجا کردیا جائے ۔ اس طرح ماسوائے اس ایک اکثریتی ضلع کے باقی تما م اضلاع میں ڈیموکریٹس اقلیتی پارٹی کے طور پر سامنے آئیں گے۔یہ منصوبہ اگرچہ یونائیٹڈ سٹیزنز مقدمہ کے فیصلے سے پہلے بنایاجا چکا تھا تاہم اس فیصلے سے ریڈمیپ کی اثر انگیز ی کو مہمیز مل گئی۔کمزور علاقوں میں ریپبلکن امیدواروں کی حمایت اور ڈیموکریٹک امیدواروں کی مخالفت اور کردار کشی کے لیے لاکھوں مالیت کا کالا دھن سیاست میں جھونکا گیا۔شمالی کیرولینا اس کی ایک عمدہ مثال ہے جہاں ریڈمیپ منصوبہ ڈرامائی طور پر کامیاب رہا۔کوچ برادران کے پرانے ساتھی اور عطیہ کنندہ آرٹ پوپ نے انتخابا ت میں کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے بے دھڑک پیسہ خرچ کیا جس کے نتیجے میں ریپبلکن پارٹی نے مذکورہ ریاست کی ۲۲ میں سے ۱۸نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ امریکا کی ۱۴۰سالہ تاریخ میں پہلی بار ریپبلکن پارٹی شمالی کیرولیناکی نمائندہ جماعت کے طور پر ایوان نمائندگان اور سینیٹ کا حصہ بنی۔ ۲۰۱۰ء میں ایوانِ نمائندگان پر کنٹرول قائم کرنے کے ساتھ ہی قومی سطح پر بھی ریپبلکنز نے اپنی کامیابی کو یقینی بنایا۔ ایوان میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد ریپبلکن پارٹی کانگریسی اضلاع کی نئی حلقہ بندی کرنے میں مکمل طور پر آزاد تھی تاکہ آئندہ انتخابات کے نتائج کو اپنے حق میں کیاجا سکے۔ شمالی کیرولینا ہی وہ ریاست ہے جہاں اس بار بھی ریڈمیپ حربہ اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ کامیاب رہا۔یہ کوچ برادران کے چھوٹی خود مختار حکومتوں کے ایجنڈے کا حصہ تھا کہ بے روزگاری کے فوائدکم سے کم حاصل کیے جائیں ، نتیجتاً کیرولینا سب سے کم وفاقی امداد لینے والی ایسی ریاست بن گئی تھی جو بے روزگار ی کی شرح کے حوالے سے پانچویں نمبر پر تھی۔ ہم دیکھ سکتے ہیں پبلک پالیسی پر کنٹرول حاصل کرنے اور اپنے نظریے کے مطابق قانون سازی کے لیے وہائٹ ہاؤس میں بیٹھنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہی کام کوچ برادران باہر رہتے ہوئے بڑی عمدگی سے سرانجام دینے کے قابل ہو گئے تھے۔
ریپبلکن پارٹی کی اکثریت کے بعد کوچٹوپس نے اوباما انتظامیہ اور ماحولیاتی تغیر پر اپنی توجہ مرکوز کر دی۔
باراک اوباما کے خلاف کوچ برادران کے دلوں میں چھپی نفرت اکثر و بیشتر عطیات کنندگان کے ششماہی اجلاسوں میں زیرِ بحث آیا کرتی تھی۔جون ۲۰۱۱ء میں چارلس کوچ نے ہر موڑ پرباراک اوباما کا راستہ روکنے اور اس کے خلاف آئندہ محاذ آرائی کی وضاحت کرتے ہوئے صدام حسین کے الفاظ میں اسے تمام جنگوں کی ماں قرار دیا۔یہ ریڈ میپ کی کامیابی کا احسان ہے کہ قدامت پسند ریپبلکن اراکین نے ایوان میں اکثریت حاصل کی اور نتیجتاً ۲۰۱۳ء میں حکومتی تعطل کو تکنیکی ایندھن فراہم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ مارک میڈوز وہ شخص ہے جسے اس حکومتی تعطل کا بنیادی محرک سمجھا جاتا ہے اور یہ شمالی کیرولینا سے تعلق رکھنے والے ان ریپبلکن اراکینِ سینیٹ میں سے ہے جو ریڈمیپ حربے کے تحت ۲۰۱۰ء کے وسط مدتی انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے۔ مارک میڈوز نے ہی ایوان نمائندگان میں ریپبلکن رہنماؤں کو کھلا خط لکھ کر افورڈایبل کیئریا اوباما کیئر ایکٹ کے لیے منظورشدہ رقم کو روکنے کے لیے اکسایاتھا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اگر ڈیموکریٹس اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹتے تو حکومت کا قائم رہنا مشکل ہو جاتا۔ریپبلکنز میں انتہا پسندی کی نئی لہر نے ماحولیاتی تغیرجیسے موضوعات پر مناسب بحث کی رہی سہی امید بھی ختم کردی۔آپ یقین نہیں کریں گے مگر عالمی درجۂ حرارت میں اضافہ ایک ایسا مسئلہ تھا جس پر ڈیموکریٹک او ریپبلکن دونوں پارٹیاں مشترکہ طور پر ماحولیاتی تنزلی کے تشویش ناک اثرات کو واقعتاً خطرہ سمجھتے ہوئے یک آواز تھیں۔ مگرکوچٹوپس کی بڑھتی ہوئی اثراندازی اور طاقت کے باعث رفتہ رفتہ مختلف ریپبلکن اراکین نے ماحولیاتی تغیر کے مسئلے کو غیر اہم اور فریب قرار دیتے ہوئے مخالفت شروع کر دی۔ماحول اور صحت کی خرابی کا سبب بننے کی وجہ کوچ برادران کے کارخانوں کے خلاف دائر کیے گئے لاکھوں ڈالر کے مقدمے نے ان کارخانوں کو خطرات میں ڈال دیا تھا، یہی وجہ تھی کہ ماحولیاتی تغیر کوچ برادران کے حلق کا کانٹا بن چکا تھا۔جس کے نتیجے میں وہ سالہا سال معزز ماہرینِ ماحولیات کی مذمت کرتے رہے اورایک کہانی گھڑی کہ حکومت کی طرف سے موسمیاتی تغیر کے لیے کی گئی اصلاحات عوام کی آزادی پر قدغن لگانے کی کوشش تھی۔ اسی اثناء میں کوچ برادران کی ریپبلکن پارٹی پر گرفت اپنی انتہا کو چھونے لگی جیسے کہ ہم آخری جھلکی میں دیکھیں گے۔
امریکا پُر خطر انداز میں امرشاہی (oligarchy) ریاست بننے کی طرف رواں دواں ہے۔
امریکی خواب (American Dream )کے دل میں کندہ ہے کہ یہ وہ سرزمین ہے جہاں کسی بھی رنگ و نسل کا فرد اپنے خواب پورے کرسکتا ہے۔کو چ برادران کے کارناموں نے ملک میں معاشی تفاوت کو وسیع کر دیا ہے۔امیر امیر تر ہوتے جارہے ہیں اور ان کے رتبے کو چیلنج کرنا کسی کے بس میں نہیں۔ دراصل ان کا نیٹ ورک اس قدر مضبوط ہے کہ اس نے تمام ری پبلکن پارٹی کو اپنے حصار میں لے لیا ہے۔اگر کوئی بھی اس حصار سے باہر آنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے کوچ برادران کے غیض و غضب کا نشانہ بننا پڑتا ہے چاہے وہ کوچ برادران کا منظورِ نظر اور سابق ریپبلکن اسپیکرِ ایوان جون بوہنیئر ہی کیوں نہ ہو جو کوچ برادران کے مطالبات ماننے سے انکار کرتے ہوئے ان کے خلاف ڈٹ گیا تھا۔جانتے ہیں اس کے ساتھ کیا ہوا؟ کوچ نیٹ ورک کی مدد سے ایوان نمائندگان کا حصہ بننے والے ریپبلکن ارکان نے جون بوہنیئر پر اس قدر دباؤ ڈالا کہ اسے مستعفی ہونا پڑا۔ یہ ایک واضح مثال ہے کہ جمہوری طور پر قائم ہونے والے قانون ساز ادارے چند امراء کے زیرِ تسلط کیسے لائے جا سکتے ہیں۔یہ صورتِ حال اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ملکی نظامِ سیاست جمہوریت سے زیادہ امرشاہی کے قریب ہے۔کیونکہ امرشاہی کا مطلب یہی ہے کہ ایک ایسی حکومت جو عوامی مرضی کی بجائے چند امراء کی مرضی و منشا کے مطابق کام کرے۔ تاہم ایک ارب پتی شخص ایسا ہے جو عظیم کوچٹوپس کو نظرانداز کرنے کی جرأت کرسکتا ہے اور وہ ہے ڈونلڈ ٹرمپ۔ڈونلڈ ٹرمپ نظامِ محاصلات میں موجود سقم کے خلاف رائے زنی کر کے اپنے آپ کو مزدور پیشہ افراد کا نمائندہ ظاہر کرسکتا تھا جس سے کوچ برادران جیسے ارب پتی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ تاہم ٹرمپ نے مائک پینس کو بطور نائب صدر منتخب کیا جو کوچ برادران کے پسندیدہ سیاستدانوں میں سے ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ کوچ برادران نے ۲۰۱۶ء کے صدارتی انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہونے کے لیے ۸۸۹ ملین ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی۔ یہ بات اپنے مخالفین پر کوچ نیٹ ورک کی برتری کو واضح کرتی ہے۔مگر کوچ برادران تنہا نہیں ہیں۔ جون ۲۰۱۰ء میں کوچ نیٹ ورک کی خفیہ ملاقات کے ۲۰۰ امیرترین مدعوئین میں سے کم از کم ۱۱ شخصیات ایسی ہیں جن کا نام فوربس میگزین کی جانب سے شائع شدہ۴۰۰ دولت مند امریکی افراد میں شامل تھا اور جن کی کل دولت۱۲۹۰۱ بلین ڈالر بنتی ہے۔ہم جانتے ہیں کہ پیسہ ہی اصل طاقت ہے مگر اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ہم آزادی کی سرزمین کو چند امراء کے ہاتھوں یرغمال بننے دیں گے۔ریاست ہائے متحدہ امریکا بہادرلوگوں کی سرزمین کے نام سے بھی جانی جاتی ہے اوراس کو ثابت کر دکھانے کا یہی ٹھیک وقت ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...