تضادات کے گھاؤ اور مفاہمت کا تصادم
ایران کی جانب سے متعدد مرتبہ پنجگور کی سرحد کے ساتھ مارٹر گولے داغے گئے ہیں جس سے کچھ افراد جاں بحق بھی ہو چکے ہیں یہ واقعات بلا سبب رونما نہیں ہورہے۔ان کے اسباب موجود ہیں اگر ان واقعات کی شدت وحدت بڑھتی ہے تو ایران کے ساتھ ہماری سرحد گرم بارڈر بن جائے گی
ہمارے خطے میں،جنوب سے وسطی ایشیا و مشرق وسطیٰ تک،بحیرہ عرب اور بحر اسود تک۔حالیہ سالوں میں ہونے والے واقعات واضح رخ اختیار کرتے جارہے ہیں۔
ریاض کانفرنس اور سی پیک جو دونوں باہم متضاد و متحارب اقدامات ہیں۔پاکستان دونوں میں نمایاں طور پر شریک ہے۔اس متضاد و مخیر العقل حکمت عملی کا نتیجہ یا نتائج کیا ہوں گے؟ فیصلہ ساز حکمرانوں کی سوچ اس کی عکاسی نہیں کررہی۔لگتا ہے قدرتی بہاؤ کے سہارے ملکی نیا چلے جا رہی ہے۔جس کا ایک چپو اقتصادی تبدیلیوں کا مظہر ہے تو دوسرا عسکری صف آرائی کا۔پہلے چپو پر بیجنگ و روس کی گرفت ہو تو دوسرے پر پینٹاگون بذریعہ ریاض کی۔ ریاض اور پینٹاگون کے نئے تعلقات و رشتوں کی نوعیت کا اندیشہ2015 یکم جنوری کے اخبارات سے ہوگیا تھا۔
سعودی وزیر و شہزادے نے فرمایا تھا کہ اب اگر فلسطین و اسرائیل کے بیچ جنگ ہوئی تو سعودی حکومت اسرائیل کا ساتھ دے گی(روزنامہ ایکسپریس)۔
ریاض میں جس مسلم عسکری اتحاد کا عملی اظہار ہوا ہے اسے مسلم فوجی تعاون و اتحاد کہنا سراسر غلط ہے۔ ہاں غلام عسکری اتحاد کا لفظ مناسب المعنی ہے۔کیا اس اقدام کے پس پردہ کارفرما عوامل میں سے ایران اور اس کی منفی و جنونی فرقہ وارانہ و سیاسی سرگرمیوں کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے یا زیادہ واضح طور پر اسے بری الذمہ قرار دینا دانشمندانہ عمل ہوگا؟
جب افغانستان پر امریکی اتحادی افواج کی یلغار ہوئی اور اس کا سبب القاعدہ کو قرار دیا گیا تھا۔تبصرہ کیا گیا تھا کہ
’’القاعدہ وہ چور بتی (ٹارچ )ہے جس کی روشنی میں امریکی و مغربی قوتیں وسائل کی جانب غاصبانہ قبضے کیلئے قدم بڑھاتی ہیں۔‘‘
ریاض کانفرنس کے تناظر میں مجھے ایران کا کردار القاعدہ جیسی چور بتی کا لگتا ہے جس کے سہارے امریکا نے نیٹو کے علی الرعم،مشرق وسطیٰ و ایشیائی خطے میں اپنی ایک نئی اتحادی فورس قائم کرلی ہے جو اس خطے میں استحصال کا مؤثر ہتھیار اور جمہوری تبدیلیوں کا سدباب کرنے کیلئے اہم کردار ادا کرے گی۔
ایک ایسا عسکری اتحاد جس کے اغراض و مقاصد کی کوئی باضابطہ دستاویز مرتب ہوتی ہے نہ تنظیمی ڈھانچہ نہ ہی طریقہ کار اور نہ اس کی کسی طرز پر کوئی قانونی بنیاد بنائی گئی ہے۔اتحاد میں شامل غیر آئینی خاندانی بادشاہتوں یا فوجی آمروں کے علاوہ دیگر نام نہاد آئینی ریاستوں کے حائل ملک کم از کم پاکستان کی پارلیمان نے اس کی قطعی طور پر توثیق کی ہے نہ ہی حکومت پاکستان نے کانفرنس میں اپنا سرکاری بیانیہ پیش کیا ہے۔
کیا مذکورہ فوجی اتحاد سعودی حکومت کے وسائل و احکامات کے طابع عمل کرے گا؟جو پینٹاگون کی خواہشات کی مکمل اطاقت گزار مملکت ہے؟
برسبیل تذکرہ،اس اتحاد کا ایک سلبی فائدہ پاکستان کے عوام کو ہوا ہے۔ کم از کم اب گلی کوچوں و شاہراہوں پر وہ نعرے باز ہجوم دکھائی نہیں دے گا جو امریکا کا جو یار ہے غدار ہے،غدار ہے کے واشگاف نعروں کے زور پر انقلابی نقالی کا تماشہ رچایا کرتا تھا۔
ثانوی طور پر یہ نقطہ بھی کھل کر سامنے آگیا کہ مذہبی ریاستیں ہوں یا جماعتیں اگر وہ عرب نواز ہیں تو ایک تو وہ امریکا کی پروردہ ہیں ،دوم مذہبی شدت پسندی کی نرسریاں ہیں ،ایران سمیت۔
تاہم بیانیہ اغراض و اہداف کے مطابق مسلم عسکری اتحاد خطے میں ایران کی مداخلت کے خلاف مزاحمت و تدارک کیلئے سرگرم کردار ادا کرنے جارہا ہے اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ لبنان جہاں حزب اللہ،فلسطین میں حماس،پھر شام و عراق اور ایران پر مشتمل عناصر کی سرکوبی،ریاض فوجی اتحاد کا اہم مقصد ہوگا۔کیا اس مقصد کو فرقہ وارانہ تصادم یا کشیدگی کا نام دینا غلط ہوگا؟
ریاض کانفرنس میں جو کچھ ہوا ہے وہ اہمیت کے باوجود مسلم امہ کے خیالی تصور کی نفی کیلئے بھی بہت مؤثر ثابت ہوا ہے۔میں دینی ہم آہنگی کے برعکس سیاسی یگانگت و اتحاد و یک قالب ہونے کی بات کررہا ہوں۔ریاض کانفرنس کے منتظمین نے اپنے اعمال افعال اور کردار سے اس بنیادی تصور کا خاتمہ کردیا ہے جسے افسوسناک کہنا شاید بہت معمولی بات ہے۔ دراصل ریاض کانفرنس بھیانک سمت سفر کرنے والے ایک قافلے کا نام ہے۔ناقدین وزیراعظم پاکستان کو تقریر سے محروم رکھنے پر طعنہ زن ہے جب مجھے اس سے امید پرستی کی کرن دکھائی دیتی ہے۔
اگر ریاض کانفرنس میں نواز شریف کو اہمیت نہیں ملی یا تقریر سے باز رکھا گیا ہے تو بین السطور میں اس نہ کی گئی تقریر کے مندرجات کی خاموشی نے وہ شور اٹھایا ہے جو وہاں رطب اللسان شعلہ بیان مقررین سے زیادہ سنائی دے رہا ہے کس کی معنویت اور مقبولیت زیادہ دکھائی دے رہی ہے۔مورخ اس خاموشی کو غیر مصالحانہ سچائی کے ساتھ بیان کرے گا۔رہا عربوں کے ہاں عجموں کی توقیر کا سوال،تو وہ پہلے تھا نہ اب ہے۔
ہمارے محنت کشوں سے لے کر حکمرانوں تک سبھی دوسرے درجے کے انسان سمجھے جاتے ہیں اور یہی رویہ صدیوں کے تفاخر کے ساتھ ریل فارس میں بھی نمایاں طور پر موجود رہا اور ہے۔
جس تقریر سے اجتناب کیا گیا ہے وہ منتظمین کے کانوں میں رس گھولنے والی نہیں ہوگی اوراس کے محرر و مندرجات قلمبند کروں گا۔تاہم ایک تضاد قابل بحث ضرور سامنے آرہا ہے؟
کیا وزیراعظم کے بیانیے کی ترتیب و ترکیب میں ملکی دفاعی و خارجی یا قومی سلامتی کے مرکز کی رضا مندی شامل تھی؟اگر اس کا جواب منفی ہے تو پھر حکومت کے جراتمندانہ کردار کو سراہنا چاہیے اور اگر اٹھائے گئے سوال کا جواب مثبت ہے تو پھر نام نہاد مسلم عسکری اتحاد کے سربراہ کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیے۔اپنی ذاتی توقیر،ملکی وقار اور ادارے کے احترام کو بچانے کیلئے۔ریال پر رویے کی فوقیت،رویے پر ملکی عظمت کی بالادستی کے زریں قاعدے کے عین مطابق۔
کیا مذکوہ غلام عسکری اتحاد فی الواقعی خطے میں کسی بڑی جنگ کا آغاز کرنے والا ہے؟
سوال مذکورہ کے کئی سیاسی پہلو ممکنہ طور پر مثبت کی ترغیب دیتے ہیں۔میرے نزدیک اس کا بنیادی مقصد جس حد تک امریکا کی قیادت کے حوالے سے معلوم ہوتا ہے حاصل ہو چکا ہے۔امریکا نے جنگ کے بغیر اپنی جنگی معیشت کیلئے110 ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنے کا سودا کرلیا ہے۔دوم امریکا میں سعودی عرب کی350 ارب کی معاشی سرمایہ کاری بھی وصول کرلی ہے۔چنانچہ ٹرمپ کو اب اپنے سرمایہ کاروں پر امریکا میں صنعتی سرمایہ کاری کیلئے دباؤ ڈالنے کی ضرورت نہیں رہی۔سعودی سرمایہ کاری،ٹرمپ کے انتخابی ایجنڈے کے وعدوں کی تکمیل کا،امریکی قومی مفاد کے دائرے میں معقول بندوبست کردے گی۔
سب سے اہم سیاسی فائدہ امریکا اور اسرائیل نے ریاض کانفرنس کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں عرب اسرائیل تنازعے کے غیر اعلانیہ خاتمے کی صورت حاصل ہوا ہے۔مشرق وسطیٰ میں اب سعودی عرب خلیج تعاون کونسل اور اس کے اتحاد بالواسطہ طور پر اسرائیل کے معاون ساتھی بن گئے ہیں۔کیا ریاض کانفرنس سے بالواسطہ طور پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا منطقی نتیجہ حاصل نہیں ہوا؟
کسی بھی انداز میں بڑی جنگ کے امکان کی نفی کے ساتھ یہ بھی تسلیم کہ لبنان سے بلوچستان تک،سنی شیعہ ریاستوں اور مسلح تنظیموں کے ذریعے بھیانک پراکسی وار شدت اختیار کرنے جارہی ہے۔اگر پاکستان اتحاد کا رکن رہا تو نہ چاہتے ہوئے بھی بلوچستان و ایران کی سرحد پر جنگی صورتحال۔مداخلت اور کشیدگی کا گراف بڑھے گا۔اسی ماہ ایران کی جانب سے متعدد مرتبہ پنجگور کی سرحد کے ساتھ مارٹر گولے داغے گئے ہیں جس سے کچھ افراد جاں بحق بھی ہو چکے ہیں یہ واقعات بلا سبب رونما نہیں ہورہے۔ان کے اسباب موجود ہیں اگر ان واقعات کی شدت وحدت بڑھتی ہے تو ایران کے ساتھ ہماری سرحد گرم بارڈر بن جائے گی۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ یہی زمینی خطہ گوادر بندرگاہ اور سی پیک پر انتہائی منفی اثرات مرتب کرے گا۔سیکیورٹی کی مخدوش صورتحال میں تجارتی قافلے کی آمدورفت کیلئے مشکلات آئیں گی۔
پاکستان کی طرح چین بھی دوہرے مخمصے میں ہے وہ پاکستان کے ساتھ اسٹریٹیجک پارٹنر شپ کے ساتھ سی پیک کے ذریعے مشرق وسطیٰ،افریقہ اور یورپی منڈیوں تک رسائی اور تجارتی سرگرمیاں اختیار کرنا چاہتا ہے ۔چین کے ایران کے ساتھ گہرے معاشی مفادات اور باہمی تجارتی سفارتی تعلقات ہیں۔بیجنگ نہیں چاہے گا کہ سی پیک یا گوادر کے آس پاس فوجی تناؤ یا کشیدگی ہو۔پاکستان کے گہرے ترقیاتی و تذویراتی مفادات کا بھی یہی تقاضا ہے۔
تیسری سطح پر روس جو ایران کے جوہری پروگرام کا شریک کار اور ایران کے ساتھ زمینی تعلق و معاشی مفادات کا حامل ہے۔خطے میں امریکی قیادت میں کسی بھی عسکری سرگرمی کے نتیجے میں ایران کا ساتھ دے گا۔روس بھی سی پیک سے اپنی وابستگی مضبوط بنانے کا حامی ہے۔تو کیا ریاض کانفرنس ایران مخالف محاذ آرائی میں امریکی معاونت کے باوجود کامیابی حاصل کرسکتی ہے؟
ایران نئی صورتحال میں اپنے جوہری پروگرام کو متحرک کرسکتا ہے۔اعلانیہ یا مخفی طور پر ٹرمپ بھی ایران کے ساتھ معاہدے کی منسوخی کا متمنی ہے۔نیا دباؤ جوہری معاہدے کا نکتہ آغاز ہوا تو ایران کی جانب سے تنسیخی کا اعلان امریکا کی اخلاقی فتح ہوگی۔ ایران پیشقدمی کے طور پر ایٹمی تجربے کرلے تو کیا شمالی کوریا کی مثال کے بعد ایران کو امریکا اس کی اتحادیوں کی جانب سے کسی خدشے کا حقیقی سامنا کرنے کا اندیشہ باقی ہے؟ یوں خطے کی صورتحال دھماکہ خیز ہو جائے گی اور عرب ممالک پہلے سے بھی زیادہ غیر محفوظ حالت میں امریکا سے مزید اسلحہ یا چھتری حاصل کرنے پر مائل ہوں گے یوں پٹرول سے حاصل شدہ سارا سرمایہ مغربی دنیا امریکا کو لوٹا کر پھر سے عرب کے صحراؤں کی خاک چھانتے نظر آسکتے ہیں۔
پاکستان کو مذکورہ متضاد کشتیوں میں کسی کا انتخاب کرنا ہوگا۔اقتصادی ترقی،گوادر اور سی پیک یا ریاض عسکری سرگرمی کی بربادی۔
گوادر تو پہلے ہی عربوں کے دل میں کاٹنے کی طرح چھبتا ہے اور اب وہ اعلانیہ فرما چکے ہیں کہ گوادر بندرگاہ قصہ پارینہ ہو جائے گا۔
دہشت گردی کے خلاف بننے والے اس اسلامی اتحادی کو افغانستان میں رکن ملک کی سلامتی و استحکام کیلئے ذمہ داریاں ادا کرنی پڑ سکتی ہیں اور وہاں حکومت مخالف مسلح جتھوں کے خلاف کارروائی کرنی پڑی تو کیا افغان طالبان کیلئے مسلم امہ کی عسکری مشنری کے خلاف جہاد جاری رکھنا ممکن ہوگا؟
چونکہ ریاض کانفرنس کے بعد امریکا اس فوجی اتحاد کا سرخیل ہوگیا ہے تو اب ان جماعتوں کا کیا بنے گا جو امریکا کا جو یار ہے غدار ہے کے نعروں کے ساتھ اپنی حیثیت قائم کرتی رہی ہیں۔شاید اب انہیں اپنے نعرے میں مندرجہ ذیل ترمیم کرنی ہوگی۔
امریکا کا جو یار ہے۔ہم کو اس سے پیار ہے
اگر ایسی ’’آٹھویں ترمیم‘‘مذہبی سیاسی بیانیے میں وجود نہ پاسکی تو اس کے نتائج بھی غیر مبہم ہونگے۔عربت ممالک سے ملنے والی مالی امداد و تعاون کی کھڑکی بند ہو جائے گی۔
ایران کو بدلتے حالات میں کشیدگی کے بڑھاوے سے گریز اور خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے والے ان اقدامات سے گریز کی پالیسی اپنانی چاہیے جس کے الزامات کار سے سامنا ہے۔
کم از کم پاکستان کے حالیہ مثبت کردار کو تقویت دینے کیلئے چاہ بہار بندرگاہ سمیت اپنی سرزمین سے بھارتی دراندازی،مداخلت اور سبوتاژ سے گریز کی راہ اپنانی چاہیے۔
تاریخ کے اس اہم موڑ پر پاکستان کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ اسے ایک طاقتور ریاست بننا ہے یا آزاد خود مختار خوشحال جمہوری ملک۔پہلا رستہ ریاض جبکہ دوسرا گوادر سے جڑے اقتصادی مراحل سے وابستہ ہے۔
فیس بک پر تبصرے