ایک پرہیز گار کا المیہ

1,014

جب بھی وہ نماز روزے کی پابندی اختیار کرتا ہے، کچھ ہی دنوں میں اس پر دوسروں کی اصلاح کا جذبہ غالب ہونے لگتا ہے۔ اسے اپنے محلے دار، دوست احباب، بہن بھائی، ماں باپ سب گنہگار ، جاہل اور جہنم کے گڑھے پر کھڑے ہوئے دکھائی دینے لگتے ہیں۔

ایک بزرگ نے ایک بظاہر شریف النفس اور متشرع نوجوان کو نصیحت کی کہ بیٹا تم ایک دیانت دار اورشریف آدمی ہو، کیا ہی اچھا ہو اگر تم پانچ وقت کی نماز کی باقاعدگی اختیار کر لو۔ پھر دیکھو خدا کیسے تمہارے کام میں برکت ڈالتا ہے۔ نوجوان نے بڑے ادب سے عرض کیا، قبلہ میں نے کئی بار نماز روزے اور تمام شرعی وظائف کی پابندی اختیار کی لیکن کچھ ہی عرصے بعد میں ایک بڑی عجیب ذہنی الجھن اور پریشانی کا شکار ہو جاتا ہوں اور مجھے اپنی دین داری ختم کرنی پڑ جاتی ہے۔ بزرگ بڑے حیران ہوئے اور استفسار کیا ایسی کیا الجھن جو آپ کو نماز روزے سے بےزار کر دے۔ نوجوان بولا حضور معاف فرمائیں، میرا تجربہ تھوڑا عجیب ہے۔ نہ مجھے اپنے دل کی بات کہنے کا یارا ہے، اور نہ ہی آپ میں اس کا تحمل ہوگا۔ ویسے بھی فتووں اور فتنوں کا زمانہ ہے اور میرے نزدیک اس وقت سب سے بڑا فرض اپنی جان، مال اور عزت کی حفاظت کرنا ہے۔

بزرگ اس بدتمیز نوجوان کی لیت و لعل سے تنگ آچکے تھے لیکن  تجسس اور غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔ چنانچہ بڑے تحمل سے نوجوان کو حوصلہ دیا اور کہا کہ خدا راست بازوں کے ساتھ اور کلمہ حق کہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ ایک مومن کبھی سچی بات کہنے سے نہیں ڈرتا چاہے وہ تلخ ہی کیوں نہ ہو۔ بالٓا ٓخر نوجوان گویا ہوا، لیکن حفظ ما تقدم کے طور پر کہا، حضور میری نیت کسی طور شعائر کے حوالے سے کسی گستاخی کی نہیں پھر بھی اگر میری بات بری لگے تو میں معافی چاہتا ہوں۔ بزرگ بولے کہو کہو، بے فکر ہو کر اپنے دل کی بات کہو، ہم اتنے چھوٹے دل کے نہیں کہ کسی کی ذہنی الجھنوں کو نہ سمجھ سکیں۔

تھوڑا اطمینان ہونے پر نوجوان نے بتایا کہ جب بھی وہ نماز روزے کی پابندی اختیار کرتا ہے، کچھ ہی دنوں میں اس پر دوسروں کی اصلاح کا جذبہ غالب ہونے لگتا ہے۔ اسے اپنے محلے دار، دوست احباب، بہن بھائی، ماں باپ سب گنہگار ، جاہل اور جہنم کے گڑھے پر کھڑے ہوئے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اس پر صرف خوف اور غصے کے جذبات غالب رہتے ہیں۔ جوں جوں اس کی نمازوں میں باقاعدگی آتی ہے، قیام میں رقعت اور سجدے میں حضوری محسوس ہونے لگتی ہے، امام اور نمازی اسے ستائش کی نظروں سے دیکھتے ہیں، توں توں دوسروں کو دین کی طرف بلانے کی اپنی ذمہ داری کا احساس شدت اختیار کرلیتا ہے۔ چونکہ اسے یہ برداشت نہیں کہ اس کے ہوتے کوئی جہنم میں چلا جائے، چنانچہ وہ صبح شام انہیں اپنے فرائض کی یاد دہانی کرانے میں لگ جاتا ہے، اور اس کام کے لیے، نصیحت، غصے، لالچ، دھونس، دھمکی سمیت تمام حربے اختیار کرتا ہے۔

لوگوں کی ہٹ دھرمی دیکھ کر، خشیت، خوف اور غصے کے ساتھ ساتھ وہ مایوسی کا شکار بھی ہو جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ اسے اپنے ساتھ نماز پڑھنے والوں کی نماز میں بھی خامیاں نظر آنے لگتی ہیں، ان کی جہالت اور منافقت پر اس کا دل مسلسل کڑھنے لگتا ہے۔ دوست احباب اس کی مسلسل نصیحتوں سے تنگ آجاتے ہیں، بہن بھائی اور ماں باپ اس کے طعنوں، غصے اور حقارت بھری نظروں سے خائف اور ناراض رہتے ہیں۔ رفتہ رفتہ اس کا دینی معیار اتنا بلند ہو جاتا ہے کہ خود اس کے لیے اپنے معیار پر پورا اترنا مشکل ہو جاتا ہے۔ آخر وہ نوجوان ہے اور انسان ہے، کبھی کبھی اس کی نظریں بھی پھسل جاتی ہیں، کبھی کبھی وہ بھی لالچ میں آجاتا ہے، حرص اور ہوس کا شکار ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کے بعد ہمیشہ وہ خوف سے اپنے رب کے حضور جھک جاتا ہے، جو توبہ قبول کرنے والا اور پردے رکھنے والا ہے۔

اپنے رب سے اتنے گہرے تعلق کے سبب البتہ  اس کی آنکھ میں اتنی گہرائی ضرور پیدا ہو جاتی ہے کہ اسے دوسروں کے عیب ایسے نظر آجاتے ہیں جیسے شیشے میں سانپ۔ اپنے زہد کی لاٹھی سے دوسروں کے گناہوں کے کیڑے ٹٹولتے ٹٹولتے اس کی آنکھوں میں ایسا خمار چھا جاتا ہے، جیسے حوروں کے پہلو میں بیٹھا شراب طہورا کے مزے اڑا رہا ہو۔ لیکن کبھی کبھی یہ لذت بھی اسے احساس گناہ میں ایسے لتھیڑ دیتی ہے کہ اس کے وجود سے بدبو کے بھبکے اٹھنے لگتے ہیں اور وہ اس پوری کائنات میں خود کو تنہا محسوس کرنے لگتا ہے جیسے کسی کوڑھی کو لوگ شہر سے باہر پھینک آئیں۔ نوجوان اپنی ہی باتوں میں اتنا محو تھا کہ اسے پتہ ہی نہ چل سکا کہ وہ بزرگ اس پر ایک نفرین ڈال کر کب کے وہاں سے جا چکے ہیں۔  

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...