بلوچستان اسمبلی : آزاد ووٹر ہے نہیں مگر آزاد امید وار موجود ہیں

827

بنام پانامہ جو کچھ ہوا ہے وہ بدعنوانی کے تدارک کے علاوہ باقی دیگر غیر متعلقہ معاملات کیلئے موثر ثابت ہوا ہے۔ ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوا۔مختلف ریاستی ادارے جو آئین کے تحت قائم ہوئے ہیں، قانون ساز اداروں  کے مقابل صف آرا نظر آئے۔مختلف ذرائع سے سیاسی عمل میں قانون کی بالادستی کے نام پر ایسی مداخلت کی گئی جس نے ملکی آئین کی بعض دفعات کوموضوع بحث بنا دیا۔184/3،سوموٹو ایکشن اور الیکشن کمیشن کے اختیارات میں اعلیٰ سطحی عدالتی مداخلت جیسے اقدامات نے آئین پاکستان میں ریاستی اداروں میں قائم اختیارات کے توازن کودھندلا دیا ہے اور اب ملک کے بہت سے سنجیدہ حلقے آئینی سکیم میں ترامیم یا اختیارات کی ازسر نو تقسیم کیلئے اس میں مختلف النوع ترامیم کے خواہاں ہیں۔صدارتی طرز حکومت سے لیکر فوج کے آئینی اختیار پر مبنی  تجاویزقومی مباحثے کا حصہ ہیں جن کی شدت کم کرنے کے لیے ماہرین کی عارضی حکومت کا شوشہ بھی سیاسی فکر و عمل کو پراگندہ کرنے کے لیے چھوڑا گیاجس کی آئین پاکستان قطعی اجازت نہیں دیتا۔اس پہلو سے یہ اندازہ لگانا  ممکن ہے کہ متذکرہ  نوعیت کی تجاویز دینے والے نامعلوم حلقے شعوری اعتبار سے آئین کی طاقت اور اسکی  بالادستی کو اہم نہیں سمجھتے یا وہ خود کو بعض وجوہ کی بنا پر زیادہ مقدس اور ماورائے آئین سمجھنے کی انتہائی ناقص مگر بزغم خود شدید غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔مذکورہ بالا سطور حالیہ سالوں اور بالخصوص گزشتہ چھ ماہ کی سیاسی کشمکش اور بحرانی صورتحال کا مختصراً بیان ہے۔
ریاستی حکومت دو حصوں میں منقسم ہے۔اقتدار پارلیمنٹ کے پاس ہے جو کہ اصلاً بونا پارٹ ازم کا مظہر ہے۔ریاستی طاقت کے ذریعے اختیار کا مرکز اسلام آباد کے پڑوس میں ہے۔مذکورہ تقسیم سیاسی سفارتی اور قومی دفاع و سلامتی کے امور پر دو مختلف نظری دھاروں کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ستر سال سے روبہ عمل قومی سلامتی کی پالیسی کے اثرات نمایاں طور پر اس حکمت عملی کے نقائص ثابت کررہے ہیں، چنانچہ پارلیمانی جمہوری سیاسی حلقے اس میں عصری تقاضوں سے ہم آہنگ اور ملک کے وسیع تر مفاد میں ایسی تبدیلی کے متمنی ہیں جو ملک کی جغرافیائی سالمیت اقتدار اعلیٰ اور قومی خود مختاری کو محفوظ بنانے کے ساتھ خطے میں بہتری ہمسائیگی اور باہمی تعاون کے ذریعے متنازع امور حل کرکے امن،ترقی اور علاقائی و ملکی استحکام کیلئے ضروری تبدیلیاں چاہتے ہیں۔اس تناظر میں مسلم لیگ کا موقف کم و بیش ملک کی دیگر رائیٹ سنٹر ونگ کی جماعتوں سے زیادہ روشن،واضح اور معروف ہے۔پاکستان کا پارلیمانی نظام چونکہ دو ایوانی ہے، لہٰذا طویل المیعاد و خدشات کا بیانیہ قیاس آرائیوں کی صورت میں سامنے آیا کہ اگر موجودہ صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے سینیٹ کے نصف ریٹائر ہونے والے اراکین کے انتخابات ہوئے تو عوامی مقبولیت میں صف اول رکھنے والی جماعت2018 میں دو ایوانوں میں جمہوری عددی برتری حاصل کرلے گی۔ایسا ہونا بالذات اچھی بات تھی لیکن پیوستہ مفادات کے تحفظ کا تقاضہ اس کو مسترد کرتا ہے کہ کہیں قومی پالیسی میں تبدیلی کی مزاحمتوں کا تدارک بذریعہ آئینی ترامیم ممکن نہ ہو جائے ۔یہ ہے وہ پس منظر جس میں بعض دیگر اقدامات دھرنوں اور پارٹی تقسیم کیلئے مذہبی اشتعال انگیزی کے دباؤ کی ناکامی کے بعد،بلوچستان میں جہاں مسلم لیگ مضبوط سیاسی تنظیم سے محروم مفادات رکھنے والے روایتی سیاسی افراد کے اجتماع کا نام ہے ،اسے تحلیل کرنے کیلئے نامعلوم طاقتور افراد نے مطالبہ اور دباؤ ڈالا۔مگر غیر متوقع طور پر نواب ثنا اللہ زہری نے اس کی مزاحمت کی مگر مسلم لیگ قاف کے سرپر اقتدار کا تاج سجا دیا گیا۔مسلم لیگ نون کے اراکین اسمبلی بغاوت کرکے قاف لیگ کا قافیہ بن گئے اور یوں بلوچستان کے ذریعے مسلم لیگ نون کو ملنے والی متوقع سینیٹر کی تعداد سے محروم کردیا گیا۔نئی منتخب صوبائی حکومت نے وزیراعلیٰ کی امامت میں کراچی جا کر جناب آصف زرداری کے ساتھ مشاورتی اجلاس منعقد کیا جو سیاسی حوالے سے قابل گرفت نہیں لیکن تنظیمی حوالوں سے اس کا کوئی معقول منطقی جواز نہیں۔ جناب زرداری نے تبدیلی کا جو اعزاز اپنے نام لکھا تھا بعد ازاں اس کے منفی اور غیر اخلاقی سیاسی اثرات محسوس کرتے ہوئے ان کی جماعت کے صوبائی قائدین نے اس کی تردید شروع کردی۔حالانکہ کوئٹہ کے صحافتی و سیاسی حلقے الزام عائد کرتے ہیں کہ جناب قیوم سومرو نے اس عرصہ میں کوئٹہ قیام کے دوران تین ارب روپے کی “سیاسی سرمایہ کاری” کی ہے۔
بلوچستان اسمبلی سے مسلم لیگ کو نو منتخب سینیٹر کی بڑی تعداد سے محروم کردینے کے بعد جناب زرداری نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے اور اب شنید ہے کہ انہوں نے اپنی طرف کچھ مخصوص افراد کو آزاد امیدوار کی حیثیت میں سینیٹ کا انتخاب لڑنے کیلئے میدان میں اتارا ہے جن کی واضح خوبی و وصف ارب پتی ہونا ہے۔یہ معروضی صورتحال ہے اور اب سوال ہے کہ آئین پاکستان نے ملک کے ہر شہری کو بعض قانونی ضوابط کی تکمیل کے بعد کسی بھی سیاسی عہدے کیلئے انتخاب لڑنے کا حق دیا ہے۔اگر وہ اس انتخاب کی شرائط پورے کرتے ہوں تو۔دوسری طرف پولیٹیکل پارٹی ایکٹ اپنے اراکین اسمبلی کو پابند کرتا ہے کہ وہ کسی قانونی بل کی رائے شماری اور کسی عہدے کے انتخاب یا عدم اعتماد کیلئے پیش قرارداد پر پارٹی قیادت کے فیصلے پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔
پہلی صورت اگر پی پی کو بلوچستان اسمبلی سے آزاد حیثیت میں اپنے پسندیدہ افراد کو انتخاب میں حصہ لینے کا حق تفویض کرتا ہے تو عین اسی لمحے پولیٹیکل پارٹی ایکٹ اسے اس حق سے محروم کردیتا ہے کیونکہ بلوچستان اسمبلی میں ایک بھی آزاد رکن اسمبلی نہیں جو ذاتی حیثیت میں کسی کو ووٹ دے سکے۔یہ ایکٹ تمام اراکین کو قانوناً پابند کرتا ہے کہ وہ پارٹی کے نامزد امیدواران کو ہی ووٹ دیں تو دریں صورتحال،پیپلز پارٹی کی آشیرباد رکھنے والے بظاہر آزاد امیدوار کن ارکان صوبائی اسمبلی پر انحصار کرکے سینیٹ کے انتخاب میں حصہ لیں گے اور کامیابی کی امید رکھیں گے؟
اگر محتاط انداز میں بات کی جائے اور تسلیم کیا جائے کہ ایسے امیدواروں کو اراکین صوبائی اسمبلی،رقم کے بدلے ووٹ نہیں دیں گے تو بھی یہ سوال موجود رہتا ہے کہ مذکورہ اراکین اسمبلی ایسا کرتے ہوئے پاکستان کے رائج قانون کی سنگین خلاف ورزی کا ارتکاب کررہے ہوں گے۔اس صورتحال کو بلوچستان اسمبلی میں سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے قدرے نرم لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا مذکورہ امکانی و قیاسی صورتحال کو بروئے کار لانے کیلئے راستہ دے دیا جائے یا اسے مسترد اور ناقابل قبول سمجھتے ہوئے اسکی مزاحمت کی جائے؟
میری رائے مزاحمت کے حق میں ہے لیکن میں سمجھ سکتا ہوں کہ سرے دست اس میں عدلیہ کی مداخلت ممکن نہیں تو دوسری طرف فی الفور قانون سازی بھی ناممکن ہے۔ہاں البتہ ایک رستہ ایسا ہے جو شاید کارگر ثابت ہوسکے اور وہ یہ ہے کہ سپیکر بلوچستان اسمبلی انتخاب شروع ہونے سے قبل  رولنگ دے کر تمام آزاد امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کردیں کیونکہ بطور آزاد امیدوار  اس الیکٹرول کالج میں کوئی آزاد ووٹر  نہیں ہے،چنانچہ ان کا شریک انتخاب ہونا اور پھر جیت جانا اسمبلی کے استحقاق کے منافی ہوگا، نیز  جو اراکین اسمبلی ایسے آزاد امیدواروں کو ووٹ دیں گے تو وہ اپنی پارٹی کے ڈسپلن اور فیصلے کی قانونی خلاف ورزی کے بعد الیکشن قواعد کی بنا پر اپنی اسمبلی رکنیت سے محروم ہوسکتے ہیں۔ پھر نااہل ہوجانے والے ارکان کا منتخب کردہ سینیٹر کیلئے اہل امیدوار یا سینیٹر قرار پاسکتا ہے۔ بادی النظر میں  اس نوعیت کا عمل منتخب ہونے والے آزاد سینیٹرز کی آئین کی دفعہ62-63 کے تحت صادق و امین نہ رہ جانے کی وجہ سے  نااہلیت کی قانونی بنیاد مہیا کرتا ہے۔لہٰذا ملک کو آئینی و سیاسی بحران اور بلوچستان اسمبلی کے وقار کو مجروح ہونے سے بچانے کیلئے پیشگی اقدام کے طور پر سپیکر اسمبلی سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں بلوچستان اسمبلی سے کسی بھی شخص کو بطور آزاد امیدوار حصہ لینے سے نااہل ہونے کی رولنگ دیں۔ اگرسپیکر نے ایسا کیا تو مجھے یقین ہے ان کا نام ملک کی سیاسی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا اور تاریخ میں زندہ و تابندہ رہنے کیلئے جوانمردی سے فیصلہ و اقدام ہی واحد زینہ ہوتا ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...