پاکستان میں اقلیتی برادری کی حالت زار اور چند سوالات
حالیہ امریکی حکومت نے پاکستان کو ایسے ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے جہاں مذہبی آزادیاں اور اقلیتی برادریاں دونوں ہی بدحالی کا شکار ہیں ۔ امریکی دفتر خارجہ اوردیگر حقوق انسانی کی تنظیموں کی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں اقلیتی برادریاں گزشتہ دو دہائیوں سے شدید تکلیف کا شکار ہیں ۔ ملک میں اسی کی دہائی سے رائج ایسے قوانین جن کی پاداش سزائے موت ہے، نے نہ صرف اقلیتی برادریوں کی بڑی تعداد کو نشانہ بنایا ہے بلکہ اس کے تحت سینکڑوں مسلمان بھی اپنی جان کے تحفظ کو داؤ پہ لگا چکے ہیں۔مختلف حقوق انسانی کی تنظیموں کی جانب سے اور حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والے افراد کی جانب سے یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ پاکستان میں مذہبی احترام کے قوانین ذاتی یا خاندانی و مالی دشمنیوں کے پیش نظر استعمال ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اکثر ایسے افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جو بظاہر مذہبی توہین کے مرتکب نہیں ہوتے۔کوٹ رادھا کشن میں سال 2014 میں بھٹہ مزدور میاں بیوی کو اس الزام پرزندہ جلا دیا گیا کہ انہوں نے قرآن کریم کی توہین کی ہے۔ تحقیقات کے بعد یہ الزام جھوٹا ثابت ہوا، حقیقت یہ تھی کہ بھٹہ مالک اور اس مزدور خاندان کے درمیان تنخواہ کا تنازعہ تھا۔اسی طرح کا ایک واقعہ اسلام آباد کے نواحی علاقے میں پیش آیا جہاں رمشہ مسیح نام کی ایک ڈاؤن سنڈروم سے متاثرہ بچی پر توہین قرآن کا الزام لگایا گیا۔ یہاں بھی تحقیقات کے بعد یہ الزام جھوٹا ثابت ہوا۔ محض الزام کے پیش نظر رمشہ اور اس کے خاندان کو پاکستان چھوڑ کے جانا پڑا۔
اگرچہ پاکستان میں مذہبی توہین کے قوانین سے متاثرہ افراد صرف اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد ہی نہیں ہیں ،مسلم اکثریتی طبقے کے افراد بھی اس الزام میں قید بھگت رہے ہیں ۔تاہم اگر ملک کی پچانوے فیصد مسلم آبادی اور پانچ فیصد کے لگ بھگ غیر مسلم آبادی کے درمیان آبادی کے تفاوت کی بنیاد پر فی صد حساب لگایا جائے تو غیر مسلم آبادی کا وہ حصہ جو ایسے قوانین کی زد میں آیا ان کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔رپورٹس بتاتی ہیں کہ مسلم اور احمدی افراد جن پر توہین مذہب کے الزامات لگے، تعداد میں برابر ہیں ۔ مسیحی اس کے بعد آتے ہیں ۔ جبکہ ایسے الزام کے پیش نظر قتل کیے گئے افراد میں مسیحی برادری کے مقتولین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
ان مقتولین میں سب سے مشہور بااثر اور فعال نام شہباز بھٹی کا ہے۔ جنہیں جب دارلحکومت اسلام آباد میں گستاخی کے الزام پر ملک کو درپیش سب سے بڑی مذہبی دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے قتل کیا تو وہ وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور تھے۔ ان کی موت پر ملک بھر میں عام طور پر جبکہ ملک کی قانون ساز اسمبلی میں خاص طور پر مذمت کی گئی۔ حیران کن امر یہ ہے کہ ان کے قتل پر مذمتی قراداد کی حمایت اور ان کے احترام میں دو منٹ کی خاموشی کی۔جبکہ اس کی مخالفت صرف ملک کی بااثر مذہبی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی نے کی ۔مقتول شہباز بھٹی نے اپنے قتل سے پیش تر سلمان تاثیر کو ان کی بےباک زبان کے سبب خراج تحسین پیش کیا تھا اور ان کے قتل کے بعد بھی پاکستان میں ایسے قوانین میں ترمیم کروانے کی جدوجہد جاری رکھنے کا اظہار کیا تھا جو کہ ملک میں مذہبی توہین کے معاملات سے متعلق ہیں۔ ان دونوں مقتولین نے صوبہ پنجاب کے شہر ننکانہ سے تعلق رکھنے والی ایک مسیحی عورت آسیہ مسیح کی رہائی کی تحریک چلائی تھی جو پاکستان میں پہلی عورت ہے جسے توہین مذہب کے الزام پر موت کی سزا سنائی گئی ہے۔واضح رہے کہ آسیہ مسیح اپنے آپ پر عائد اس الزام کو جھوٹا کہتی ہے کہ اس نے پیغمبر اسلامﷺ کی شان میں توہین کی ہے ۔مقتول شہباز بھٹی کا قتل پاکستان میں پیپلز پارٹی حکومت کے سابقہ دور میں چھیڑی گئی اس بحث کا عملی خاتمہ تھا جس میں یہ کہا جا رہا تھا کہ فوجی آمر ضیاء الحق کے بنائے گئے توہین مذہب کے قوانین کی ایسی ترمیم کی جائے کہ اسے کسی معصوم کے خلاف استعمال کرنا ممکن نہ ہو۔
شہباز بھٹی کی موت سے نہ صرف سیاسی طور پر بااثر ارکان اسمبلی نے اس موضوع پر خاموشی اختیار کرلی بلکہ ملک میں مسیحی برادری کی مذہبی تنظیموں نے بھی چپ سادھ لی اور یہ موضوع نہ صرف ملک میں مسیحی برادری پر ہونے والے المناک بم دھماکوں ، ان کے مذہبی مراکز پر حملوں کے دوران پس پشت رہا بلکہ مذہبی توہین پر گرفتار ہونے والے مسیحی افراد کے متعلق بھی کبھی کوئی مکالمہ ملک کے روزمرہ مباحثے میں شامل نہیں ہوا۔ یہاں چند سوالات جنم لیتے ہیں جن کے جوابات کی تلاش میری اس تحریر کا موضوع ہے۔کیا ملک میں ایسا کوئی مسیحی رہنما موجود نہیں رہا جو توہین مذہب کے الزام میں گرفتار مسیحی افرادکے لیے قانونی معاونت کی کوئی آواز اٹھا سکتا ہو جو صحت جرم سے انکار کرتے ہوں ؟ ایسے بے گناہ مسیحی افراد جنہیں توہین مذہب کے الزام پر ماورائے عدالت قتل کردیا گیا ہے، ان کے لواحقین کو انصاف دلوانے کے لئے کیا سماجی یا سیاسی سطح پرکوئی مسیحی فورم موجود ہے جہاں یہ افراد دادرسی کے لئے جا سکیں ؟مقتول شہباز بھٹی نے اپنے قتل سے پہلے ملک میں توہین مذہب کے قوانین میں ترامیم کی جو تحریک شروع کی تھی ان کے قتل کے بعد ان ترامیم کا کیا ہوا ؟
یہ اور اس طرح کے دیگر سوالات ملک میں موجود اقلیتی برادری کی سماجی حالت پر شائع ہونے والے عالمی اور مقامی حقوق انسانی کے اداروں کی رپورٹس کے مطالعے کے بعد میرے ذہن میں ابھرے ہیں ۔ ان سوالات کا جواب دیناان سب دوستوں کی ذمہ داری ہے جو اپنے آپ کو اقلیتوں کا مسیحا بناکرپیش کرتے ہیں۔
فیس بک پر تبصرے