سوشل میڈیا کا کریک ڈاون ،یکطرفہ کیوں ؟
ایف ۔ آئی ۔ اے اب تک 50 کے قریب افراد کو سوشل میڈیا پر ریاست مخالف بیانات ، توہین آمیز کلمات اور پوسٹ لگانے پر اپنے پاس بلا کر ان سے سوال و جواب کر چکی ہے ۔ ایف ۔ آئی ۔ اے نے ان افراد کے لیپ ٹاپس اور اسمارٹ فونز کا مکمل فرانزک جائزہ لیا اور سوشل میڈیا پر متحرک رہنے والے ان افراد سے کہا کہ انہوں نے اب تک جو ریاستی اداروں کے مخالف بیانات سوشل میڈیا پر لکھے ہیں ان کا جواز پیش کریں ۔
ایف ۔ آئی ۔ اے اب تک 50 کے قریب افراد کو سوشل میڈیا پر ریاست مخالف بیانات ، توہین آمیز کلمات اور پوسٹ لگانے پر اپنے پاس بلا کر ان سے سوال و جواب کر چکی ہے ۔ ایف ۔ آئی ۔ اے نے ان افراد کے لیپ ٹاپس اور اسمارٹ فونز کا مکمل فرانزک جائزہ لیا اور سوشل میڈیا پر متحرک رہنے والے ان افراد سے کہا کہ انہوں نے اب تک جو ریاستی اداروں کے مخالف بیانات سوشل میڈیا پر لکھے ہیں ان کا جواز پیش کریں ۔ چند افراد نے ایف ۔ آئی ۔ اے کو مطئمن کیا جبکہ کچھ افراد اب تک ایف ۔ آئی ۔ اے کی حراست میں ہیں ۔ ان افراد میں زیادہ تر تعداد سیاسی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے کارکنوں کی ہے جبکہ صحافیوں یا پھر کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے وہ افراد جو سوشل میڈیا پر متحرک ہیں وہ بھی ان میں شامل ہیں ۔ ایف ۔ آئی ۔ اے ان افراد کے خلاف کریک ڈاون جاری رکھے ہوئے ہے ۔ اب تک 2 سو افراد کی فہرست تیار کی گئی ہے جبکہ 9 سو کے قریب کیسز رجسٹرڈ کئے گئے ہیں ۔ سوشل میڈیا کو لگام دینے کا فیصلہ سوشل میڈیا پر توہین مذہب کے بڑھتے ہوئے واقعات پر مذہبی تنظمیوں کی جانب سے ہونے والے مطالبات کے بعد کیا گیا تھا ۔ کسی حد تک یہ درست فیصلہ ہے کیونکہ زیادہ تر افراد نے سوشل میڈیا پر کسی کا جعلی اکاونٹ بنا کر اس کے نام کے ساتھ توہین آمیز مواد ذاتی عناد میں شئیر کئے ، ایسے واقعات روز بروز بڑھ رہے ہیں ایسے میں ضروری تھا کہ جعلی اکاونٹ بنا کر کسی کی زندگی کو نقصان پہنچانے والے عناصر تک بھی پہنچا جائے ۔ چاہے مذہبی تنظمیں اس مؤقف پر واضح نہ ہیں اور وہ بلا امتیاز کارروائی کا مطالبہ کر رہی ہیں ۔
مردان میں مشال خان کو قتل کروانے کے واقعہ میں بھی اس کے جعلی اکاونٹ سے توہین آمیز مواد شئیر کیا گیا ۔ اس اکاونٹ نے اس کے قاتلوں کی تعداد بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ، لوگ بضد تھے کہ مشال توہین کا مرتکب ہے بعد میں پتہ چلا کہ اس کی موت کے بعد بھی وہ اکاونٹ اپ ڈیٹ ہوتا رہا ، چند ماہ قبل ملتان سے بھی ریسکیو 1122 کے ایک اہلکار کو اسلام آباد کی ایف ۔ آئی ۔ اے ٹیم نے آ کر حراست میں لیا تھا ، حراست میں لئے جانے والے شخص پر الزام تھا کہ اس نے کسی جج کو فیس بک پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور جج کی تصاویر کے مزاحیہ خاکے فیس بک پر شئیر کئے تھے جس پر یہ کارروائی کی گئی ۔ ایسی ہی کارروائیاں اب بھی جاری ہیں ۔ وہ افراد جو اپنی جانب سے لگائے جانے والی پوسٹ پر ایف ۔ آئی ۔ اے کو مطمن نہیں کر پائیں گے انہیں جرمانے ، اور 2 سے 6 سال تک قید کی سزائیں دی جا سکتی ہیں جبکہ مذہب کی توہین پر سزا سنگین ہے ۔ جمہوریت کی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکن ایک دوسرے پر تنقید کریں اور اپنے لیڈر سے محبت کا اظہار کریں ۔ پہلے یہ مقابلہ نعرے کی صورت میں آمنے سامنے ہوا کرتا تھا اب سوشل میڈیا وہ میدان ہے جہاں مخالف سیاسی کارکن ایک دوسرے سے گھتم گھتا رہتے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر سیاست کی بحث بازی کا آغاز پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں نے کیا اور پھر پاکستان مسلم لیگ نواز نے بھی جوابی حملوں کے لئے اس پلیٹ فارم کا انتخاب کیا ۔ جذباتی سیاسی کارکن جوشیلا انداز محبت اپناتے تو ہیں لیکن بدلے میں انہیں اکثر تنہائی ملتی ہے ۔ حال ہی میں اس کی مثال ڈاکٹر فیصل رانجھا ہیں جو مریم نواز کا پیج چلاتے ہیں جب ایف ۔ آئی ۔ اے نے ان سے تحقیقات کیں تو پارٹی کی جانب سے کسی نے ڈاکٹر فیصل کا ساتھ نہیں دیا ۔
عدلیہ کو عوام تک لانے والے پاکستان کے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ہی تھے جن کی بحالی کی جنگ وکلاء کے ساتھ عوام نے بھی لڑی ۔ عدلیہ بحالی تحریک چلی تو مختلف چینلز کی اسکرینوں پر سپریم کورٹ کی خبروں کے علاوہ کچھ آن ائیر ہوتا ہی نہیں تھا ، افتخار محمد چودھری بحال ہوئے تو ان کے سوموٹو ایکشن اور ہر فیصلہ سنانے کی اپ ڈیٹ ٹی ۔ وی پر آنے کے ساتھ سوشل میڈیا پر تعریف کی صورت میں آتی ۔ مدت ملازمت پوری ہونے پر پھر وہی سوشل میڈیا ان کے خلاف بھی استعمال کیا گیا ۔ لندن میں ائیر پورٹ پر اپنے بیٹے ارسلان افتخار کے ساتھ وی ۔ آئی ۔ پی پروٹوکول حاصل کرنے کی کوشش ، اور نہ ملنے پر شرمندگی والی ویڈیو بھی اسی سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر دیکھی گئی ۔
پاکستانیوکو اگر اس ملک میں کسی ادارے سے دل سے محبت ہے تو وہ افواج پاکستان ہیں ، حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں عوام کی جانب سے یہ محبت اور اعتماد کھبی کم ہوتا نہیں دیکھا گیا ۔ ہم سب سمجھتے ہیں کہ ہر مشکل کی دوا انہی کے پاس ہے ۔ اچانک اس ادارے کو بھی تنقید کا نشانہ بنائے جانے لگا ہے جو کہ تشیویشناک بات ہے لیکن معاملہ یہاں بھی وہی ہے ۔ ملک کے 15ویں آرمی چیف کی جانب سے عوام کی محبت سمیٹنے کے لئے بے شمار فیس بک پیجز بنے جن کے لائکس اور مداحوں کی تعداد لاکھوں سے بھی زیادہ تھی اور انٹر سروس پبلک ریلشنز کی جانب سے جاری کردہ ہر خبر ٹوئیٹ کی صورت میں آنا شروع ہوئی ۔ سوشل میڈیا تک آسان رسائی اور کس ادارے کا تقدس کتنا ہے نہ جانتے ہوئے ہر کسی نے اپنی رائے کا اظہار دینا ضروری سمجھا ، یہاں تک کہ پاکستان تحریک انصاف جیسی سیاسی جماعت جو ہمشیہ اس الزام کی زد میں رہی ہے کہ اسے پاک فوج کی حمایت حاصل ہے ۔ ان کے کارکنوں پر بھی پاک فوج کی تضحیک کرنے جیسے الزامات عائد ہو چکے ہیں ۔ وہ ادارے جن پر تنقید غداری کے زمرے میں آئے گی اور اسے ریاستی اداروں پر حملہ قرار دیا جائے گا ان کی جڑ تک پہنچا جائے تو پتہ چلتا ہے معاملہ پھسلا اپنے ہاتھ سے ہی ہے ورنہ کریک ڈاون کی نوبت نہ آتی ۔ وزیرداخلہ کے سوشل میڈیا پر جاری کریک ڈاون جیسے احکامات کو آزادی اظہار رائے پر پابندی سمجھا جا رہا ہے ۔ تاہم چودھری نثار کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے ، چودھری نثارعام افراد کے بولنے پر اگر پابندی لگانا چاہتے ہیں تو لگا دیں لیکن یہ کارروائیاں یک طرفہ ہوں گی تو بے سود رہیں گی ۔ ان تمام اداروں کو بھی سوشل میڈیا پر اپنی تشہری مہم چلانے کے لئے بنائے جانے والے پیجز کو بھی بین کیا جائے ۔ احتساب برابری کی سطح پر ہو گا تو پائیدار ہو گا ۔ آپ سمجھتے ہیں کہ عدلیہ اور افواج پاکستان پر تنقید برداشت نہیں کی جائے گی کیونکہ ایسی تنقید ان اداروں کو کمزور کر رہی ہے تو دہشت گردی بھی ہماریں جڑیں کاٹ رہی ہے اگر آپ صحیح معنوں میں 16 دسمبر 2014ء سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد بنائے جانے والے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کرنا چاہتے ہیں تو سوشل میڈیا کے سو سے زائد وہ پیجز بھی بین کروائیں جو تحریک طالبان پاکستان ، جماعت الحرار ، سمیت دہشت گرد تنظیمیں چلا کر اپنا منشور ہمیں بتا رہی ہیں ۔ ان کے ایڈمن تک پہنچنا بھی آپ کے لئے مشکل نہیں ہے ۔ یہاں تک کے احسان اللہ احسان کے پیجز بھی اب تک اپ ڈیٹ ہو رہے ہیں ۔ ایف ۔ آئی ۔ اے نے جو فہرستیں تیار کیں ہیں اس میں ان کا نام بھی شامل کریں ورنہ ایسے عناصر کی پشت پناہی کرنے پر تاریخ میں آپ کا کردار بھی سابق آمر ضیا الحق سے مختلف نہیں ہو گا ۔
فیس بک پر تبصرے