عاصمہ جہانگیر
معروف قانون دان اور انسانی حقوق کے حوالے سے دنیا بھر میں شہرت کی حامل شخصیت محترمہ عاصمہ جہانگیر کےانتقال کی خبر سنتے ہی دل افسردہ ہوا کہ ہم نے ہمیشہ عاصمہ جہانگیر کو ظلم کے خلاف لڑتے دیکھا۔ میں نے پہلی مرتبہ انہیں لاہور ہائی کورٹ کے بارروم میں سنا تھا جہاں وہ اپنی برادری سے مخاطب تھیں۔ وہ پاکستان میں ہونے والے ڈرون حملوں کے حوالے سے ہمارے عسکری اداروں کی پالیسیوں اور خفیہ معاہدوں پر بات کررہی تھیں۔ انہیں فکر اس بات کی تھی کہ ڈرون حملوں میں مرنے والے دہشت گرد کم اور بے گناہ زیادہ ہیں۔عاصمہ جہانگیر نے ہمیشہ حق کا ساتھ دیا مگر ہمارے نزدیک حق وہی ہوتا ہے جس کا علم کسی مولوی کے ہاتھ میں ہو۔ وہ ہر مظلوم کی آواز تھیں۔ ان کے ہاں مظلوم کی تعریف کچھ اور تھی جس سے ہم سبھی شاید ناواقف ہیں۔ملک میں ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ شروع ہوا تو عاصمہ جہانگیر ہی نے اس کے خلاف آواز بلند کی۔ طالبان سے شدید اختلاف کے باوجود عاصمہ جہانگیر کہتی تھیں کہ اگر انہیں بھی ماورائے عدالت قتل کیا گیا تو وہ انکی حمایت میں سب سے آگے نظر آئیں گی۔پاکستان میں ماورائے عدالت قتل ہوں، لاپتہ افراد کا مسئلہ ہو یا قانون کی بالادستی کا ایشو، عاصمہ جہانگیر ہر معاملے میں ہراول دستے کا کردار ادا کرتی رہیں۔
دودہائیاں قبل جب کالعدم سپاہ صحابہ کے بانی مولانا حق نواز جھنگوی کو اپنے مختلف انداز فکر اور طرز گفتار کے سبب بام عروج نصیب ہواتو ہمارے ایک صاحب طرز ادیب دوست نے عاصمہ جہانگیر کو لبرلز کی عاصمہ جھنگوی قرار دیا۔ اس جملے پر ہمارے بعض احباب چیں بجبیں تو ہوئے مگر سچ یہی ہے کہ مولانا حق نواز جھنگوی نے جس طرح ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم سے جنرل ضیاء الحق کو للکارا، جس طرح پڑوسی ملک کی مداخلت کو روکنے کے لیے وہ میدان میں نکلے، پاکستان میں مذہبی مقدسات کی توہین کو روکنے کے لیے جس تندوتیز لہجے کا استعمال مولانا حق نواز جھنگوی نے کیا ،ویسے ہی عاصمہ جہانگیر نے باوجود خاتون اور کمزور ہونے کے پاکستان میں آمریت کو للکارا،انہوں یحیٰ خان، جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے دور میں جس طرح ستم برداشت کیے اور اپنے تن کے کپڑے تک تارتار کروائے، لاٹھیاں کھائی، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور ہمیشہ ایسا موقف اختیار کیا جس سے متعلق عام لبرل و مذہبی لیڈر بات کرنا تو درکنار سوچتے ہوئے بھی ہچکچاتے تھے۔عاصمہ جہانگیر نے 21 سال کی عمر میں جنرل یحیٰ خان کی آمریت کو للکارا، اپنے والد کا کیس خود لڑ کر انہیں رہا کروایا اور یحیٰ خان کی ڈکٹیٹر شپ کو عدالت سے غیر آئینی قرار دلواکر پاکستان کی آئینی تاریخ میں ایک بڑا کارنامہ سرانجام دیا۔
عاصمہ جہانگیر کو اپنی زندگی میں کئی مرتبہ توہین مذہب کے الزامات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ میں نہیں سمجھتا کہ وہ اسکی مرتکب ہوئی ہونگی مگر یہ تو حقیقت ہے کہ وہ توہین مذہب کی روک تھام کے لیے بنائے گئے قوانین کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے ہمیشہ کوشش کرتی رہیں۔ اب اس “جرم” کو توہین مذہب کہا جائے یا گستاخی تصور کیا جائے تو وہ یار لوگوں کی مرضی ہے مگر توہین مذہب کا کوئی الزام آج تک عاصمہ جہانگیر پر ثابت نہیں ہوسکا۔
آج بھی جبکہ وہ اس دنیا میں نہیں رہیں مگر فرقہ پرستی اور مسلکی تعصب کی چادر لپیٹے بعض افراد انہیں جہنمی، غدار اور دیگر ایسے القابات سے نواز رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے فیصلے ان کوڑھ دماغوں کے ہاتھ میں دے دیے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر کی فکر اور سوچ سے اختلاف ہوسکتا ہے بلکہ انکی کسی بھی چیز سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر دیانتداری کے ساتھ ان کے اپنائے گئے مواقف کی تردید ممکن ہے نہ ان کا مذاق اڑایا جاسکتا ہے۔ آپ ہی بتائیں کہ انہوں نے ملک اسحاق اور طالبان کے ماورائے عدالت قتل پر احتجاج کس خفیہ طاقت کے اشارہ پر کیا ہوگا یا کس کی خوشنودی کے لیے کیا ہوگا ؟وہ آمریتوں سے لڑجھگڑ کر اور اپنے آپ کو مصیبت میں ڈال کر کیا حاصل کررہی ہونگی؟ یہ سب وہ اس لیے کرتی رہیں کہ دیانتداری کے ساتھ وہ سمجھتی تھیں کہ یہ سب غلط ہے اور اس کو روکنے کے لیے آواز احتجاج بلند کرنا ضروری ہے۔ انکی دیانتداری پر شک نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ہم جس دنیا میں جی رہے ہیں سچ تو یہ ہے کہ یہاں دکھاوے کے لیے تعزیتیں اور جنازے پڑھے جاتے ہیں، یہاں دیکھا دیکھی بیانات دیے جاتے ہیں اور محض چند ووٹو کے حصول کے لیے لوگوں کی ہاں میں ہاں ملائی جاتی ہے مگر عاصمہ جہانگیر نے یہ سب دیانت داری کی بنیاد پر کیا اور اس سب کے بدلے میں انہیں سوائے ہماری گالیوں، دھمکیوں اور قید وبند کی صعوبتوں کے کچھ حاصل نہ ہوا۔
ہماری دعا ہے کہ عاصمہ جہانگیر کو اس سب کا بدلہ اللہ کے ہاں نصیب ہو۔ زندگی لغزشیں معاف ہوں اور دنیا کی مصیبتیں ان کی زندگی کی لغزشوں کا کفارہ بن جائیں۔
فیس بک پر تبصرے