خیبر پختونخوا حکومت سالانہ ڈویلپمنٹ فنڈز کو استعمال کرنے میں پھرناکام
تحریک انصاف کی حکومت نے ایک سوساٹھ ارب سے زیادہ بجٹ منظور کیاتھا۔ جس میں دستیاب دستاویزات کے مطابق اب تک صوبائی حکومت نے صرف 74ارب استعمال کیا ہے جو ٹوٹل بجٹ کا صرف 46 فی صد بنتا ہے
بجٹ کب پیش کیاجارہا ہے، اس سے ہمیں کیا ملے گا اور اس میں تنخواہیں کتنی بڑھیں گی اور عوام کو کیا کیاسہولیات دی جائیں گی، یہ بحث خیبر پختونخوا کے ہر دفتر ، کالج، یونیورسٹی ، ہسپتال اور بازاروں میں تو گرم ہے مگر گیند ابھی تک حکومت کے کورٹ میں ہے کہ آیا یہ بجٹ بھی پچھلے بجٹ کی طرح صر ف الفاظ ، دعووں اوروعدوں پر مشتمل ہو گا یا واقعی تبدیلی کے نام پر بننے والی حکومت عوام سے اپنے وعدے پورے کر پائے گی۔
کہا جاتاہے وقت کسی کا انتظار نہیں کرتااور پچھلے سال کی طرح ایک مرتبہ پھرمالی سال کا وہی مہینہ نہ صرف قریب ہی ہے بلکہ عین سر پر آ گیا ہے جس کا ہر کسی کو انتظار ہوتاہے۔
جون جو کہ نہ صر ف گرمی کی وجہ سے صوبہ کے بیشتر ضلعوں میں شہرت رکھتاہے بلکہ بجٹ کا کردار بھی اس کی انفرادیت میں اضافہ کرتا ہے ۔
جون کے پہلے ہفتے میں حکومت اگلے مالی سال2017-18 کا بجٹ پیش کرنے والی ہے اور یہ وقت ہی بتائے گا کہ آیا واقعی یہ عوام دوست ہے یا صوبہ کے عوام کے لئے مہنگائی کا بم ثابت ہوتا ہے ، اگر ہم موجودہ مالی سال کے بجٹ کا جائزہ لیں جو اکتیس جون کو ختم ہو جائے گاتوہمیں پی ٹی آئی حکومت کی بے حسی، نالائقی، نااہلی سامنے نظر آتی ہیں۔ ماضی کی طرح خیبر پختونخواہ حکومت نے اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے اس دفعہ بھی سالانہ ڈویلپمنٹ فنڈز کو مکمل استعمال کرنے میں ناکام رہی۔ موجودہ مالی سال ختم ہو نے میں ایک مہینہ باقی ہیں لیکن اب بھی بجٹ کا 54 فیصد حصہ استعمال ہی نہیں ہوا۔
2016-17 مالیاتی سال کیلئے تحریک انصاف کی حکومت نے ایک سوساٹھ ارب سے زیادہ بجٹ منظور کیاتھا۔ جس میں دستیاب دستاویزات کے مطابق اب تک صوبائی حکومت نے صرف 74ارب استعمال کیا ہے جو ٹوٹل بجٹ کا صرف 46 فی صد بنتا ہے۔
سولہ محکموں نے بیس فیصد سے کم اپنا سالانہ ڈویلپمنٹ فنڈز استعمال کیا جبکہ صرف پانچ محکمے ایسے ہیں جنھوں نے پچاس فیصد سے زیادہ بجٹ ابھی تک استعمال کیا ہے۔ دستاویزات کے مطابق تبدیلی کی دعویدارحکومت نے ٹرانسپورٹ، لیبراور توانائی جو اس وقت سب سے توجہ طلب شعبہ ہے میں سب سے کم فنڈز کا استعمال کیا ہے۔ ٹرانسپورٹ کیلئے منظور شدہ چھ ارب میں سے صرف چھ ملین روپے استعمال کئے گئے ہیں جو صرف صفر اعشاریہ دس فیصدبنتے ہیں۔ اسی طرح لیبر محکمے کیلئے 125 ملین مختص کئے گئے تھے جس میں صرف چار لاکھ خرچ کئے گئے۔ ملک میں موجودہ توانائی بحران کو اگر دیکھا جائے تو یہ بات ذہین میں آتی ہے کہ ہر صوبہ اس مسئلے کوہنگامی بنیادوں پرتوجہ دے رہا ہے اس شعبہ میں بھی صرف صفر اعشاریہ انہترفی صد استعمال کیا گیا۔
اسی طرح باقی ادارے بھی اپنی بجٹ استعمال کرنے میں ناکام رہے ہیں، انفارمیشن نے 3 فیصد، اوقاف، مذہبی اور اقلیتی محکمے نے 4 فیصد، ایگریکلچر سات اعشاریہ پانچ فیصد، مائنز اور منرلز دس اعشاریہ سات، ملٹی سیکٹر ڈویلپمنٹ گیارہ اعشاریہ نو، پاپولیشن ویلفیئر تیرااعشاریہ چار، سوشل ویلفیئر چودہ اعشاریہ اٹھ اور سپورٹس اینڈ سیاحت نے پندرہ فیصد بجٹ استعمال کیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ صوبائی حکومت نے سب سے زیادہ بجٹ کا استعمال سڑکوں کی مد میں کیا ہے۔ جس کیلئے عمران خان نوازشریف کی حکومت کو مسلسل تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہے۔ دستاویزات کے مطابق حکومت نے سڑکوں کی تعمیر کیلئے چودہ ارب روپے محتص کیے تھے۔ تا ہم اس مد میں 14 ارب کی بجائے صوبائی حکومت نے بیس اعشاریہ اٹھ ارب روپے جاری کیے جومختص کی گئی رقم سے تقریباپچاس فیصد ذیادہ ہیں۔ جس میں اب تک انیس اعشاریہ تین ارب روپے استعمال کیے گیے جوکل بجٹ کا ایک سو سینتس فیصدبنتا ہے۔
عمران خان مسلسل یہی کہتے ہیں کہ قوموں کی ترقی سڑکوں اور موٹرویز سے نہیں بلکہ تعلیم سے ہوتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے جن منصوبوں کو عمران خان اہم اور قوم کی تقدیربدلنے کیلئے ناگزیر سمجھتے ہیں اس میں بھی اس کی پارٹی کی حکومت نے بجٹ کا بڑا حصہ ضائع کر دیا ہے ۔
صوبائی حکومت نے تعلیم کوبہتر بنانے کیلئے صوبے میں تعلیمی ایمرایجنسی نافذ کردی تھی ، جس کی بنیاد پر صوبے میں تعلیمی اصلاحات لائی جانی تھیں اور بگڑے ہوئے تعلیمی ڈانچے کو راہ راست پر لانا تھا۔ لیکن افسوس کہ اس میدان میں بھی صوبائی حکومت نے عوام کو مایوس کیا۔ موجودہ مالی سال میں تعلیم کیلئے سولہ اعشاریہ نو ارب مختص کیے گئے تھے جس کے تحت سکولوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانا تھا ،مستحق طلباء کو وظائف بھی دیے جانے تھے اورصوبے میں 500 نئی آئی ٹی لیبارٹریاں، دس نئے کالجز اور اپر دیر میں انجینئرنگ جبکہ بونیر میں یونیورسٹی تعمیر کرنا تھا۔
اس بجٹ میں ا ب تک صرف نو ارب روپے خرچ کئے گئے ہیں، جو تقریبا چون فیصد بنتے ہیں۔ اسی طرح ہائیرایجوکیشن کیلئے چار اعشاریہ سات بلین روپے رکھے گئے تھے جس میں تین اعشاریہ چار بلین روپے جاری کئے گئے تھے۔ ابھی تک اس میں صرف ایک اعشاریہ نو ارب جو چالیس فیصد بنتے ہیں خرچ ہو چکے ہیں۔
اسی طرح حکومت نے محکمہ صحت میں بھی اصلاحات کے بڑے بڑے دعوے کئے مگر آفسوس کے دعوے ہی دعوے رہ گئے۔ دوہزار سولہ۔سترہ میں ہیلتھ کیلئے سترہ اعشاریہ پانچ ارب روپے مختص کیے گئے تھے جن میں اب تک صرف چار اعشاریہ سات ارب روپے خرچ ہو سکے ہیں جو کل بجٹ کا ستائیس فیصد بنتے ہیں۔
محکمہ جنگلات کو بہتر بنانا بھی نہ صرف صوبائی حکومت کے خاص ایجنڈے پر تھا جس میں کافی حد تک کامیابی حاصل کی ہے اس محکمہ کیلئے محتص بجٹ کا بڑا حصہ خرچ ہو چکاہے۔ موجودہ مالی سال کیلئے حکومت نے دو ارب محتص کئے تھے جن میں اب تک ایک اعشاریہ اٹھ ارب ریلیز ہو چْکے ہیں جن میں ایک اعشاریہ پانچ ارب خرچ کئے گئے جوکہ مجموعی بجٹ کا پچھتر فیصد بنتا ہے۔
وقت کی سوئی ایک مرتبہ پھر جون کے پہلے ہفتے پر ہے جس پر سب کی نظریں ضرورہیں مگرجس رفتار سے حکومت کی مدت قریب آتی جا رہی ہے اگر اس رفتار اپنے وعدے پورے نہیں کئے تو آئندہ الیکشن میں وٹرز اس طرح بھول جائینگے جس طرح موجودہ حکومت نے اپنے وعدے بھلا دیئے ہیں
فیس بک پر تبصرے