قطر اور خلیجی ممالک کے درمیان حالیہ کشیدگی :خلیج تعاون کونسل میں دراڑیں؟

857

سعودی عرب،متحدہ عرب امارات، مصر اور بحرین کی جانب سے شدید ردعمل آیا اور ان ممالک نے قطر میں قائم الجزیرہ نیٹ ورک کے زیر انتظام چلنے والی متعدد ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے جس سے قطر کے دیگر عرب ریاستوں کے ساتھ تناؤ کی عکاسی ہوتی ہے۔

ایک طرف جب  امریکی صدر سعودی عرب کے حالیہ  دورے پر تھے اور الریاض کے عالمی اتحاد کے اجلاس میں  ایران   کے خلاف اتحاد اور شو آف پاور  کا مظاہرہ ہو رہا تھا  اسی دوران  قطر   کی سرکاری خبر رساں ایجنسی’’قنا‘‘کی جانب  سے  قطر کے امیر   شیخ تمیم بن حمد خلیفہ آل ثانی  سے   منسوب ایک ایسا بیان سامنے آیا  جس  سے خلیجی ممالک کے سیاسی منظر نامے پر بھونچال آگیا۔

بیان میں   مبینہ طور پر کہا گیا  کہ ایران خطے کی ایک قابل ذکر اسلامی  طاقت ہے اور اسے نظر انداز کر کے علاقائی مسائل حل نہیں کیے جا سکتے، ایران کے خلاف کشیدگی بڑھانا دانش مندی نہیں ۔

امیر قطر   نے امریکی صدر کے دورہ مشرق وسطیٰ کے موقع پر  کی گئی اپنی گفتگو میں   قطرکے خلاف لگائے جانے والے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا  کہ قطر کو دہشتگردی سے جوڑا جانا غلط ہے۔ امیر قطر کا کہنا تھا کہ فلسطینی قوم کی تحریک آزادی کو دہشت گردی کے ساتھ نہ جوڑا جائے بلکہ فلسطینیوں کو ان کے منصفانہ حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد جاری رکھنے کا حق دیا جائے۔ قطر، فلسطینی قوم کی حقیقی اور آئینی نمائندہ حماس اور اسرائیل کے درمیان منصفانہ امن پر اتفاق کے لیے تیار ہے۔ قطر دونوں فریقوں حماس اور اسرائیل کے ساتھ متوازن  اور اچھے تعلقات قائم رکھے ہوئے ہے۔ قطر کی لچک دار پالیسی میں کسی کے ساتھ دشمنی روا نہیں رکھی جاتی۔

امیر قطر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی نے قطر کی خبررساں ایجنسی( قنا) سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ داعش کے خلاف عالمی اتحاد میں شمولیت اور برادر عرب ممالک کے ساتھ دہشتگردی کے خلاف جدوجہد میں شرکت کے باوجود ہم پر دہشتگردی کی سرپرستی کا الزام لگایا جارہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کا باعث بننے والے بعض حکومتوں کے تصرفات ہی حقیقی خطرہ ہیں۔انہوں نے کسی ملک کا نام لیے بغیر  کہا کہ یہ حکومتیں اسلام سے منسوب انتہا پسندانہ افکار کی سرپرستی کررہی ہیں اور  یہ روا داری پر مبنی اسلامی فکرسے منحرف ہیں۔ یہ ایسی حکومتیں ہیں جنہوں نے مبنی بر انصاف ہر سرگرمی کو جرائم کے دائرے میں داخل کررکھا ہے۔الاخوان المسلمون کو دہشتگرد تنظیم قرار دینے یا حماس اور حزب اللہ کے مزاحمتی کردار کو مسترد کرنے والوں کو قطر پر دہشتگردی کی سرپرستی کے الزام کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ امیر قطرنے مصر، متحدہ عرب امارا ت اور بحرین سے قطر کی بابت اپنے موقف پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے اپیل کی کہ مصر ، امارات اور بحرین قطر کے خلاف الزامات کی مہم بند کریں۔ الزام تراشیوں سے مشترکہ مفادات اور باہمی تعلقات پر اچھا اثر نہیں پڑیگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ قطر کسی بھی ملک کے اندرونی امور میں اس کے باوجود مداخلت نہیں کرتا جبکہ وہ ملک اپنے عوام کو آزادی اور حقوق سے محروم کئے ہوئے ہو۔ امیر قطر نے کہا کہ امریکی حکومت کے غیر مثبت رجحانات کے باوجود امریکہ کے ساتھ قطر کے تعلقات مضبوط ہیں۔

قطر نے عرب اسلامی امریکی سربرا ہ کانفرنس کے انعقاد پر خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیزکیلئے قدرو منزلت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جذبات سے بالا ہوکر متوازن ، ٹھوس جدوجہد کی ضرورت ہے۔جذباتیت اورمعاملات کے غلط اندازے پورے علاقے کو خطرات کے بھنور میں پھنسا دینگے۔ قطر دہشتگردی اور انتہا پسندی کے خلاف ہے اور وہ فلسطینی عوام کی جائز نمائندہ تنظیم حماس اور اسرائیل کے درمیان مبنی بر انصاف امن بحال کرانے میں حصہ لینا چاہتا ہے۔ قطر کے فریقین سے مسلسل اچھے تعلقات ہیں۔ قطر بیک وقت امریکہ اور ایران کے ساتھ مضبوط تعلقات بنانے میں کامیاب رہا ہے۔ ایران علاقے اور اسلام کی باوزن طاقت ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایران کے ساتھ گرما گرمی فراست کے خلاف ہے۔ یہ بڑی طاقت ہے۔ تعاون کی صورت میں خطے کے استحکام کی بھی ضامن ہے۔ قطر پڑوسی ملکوں کے استحکام کی خاطر اسی پالیسی پر گامزن ہے۔

امیر قطر نے کہا کہ ہمیں اسلحہ کے بھاری بھرکم سودوں کے بجائے غربت کے خاتمے اورترقی پر توجہ دینا ہوگی۔ اسلحہ کے بھاری سودوں سے خطے میں کشیدگی بڑھے گی۔ اس سے کسی بھی ملک کو استحکام اور ترقی نصیب نہیں ہوگی۔ امیر قطر نے کہا کہ انکا ملک امن و استحکام کو متزلزل کرنے کی کوششوں یا اسکی روشن تصویر بگاڑنے والی حرکتوں کے باوجود عربوں کے منصفانہ مسائل کے حوالے سے اپنی غیر متزلزل پالیسی برقرار رکھے۔

اس بیان کے سامنے آنے کے بعد  سعودی عرب،متحدہ عرب امارات، مصر اور بحرین کی جانب سے شدید ردعمل آیا اور  ان ممالک نے قطر میں قائم الجزیرہ نیٹ ورک  کے زیر انتظام  چلنے والی متعدد ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے جس سے قطر کے دیگر عرب ریاستوں کے ساتھ تناؤ کی عکاسی ہوتی ہے۔

 قطر کی جانب  سے حالیہ واقعہ  اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے،بلکہ حالیہ  عرصہ  میں متعدد  ایسے واقعات سامنے آئے جن  کی وجہ  سے قطر کے بحرین ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات  (جو کہ  خلیج تعاون کونسل ( جی سی سی) کے رکن ممالک ہیں) کے ساتھ جاری کشیدگی میں اضافہ ہواہے۔

ان میں ایران ، حماس ، حزب اللہ ، اسرائیل کے بارے میں تبصراتی بیانات ،عراق میں قطر اور ایران کا مبینہ اجلاس ، دوحہ کا امارات پر مخالفانہ میڈیا مہم برپا کرنے کا الزام ، امیر قطر شیخ تمیم کی ایرانی صدر حسن روحانی سے فون پر گفتگو وغیرہ شامل ہیں۔خلیج تعاون کونسل کے  دو رکن ممالک کویت اور عمان  نے ہمیشہ کی طرح مصالحانہ کردار ادا کرنے کی کوشش کی۔ ان دونوں ممالک نے 2014ء میں بھی جی سی سی کے رکن ممالک میں سفارتی کشیدگی ختم کرانے میں مصالحانہ کردار ادا کیا تھا۔ اسی تناظر میں رواں ہفتےکویت کے وزیر خارجہ شیخ صباح الخالد الصباح نے دوحہ کا دورہ کیا  جس  کا مقصد جی سی سی میں جاری اندرونی کشیدگی کو مزید شدت اختیار کرنے سے روکنا تھا۔اس سے ایک دن قبل  قطر کے وزیر معیشت اور اومان کے نائب وزیر اعظم برائے وزارتی کونسل نے مسقط میں ملاقات کی تھی تاہم اس دفعہ یہ ممالک  تاحال کشیدگی میں کوئی کمی نہیں کروا سکے ہیں۔قطر سے ناراض  خلیجی ممالک کا کہنا ہے کہ قطر جب تک  انتہاپسند اسلامی گروپوں کی حمایت اور ایران کے ساتھ تعلقات محدود نہیں کرتا  اس وقت تک ہمارا اکٹھے بیٹھنا ناممکن ہے۔

 کویت ، قطر اور اومان  کے  شیعہ کمیونٹی کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں ،یہی وجہ ہے کہ  ن کبھی ان تینوں ملکوں میں آباد اہل تشیع  کو اپنی حکومتوں سے کوئی شکایت  ہوئی  ہے اور نہ ہی ان ممالک کو ایرانی انقلاب کے برآمد ہونے کا خظرہ لاحق ہوا ہے۔

قطر نے کہا ہے کہ اس کی خارجہ پالیسی ہمیشہ غیرجانبدار رہی ہے اس لیے وہ کسی ایک ملک کی خاطر دوسرے ملک سے اپنے تعلقات خراب نہیں کرے گا۔ان  ممالک کے درمیان تعلقات  میں ایک اہم قدر مشترک گیس کے وسیع  ذخائر ہیں۔قطر اور ایران  میں گیس کے ذخائر سب سے زیادہ ہیں،اور گذشتہ برس کویت نے ایران کے ساتھ گیس  کے ایک معاہدے کے لیے مذاکرات کیے  تھے جو نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے،ادھر عمان بھی  ایران سے گیس درآمد کرنا چاہتا ہے۔

یہ بات عیاں ہے کہ ایران   خطے میں اپنے پاؤں جما رہا ہے اور اب تک چار عرب   دارلحکومتوں پر اپنی حکومت کا دعویدار ہے ایسے میں خلیج تعاون کونسل میں دراڑیں پیدا ہو جانا جوکہ بنی ہی ایرانی انقلاب کے بعد تھی عرب ریاستوں کی ناکامی ہے۔سعودی عرب،یو اے ای اور بحرین   کو یہ بھی سوچنا ہو گا کہ ان کی جانب سے قطر کے بائیکاٹ  سے  فائدہ  ایران کو پہنچے گا یا خلیجی ممالک کو؟ 

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...