نوازشریف کے پیغام بر
حیرت کی بات ہے کہ نواز شریف نے ماضی میں جن تین پیغام بروں کو استعمال کیا وہ تینوں سینیٹرز تھے اور تینوں کو کوئی حلقہ نہیں تھا ۔اس لئے انہیں ڈکٹیٹ کرنا اور ان سے مرضی کے بیانات دلوانا آسان تھا
نہال ہاشمی کی تقریر سنی تو مجھے رنجیت سنگھ یاد آ گئے
وہ رنجیت سنگھ جس کی دہشت سے مائیں اپنے بچوں کو ڈراتی تھیں پنجاب کا یہ جٹ حکمران صرف اپنی وحشت ناکیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی شاطری کی وجہ سے بھی مشہور تھا۔ایک روز وہ دربار لگائے بیٹھا تھا کہ لاہور کا ایک مالدار تاجر شفیع محمد دربار میں حاضر ہوکر گویا ہوا : حضور فلاں شخص میری اتنی رقم کھا گیا ہے جب بھی واپسی کا تقاضا کرتا ہوں پہلے تاریخیں دیتا تھا مگر اب تو بالکل ہی مکر گیا ہے اگر آپ اسے پیغام بھیجیں تو مجھے رقم مل سکتی ہے ۔ رنجیت سنگھ خاموش رہا اور کہا کہ کچھ کریں گے مگر بتایا نہیں کہ کیا کریں گے ۔دوسرے روز رنجیت سنگھ اپنی بگھی پر شفیع محمد کے محلے میں پہنچ گئے ۔لوگوں نے رنجیت سنگھ کو دیکھا تو اکھٹے ہو گئے ۔رنجیت سنگھ نے کہا کہ شفیع محمد کو بلاؤ ۔ شفیع محمد حاضر ہوئے ۔رنجیت سنگھ انہیں ایک طرف لے گئے پانچ دس منٹ گفتگو کی اور شفیع محمد کو کہا کہ اب وہ چلے جائیں ۔ جیسے ہی شفیع محمد تھوڑی دور گئے رنجیت سنگھ نے پیچھے سے آواز لگائی ’’او شفیع محمدا کوئی کم اے تے دسیں ‘‘ یعنی اگر کوئی کام ہوا تو بتانا۔ اگلے روز شفیع محمد دربار میں حاضر ہوا اور رنجیت سنگھ کا شکر بجا لایا ۔اس نے کہا کہ جیسے ہی آپ گئے پوار امحلہ میرے گھر آ گیا کہ آپ نے تو کبھی بتایا ہی نہیں کہ آپ کے تعلقات راجہ سے ہیں ۔جو بندہ میرے پیسے دینے سے انکاری تھا وہ بھی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ میرے گھر آیا پیسے لوٹائے اور تاخیر کی معذرت بھی کی ۔
رنجیت سنگھ جہاندیدہ حکمران تھا جہاں طاقت استعمال کرنی ہوتی طاقت دکھاتا جہاں رعب داب سے کام چل سکتا وہاں کام چلاتا اور جہاں شاطری کی ضرورت ہوتی وہاں بھی اس کا مقابل کوئی نہیں تھا ۔وہ اشوک ِ اعظم کے بعد دوسرا حکمران تھا جو ہندوستان کی سرحدوں سے باہر افغانستان تک گیا۔اشوک کی سلطنت ترکی کے درہ دانیال تک پھیلی ہوئی تھی ۔
نواز شریف اور رنجیت سنگھ میں کوئی مماثلت تو نہیں ہے مگر حکمرانوں کی کچھ خوبیاں یقیناً یکساں ہوتی ہیں ۔نواز شریف بھی پیغام رسانی میں بہت تاک ہیں ۔اکثر اوقات ان کی پیغام رسانی تیر سے زیادہ کارگر ہوتی ہے ۔ جب ان کے خلاف پانامہ کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھا تو انہوں نےقریب المرگ 80سالہ جسٹس سعید الزماں صدیقی کو گورنر سندھ تعینات کر دیا جس کا مقصد باقی ججو ں کو پیغام دینا تھا کہ ہم اپنوں کا کس قدر خیال رکھتے ہیں ۔سعید الزماں گورنر ہاؤس میں کم اور ہسپتال میں زیادہ رہے اور پھر تقریباً دو ماہ بعد ہی انتقال کر گئے ۔سعید الزماں صدیقی کے بعد پھر پیغام دیا گیا اور اس بار یہ پیغام پی ٹی آئی والوں کے لئے بالعموم اور اسد عمر کے لئے بالخصوص تھا ۔جن کے بھائی زبیر عمر کو گورنر لگا دیا گیا ۔یعنی جو ہمارا ساتھ دیتا ہے ا س کی قدر کس طرح کی جاتی ہے ۔
اس طرح کی اور بھی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں ۔ جب نواز شریف نے فوج کو پیغام دینا تھا تو اپنی کابینہ کے وفاقی وزیر ماحولیات سینیٹر مشاہد اللہ سے کام لیا اور بی بی سی سے ان اایک متنازعہ انٹرویو کرایا جس میں مشاہد اللہ نے کہا کہ اسلام آباد میں تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں کے دوران پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام عباسی نے ایک سازش تیار کی تھی جس کے ذریعے وہ فوجی اور سول قیادت کو ہٹا کر ملک پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ 28 اگست کی شام وزیر اعظم نواز شریف نے اس وقت کے بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے ملاقات کے دوران ایک آڈیو ٹیپ انھیں سنائی۔جنرل راحیل شریف یہ ٹیپ سن کر حیران رہ گئے۔ انھوں نے اسی وقت جنرل ظہیر الاسلام عباسی کو اسی میٹنگ میں وزیر اعظم کے سامنے طلب کر کے وہی ٹیپ دوبارہ چلوائی اور ان سے پوچھا کہ کیا یہ آواز آپ ہی کی ہے اور جنرل عباسی کی جانب سے اس تصدیق کے بعد کہ یہ آواز انہی کی ہے، جنرل راحیل نے جنرل عباسی کو میٹنگ سے چلے جانے کو کہا۔مشاہد اللہ کے بقول اس وقت جو سازش تیار کی جا رہی تھی اس کا نشانہ صرف سول حکومت یا وزیراعظم نواز شریف نہیں تھے بلکہ یہ سازش بری فوج کے سربراہ کے خلاف بھی تھی ۔اس سازش کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ وزیراعظم نواز شریف اور جنرل راحیل شریف کے درمیان اتنی خلیج اور اختلافات پیدا کر دیے جائیں کہ نواز شریف کو مجبور کر دیا جائے کہ وہ جنرل راحیل کے خلاف کوئی ایکشن لیں اور جب وہ ایکشن لیں تو اس وقت کچھ لوگ حرکت میں آئیں اور اقتدار پر قابض ہو جائیں۔جب یہ انٹرویو سامنے آیا تو نواز شریف نے مشاہد اللہ سے استعفی ٰ لے لیا ۔لیکن جن کو پیغام بھجوانا تھا ان تک پہنچ چکا تھا۔
اس کے بعد ڈان لیکس کا معاملہ آیا ۔انتہائی سیکریٹ ملاقات کے مندرجات اخباروں کی زینت بنے ۔اس پر تحقیقات سے پہلے اس وقت کے وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید سے استعفی لیا گیا بعد ازاں تحقیقات کے بعد اس کی زد میں وزیر اعظم کے مشیر امور خارجہ طارق فاطمی بھی آئے ۔ان سے بھی استعفی ٰ لے لیا گیا ۔
اب کی بار پیغام بر تھے نہال ہاشمی ، اور معاملہ تھا جوائینٹ انوسٹی گیشن ٹیم کا، جس پر پہلے حسین نواز معترض تھے لیکن جب ان کے اعتراض کو در خور ِ اعتنا نہیں سمجھا گیا تو پیغام بھجونا ضروری گردانا گیا ۔ پیغام بہت کھڑک سے پہنچا ۔ اور جب مقصد پورا ہو گیا تو نہال ہاشمی سے بھی استعفی لے لیا گیا ۔ یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ نواز شریف نے ماضی میں جن تین پیغام بروں کو استعمال کیا وہ تینوں سینیٹرز تھے اور تینوں کو کوئی حلقہ نہیں تھا ۔اس لئے انہیں ڈکٹیٹ کرنا اور ان سے مرضی کے بیانات دلوانا آسان تھا ۔شاید ان کے مقابلے میں کوئی سیاستدان ایسا کرتے وقت بہت کچھ سوچتا ۔
نہال ہاشمی اپنے بیان پر پیشیاں بھگت رہے ہیں ۔لیکن جہاں پیغام پہنچانا تھا پہنچ چکا ہے ۔ مینجمنٹ شروع ہے ۔چند روز پہلے راولپنڈی کے ایک گدی نشین کا بیٹا سپریم کورٹ کے جج کو موٹر وے پر دھمکاتا رہا ۔اس پر فوری طور پر مقدمہ درج ہوا انسداد دہشت گردی سمیت بیس دفعات لگیں اور عدالت نے بیس روز کا جسمانی ریمانڈ بھی دے دیا مگر تیسرے ہی روز سپریم کورٹ کے جج نے گدی نشین کے بیٹے کو معاف کردیا ۔ پاکستان میں مینجمنٹ تو ایک گدی نشین بھی کر سکتا ہے نواز شریف تو پھر وزیر اعظم ہیں۔وہ ’’شفیع محمد ‘‘کی تشفیع کرانے کی بھر پورطاقت رکھتے ہیں اور یہاں تو معاملہ ان کی اپنی ذات کا ہے ۔
فیس بک پر تبصرے