عسکریت پسندوں کی واپسی

1,143

یہ قرونِ وسطیٰ کی کہانی نہیں ، جب جنگی مہمات   سے لوٹ کر آنے  والے جنگجو کی تعریف کی جاتی تھی۔ یہ کہانی ہے ان لوگوں کی  ،جو جہادی مہمات پر عسکریت پسند  گروہ ،  داعش کی حمایت و نصرت کے لیے  عراق اور شام پہنچے۔ داعش کی شکست کے بعد  داعشی جنگجو اپنے آبائی ممالک کو واپس لوٹ رہے ہیں۔واپس آنے والوں کی صحیح تعداد ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ ان میں  سے بیشتر کے عزائم  خطرناک ہو سکتے ہیں۔ان جنگجوؤں یا داعش کے حامیوں  نے ممکن ہے اپنے آبائی علاقوں میں کوئی جرم نہ کیا ہو مگر قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کے حوالے سے حساس ضرور ہیں۔یہ بھی ممکنات میں سے ہے کہ واپس آنے  والے افراد میں سے کچھ کا مقصد اپنے علاقوں میں داعش طرز کی کارروائیاں کرنا ہویا کچھ ایسے بھی ہوں جو داعش کی نئی مہمات کے لیے افراد کی بھرتی کا ارادہ رکھتے ہوں۔ تاہم ان کو محض شک کی بنا پر حراست میں نہیں رکھا جا سکتا۔ان میں سے کچھ ایسے بھی ہوں گے جو  اپنے کیے پر نادم ہوں اور  عسکریت پسندی کو خیرباد کہہ کر نئی زندگی شروع کرنا چاہیں گے۔ بہترین حل یہ ہے کہ ان لوگوں کی نگرانی کی جائے اور ان کی بحالی کی کوششیں کی جائیں۔تاہم بحالی کے اس عمل کی ہئیت کیا ہو گی؟ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انسداد دہشت گردی  کےماہرین کے لیے یہ ایک مشکل سوال ہے۔

یہ سوال اس وقت مزید اہمیت اختیار کر جاتا ہے جب  ایک پورے گھرانے کو بحالی کے عمل سے گزارنے کی ضرورت ہو۔بیشتر داعشی جنگجو اپنے خاندان کو بھی اپنے ہمراہ جہادی مہم پر لے گئے تھے۔تنازعے میں کسی ایک فرد کی موت  پورے گھرانے کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا سکتی ہے۔اسی طرح کا ایک خاندان گزشتہ برس نومبر میں پنجاب پہنچا۔ایک ماں اپنی تین بیٹیوں کے ہمراہ  شام میں اپنے خاوند کی جہادی مہم کا  حصہ رہ چکی تھی، جس کا شوہر ایک فضائی حملے میں مارا گیا تھا۔رقہ میں داعش کی پسپائی کے بعد اس خاتون کے پاس سوائے واپسی کے کوئی چارہ نہ رہا تھا۔ اس بات کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں کہ یہ خاتون ترکی میں کیسے داخل ہوئی ،تاہم  ترکی اور شام میں گزرے ایام  ان کے لیے ایک  انتہائی تکلیف دہ یاد بن کر رہ گئے ہیں۔  بظاہر یہ خواتین داعش کی کسی کارروائی ، تبلیغی مشن یا بھرتیوں کے کسی عمل میں شریکِ کار نہیں تھیں، اسی لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس ایسے لوگوں کو زیادہ عرصہ حراست میں رکھنے کا قانونی جواز نہیں ہے۔اس بارے میں بھی کوئی معلومات نہیں ہیں کہ کتنے خاندان  عراق یا شام کے لیے روانہ ہوئے۔ایک پارلیمانی قائمہ کمیٹی  نے نیکٹا (نیشنل کاؤنٹر ٹیرارزم اتھارٹی) کو یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ ایسے پاکستانیوں کے اعدادوشمار اکٹھے کیے جائیں جو شام و عراق لڑائی کے لیے پہنچے یا جو اب تک واپس آ چکے ہیں۔نیکٹا اپنی صوبائی شاخ اور اسپیشل پولیس برانچز کی مدد سے یہ اعدادو شمار اکٹھے کر رہا ہے۔ یہ اعدادوشمار ان افراد یا خاندانوں سے متعلق ہوں گے جوبشار الاسد کے خلاف یا حق میں لڑنے کے لیےشام پہنچے تھے۔تاہم اس طرح معلومات اکٹھی کرنے میں کافی مشکلات کا سامناہے۔سی ٹی ڈی اور پولیس کی صلاحیتوں کے علاوہ اس سلسلے میں دو رکاوٹیں اور حائل  ہیں۔ پہلا یہ کہ سرکاری محکمے ایسے لوگوں کا ریکارڈ تو حاصل کر سکتے ہیں جنہوں نے گزشتہ چند  سالوں میں ترکی اور وسط ایشیائی ممالک کی طرف سفر کیا ۔ تاہم اس ڈیٹا کی چھان پھٹک ایک مشکل مرحلہ ہوگا کیوں کہ ایسے حساس نوعیت کے کام کے لیے حکومتی اداروں میں تربیت کا فقدان ہے۔  اسی طرح لاہور اور کراچی جیسے شہروں میں اعدادوشمار اکٹھے کرنا زیادہ مشکل کام ہوگا۔ دوسرا بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے جہادی مہمات میں حصہ لینے کے لیے زمینی راستے اختیارکیے،خاص طور پر ایران کے ذریعے جس کا مشاہدہ ہمیں  2015 میں  لاہور کے داعش سے متاثر خاندان کے معاملے میں ہوا  جنہوں نے ایران کی سرحدپر بلوچستان سے اپنے خاندان کو پیغامات بھیجے تھے۔
اعدادو شمار کی تدوین و تحقیق میں حائل مشکلات کے علاوہ   بنیاد پرستی کے خاتمے اور متاثرہ خاندانوں یا افراد کی بحالی کے  لائحہِ عمل پر عملدرآمد  بجائے خود ایک کٹھن کام ہے ،باوجود اس کے کہ پاکستان  بنیاد پرستی سے نجات کے لیے باقاعدہ یا بے قاعدہ شروعات کر چکا ہے۔ فوج کی زیرِ نگرانی سوات اور شمالی علاقوں میں بحالی کے مراکز   چند منظم  کوششوں کا نمونہ ہیں جہاں فوجی کارروائیوں  کے دوران قید کیے گئے افراد رکھے گئے ہیں۔ اسی طرزپر  پولیس کا محکمہ انسداد دہشت گردی   اور صوبائی حکومتیں   بحالی کے اقدامات  کرتے رہے ہیں۔ پنجاب حکومت نے بنیاد پرستی کے خاتمے کا نوماہی منصوبہ بنایا ہے جس میں عسکریت پسند قیدیوں، بالخصوص ایسے افراد جنہوں نے  عملاً عسکری کارروائیوں میں حصہ نہ لیا ہو ، کو قومی دھارے میں واپس لایا جائے گا۔ اسی طرح کے منصوبے گزشتہ برس سندھ حکومت نے بھی شروع کیے تھے۔ محض چند ایک خودساختہ کامیابیوں کےسوا  ان منصوبوں کے ثمرات  ابھی تک عوام سے اوجھل ہیں۔

بحالی کے منظم و غیر منظم اقدامات اس بات پر مبنی ہیں کہ افراد عسکریت پسند گروہوں میں شمولیت کیوں اختیار کرتے ہیں اور دونوں ہی انتہا پسندی اور شدت کی جانب میلان کو ذہنی مرض سمجھتے ہیں۔فوج کے زیرنگرانی قائم بحالی مراکز  میں نفسیاتی مشاورت کے ساتھ ساتھ تعلیمی و ہنر مندانہ تربیت بھی دی جاتی ہے۔ پولیس کے زیرِ نگرانی قائم مراکز میں بھی نفسیاتی مشاورت پر توجہ دی جاتی ہے تاہم اس کے لیے ماہر نفسیاتی معالجین  کے بجائے پولیس افسران  کی خدمات مستعار لی جاتی ہیں۔ایک صوبائی محکمہ انسداد دہشت گردی کی جانب سے  500 عسکریت پسند قیدیوں کے مطالعے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ ان کی اکثریت مختلف ذہنی امراض کا شکار ہے۔ یہ نتائج باقی ماندہ دنیا میں کیے گئے مطالعوں سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔پولیس اور آزاد ذرائع نے ا س بات کی تصدیق نہیں کی کہ یہ مطالعہ کب اور کہاں کیا گیا۔ بحالی کے لیے اٹھائے گئے دونوں طر ح کے اقدامات    میں  مذہبی  و نظریاتی  حوالوں کو بری طرح نظر انداز کیا گیا۔ باوجود اس کے کہ  انتہا پسندی ایک نظریاتی و سیاسی عمل ہے، نظریاتی وسائل کو پوری طرح  متاثر کن طریقے سے استعمال  نہیں کیا گیا۔

اب پاکستان کے پاس 1800 مذہبی اسکالرزکا جہاد، خود کش حملوں اور غیر ملکی سرزمین پر جہاد کے حوالے سے متفقہ اور جامع  فتویٰ موجود ہےجس کو عوام کے لیے “پیغامِ پاکستان” کے نام سے شائع کیا گیا ،  فوج اور پولیس کی زیرِ نگرانی قائم بحالی مراکز کے نصاب کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔سب سے اہم یہ کہ ترقی پسند اور معتدل ماہرین ،بشمول  مذہبی علماء ، کو بھی بحالی منصوبوں کا حصہ بنایا جائے۔ قیدیوں کی بحالی اور داعشی جنگجوؤں کی جانچ پڑتال یقیناًایک تھکا دینے والا  اور مہنگا کام ہےمگر بلاشبہ اتنا ہی اہم۔ انتہا پسندی کا مسئلہ مسلم معاشروں کے لیے پیچیدہ رخ اختیار کر تا چلا جا رہا ہے۔حتیٰ کہ داعش سے  مایوس لوٹنے والے جنگجو  انتہا پسند اور عسکریت پسند گروہوں سے رابطہ کر سکتے ہیں اور یہ خطرہ انتہائی سنگین ہے۔

(ترجمہ: حذیفہ مسعود، بشکریہ:  ڈان)

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...