عدلیہ کی ساکھ اور میگنا کارٹا کی ضرورت

948

جنوبی ایشیاء میں اس وقت عدلیہ کے خلاف ایک طوفانی لہر اٹھی ہے۔ پاکستان بھی اس بحران سے کسی نہ کسی طور متاثر لگتا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ جس کے فیصلے اکثر پاکستانی عدالتوں میں نظیر بن جاتے ہیں، اس وقت ایسے ہی ایک مشکل سے دو چار ہے۔ دہلی میں عدالت کے چار سینئر ججز نے اپنے ہی چیف جسٹس کے خلاف پریس کانفرنس کر ڈالی۔ اس کانفرنس میں جس طرح کے الزامات لگائے گئے اس سے پاکستان کی اعلی عدلیہ میں بھی خوف وہراس کی لہر دوڑ گئی ہے۔ایک مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے تسلیم کیا ہے کہ  بھارت کے چیف جسٹس کا حال دیکھ کر کہ ساتھی ججز سے متعلق اب وہ خاصے محتاط ہو گئے ہیں۔ اس وقت پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو بھارتی چیف جسٹس سے کئی گنا زیادہ اختیارات حاصل ہیں جن میں اپنی مرضی کا بنچ بنانا اورساتھی ججز میں مقدمات بانٹنا بھی شامل ہے۔جسٹس ثاقب نثار کا ڈر اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ اس وقت بھارت میں یہ نعرہ کہ عدلیہ سے جمہوریت کو خطرہ ہے ،اتنا مقبول شاید نہ ہو جتنا یہ پاکستان میں عام فہم ہے۔ پاکستان کے کسی بھی حصے میں جاکر راہگیر،حلوائی، نائی، موچی یا قصائی کی دکان پر بھی جاکراستفسار کریں  تو اپنی بات کی دلیل میں  ہر کوئی ایک فہرست تھماتا نظر آتاہے کہ ہماری عدلیہ جو ریاست کا ایک بنیادی ستون ہے ،کیسے غیر جمہوری قوتوں اور آمروں کی آلہ کار بن جاتی ہے اور انصاف کا پہیہ کیسے ایک خاص پٹڑی اور روٹ پر ہی چلتا نظرآتا ہے۔ نظام لپٹ جاتا ہے تو پھرجمہوریت کئی سال تک منہ موڑ کر ایک کونے میں کھڑی ہوتے ہوئےانصاف کو دیکھ رہی ہوتی ہے۔
جہاں عدلیہ کا کردار روز روشن کی طرح عیاں ہے وہیں ملک میں عام افراد کو سیاستدانوں کی ناکامیاں بھی ازبر ہیں۔ لیکن عدلیہ سمیت کچھ ریاستی ادارے زیادہ حساس ہونے کی وجہ سے ایسی تنقید کے عادی نہیں ہوتے،البتہ سیاستدان کسی نہ کسی صورت اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگت لیتے ہیں۔کوئی پھانسی چڑھ گیا تو کئی نااہل قرار دیے گئے، کچھ قتل ہوئے تو باقی جیل پہنچ گئے ۔ پھر بھی سکون نہ ملا تو ملک بدر ہی کر دیا گیا۔بنگلہ دیش کے چیف جسٹس کی زبردستی رخصتی اور مالدیپ کے چیف جسٹس کی گرفتاری کی خبر بھی چین کے طوطے کے پیغام سے کم نہ تھی۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کی اپنی نااہلی کے فیصلے کے خلاف تنقید کا واحد ہدف سپریم کورٹ بن کر رہ گئی ہے۔ ججز کو مختلف ناموں سے پکارا جا رہا ہے۔ ان کو پانچ ججز کہہ کر کے تنقید کی جاتی ہے۔ جو جج شریف خاندان ٹرائل کی نگرانی کر رہے ہیں ان کو “سپرڈپر”بھی کہا گیا۔ دیگر عدالتی اختیارات کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس ثاقب نثارکو انتظامیہ کے کاموں میں مداخلت، ہسپتالوں کے دورے اورازخود نوٹس کی وجہ سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔اس دباؤکا اظہار چیف جسٹس نے مختلف مقدمات کی سماعت کے دوران بھی کیا ہے۔ وہ اس طرح کی تنقید کا بار بار حوالہ دیتے بھی نظر آتے ہیں۔ کہتے ہیں “ہم ججز بھی انسان ہیں جو تنقید ہوتی ہے اس پر سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ ہمیں ایسا کرنا چاہیے کہ نہیں” ایک موقع پر کہا کہ عدلیہ اور ججز پر ہونے والی تنقید کا مناسب وقت پر نوٹس لیا جائےگا۔
انتخابی اصلاحات قانون سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ عدلیہ پر ہونے والی تنقید پر ردعمل نہیں دیں گے۔ مقدمہ سنیں گے، تعصب کا مظاہرہ کیے بغیر انصاف کریں گے۔جب پیپلز پارٹی کی نمائندگی کرنے والے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کے عدلیہ سے متعلق مزید تنقیدی جملے دہرائے توچیف جسٹس نے عدلیہ کے ایک نئے دور کا اعلان کردیا اور کہا کہ وہ دن گئے جب ججز صرف فیصلوں کے ذریعے بولا کرتے تھے ،اب سوشل میڈیا کا دور ہے اب ججز جواب بھی دیا کریں گے۔ پھر کہا کہ اس حوالے سے برطانیہ کی عدالت کا ایک فیصلہ بھی جسٹس اعجازالاحسن نے ان کو دکھایا ہے کہ اب دور بدل گیا ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے اس موقع پر بتایا کہ اب عدلیہ پربلاجواز تنقید اورپروپیگنڈہ کا جواب دیا جائے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کے تحت عدلیہ ریاست کا ایک بنیادی ستون ہے۔ آئین کا آرٹیکل پانچ عدلیہ، آئین اورقانون کے ساتھ وفاداری کا پابند بناتا ہے اور ایسا نہ کرنا ریاست کے ساتھ بے وفائی کرنے کے مترادف ہے۔ لطیف کھوسہ نے رائے دی کہ ریاست سے بے وفائی کا مطلب غداری ہے۔
اب عدلیہ کو ایسے کون سے کام کرنے ہوں گے کہ جس سے اس ادارے کی ساکھ بحال ہوسکے اور انصاف ہوتا ہوا بھی نظر آئے۔
کراچی میں نقبیب اللہ محسود کا ناحق خون کرنے والے حاضر سروس پولیس افسر ایس ایس پی راؤانوارکوبااثر حلقوں کی طرف سے اپنی حفاظت میں لینا ریاست، عوام، نظام اور عدلیہ کے ساتھ مذاق ہے۔ سب بے بسی کی تصویر بنے دیکھ رہے ہیں کہ قاتل ایس ایس پی کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا؟پر امن احتجاج کرنے والے قبائلی انصاف کا مطالبہ کرتے نظر آرہے ہیں لیکن کوئی ایسا نظر نہیں آرہا ہے جوبنیادی آئینی حقوق کا تحفظ کر سکے۔ ایسے میں عدلیہ پرمزید ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ کسی ایک ادارے، شخص یا جماعت کی طرف انصاف کا ترازو نہ جھکنے دے۔
قبائلی عوام کو چیف جسٹس نے یقین دلایا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ فاٹا میں عدالت لگالیں گے۔ یہ ستر برسوں میں شاید قبائلییوں سےاعلیٰ عدلیہ کی طرف سے پہلی بڑی یقین دہانی تھی۔ تاہم بنیادی شہری حقوق اور برابری کا سلوک اب بھی ان قبائلیوں کا دیرینہ مطالبہ ہے۔ملک میں ایسے خاندان اب بھی ہزاروں ہیں جو سپریم کورٹ کا رخ کرتے ہیں کہ ملک کے معزز اداروں کی طرف سے ان کے پیاروں کو اغوا کر لیا گیا ہے۔ وہ ان کی رہائی کا مطالبہ نہیں کرتے وہ کہتے ہیں کہ اگر انھوں نے کوئی جرم کیا ہے تو پھر ان کو آئین اور قانون کے مطابق ضرور سزا دی جائے۔
سپریم کورٹ گذشتہ کئی برسوں سےلاپتہ افراد کے مقدمات سن رہی ہے لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔ آج تک اس کیس میں سپریم کورٹ کی عزت بحال  نہیں ہوسکی بلکہ ہزاروں شہری اپنے پیاروں کی یاد میں آنسوؤں کی بارش کر کے ناکام گھر لوٹ چکے ہیں۔ عدلیہ کی ساکھ بحال کرنے کے لیے بھی شاید ایک “میگنا کارٹا” کی ضرورت ہے۔ کچھ خدوخال ایسے واضح کیے جاسکتے ہیں کہ سب ادارے اور افراد مل کر آئین، قانون اور انصاف کے نظام کو بے توقیر نہیں ہونے دیں گے۔ کوئی ادارہ علیحدہ عدالتیں بنانے پر بضد نہیں ہوگا۔  ریاست کے اندر ریاست کوئی نہیں بنائے گا۔ غیر جمہوری ہتھکنڈے استعمال کرکے آئین کو بے آبرو نہیں کیا جائے گا۔ عوام کے منتخب نمائندوں کوبے توقیر کرکے اقتدار کےایوانوں سے نہیں نکالا جائے گا۔ پارلیمنٹ کے اختیارت کو تسلیم کیا جائے گا۔ فوج اور عدلیہ کو غیر ضروری تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ اس معاہدے کی آخری شق یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ریاست کوبہرصورت چلنے دیا جائے گا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...