راؤ انوار کیوں پیش نہ ہوئے؟

848

آج کل توہین  عدالت کا چرچا عام ہے۔ کچھ اس جرم میں جیل  بھی پہنچ گئے ہیں۔ توہین  عدالت ہوتی کیا ہے؟ یہ ہوتی کب ہے؟ شاید جب ریاستی ادارے ریاست کے ایک بنیادی ستون عدلیہ سے تعاون کرنا چھوڑ دیں تو پھر توہین  ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ نظر کیوں نہیں آتی؟ شاید اس وجہ سے کہ جو یہ سب کرتے ہیں وہ خود بھی نظر نہیں آتے۔ شاید اس کا سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ جس کی توہین  کی جاتی ہے وہ نظر میں رہتا ہے۔باقی وہ کہتے ہیں کہ ناں کہ آنکھ اوجل پہاڑ اوجل۔

راؤ انوار ملیر کا ایک “بے گناہ” معطل پولیس ایس ایس پی ہے۔ نقیب اللہ محسود قتل اس کے سر لگا تو کراچی سے اسلام آباد تک پہاڑوں کے سروں کے سر کاٹتے اور ہوا کے سینوں کو چیرتے ہوئے فیض آباد کے فرضی مگر محفوظ پہاڑوں کے پیچھے آ چھپا۔ توہین عدالت کا مرتکب ملزم جو ایک قتل کیس میں مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں واقع ملک کی سب سے بڑی عدالت کو مطلوب ہے۔صبح سویرے اس روپوش افسر کی جھلک کو ترستے میڈیا کیمروں نے عدالت کے ہر داخلی دروازے پر ڈیرے ڈال دیے۔ احاطہ عدالت میں صحافیوں کی بڑی تعداد موبائل کے کیمروں پر انگلی دبا کر اس خاص افسر کا انتظار کر تی رہی۔ ایک دوسرے سے بات ضرور کر رہے تھے، لیکن نظریں ہر آنے والی گاڑی اور اس سے اترنے والے شخص پر مرکوز تھیں۔ ایسے میں آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ تشریف لائے تو عدالت کی پارکنگ سے ہی موبائل تھامے صحافیوں نے انہیں گھیرے میں لے لیا۔ سوالات کی بوچھاڑ میں نمایاں آواز تھی کہ کہاں ہیں راؤ انوار؟ کیا آج وہ عدالت کے سامنے پیش ہو جائیں گے؟ مسکرانے کے علاوہ آئی جی کر بھی کیا سکتے تھے؟ جب جواب نہ ملا تو موبائل کیمرے آئی جی کے اتنے قریب پہنچ گئے جیسے کہ آواز گلے سے نکلنے سے پہلے ہی کیچ کر لیں گے۔

جواب آیا نہ راؤ انوار۔۔

خوش قسمت معطل پولیس افسر کے بارے میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے نام لے کر دریافت کیا کہ راؤ انوار صاحب کہاں ہیں؟ اس کے بعد جو کچھ ہوا شاید توہین اسے ہی کہتے ہیں۔ یہ خیال اس وقت درست ثابت ہوا جب راؤ انوار کو توہین  عدالت کا نوٹس جاری کر دیا گیا۔ ریاست کے اندر کام کرنے والے تقریباً تمام انٹیلی جنس اداروں کو ہدایت کی گئی کہ وہ اپنی آزادانہ رپورٹ پیش کریں کہ راؤ انوار ابھی تک گرفتار کیوں نہیں ہو سکا؟ ان اداروں کو پولیس کی مدد کے بھی احکامات جاری ہوئے۔ شاید راؤ انوار کو تلاش کرنے سے پہلے ایسے میزبانوں کو تلاش کرنا ضروری ہے۔ ملک کے سب سے مضبوط ادارے اگر یہ فریضہ انجام نہ دے سکے تو پھر شاید یہ ریاست کی بھی توہین  ہو گی۔ اگر توہین  نہیں ہوتی تو چند ایسے عناصر کی جو ان اداروں میں روپوش ہیں اور ریاست سمیت سب کا منہ چڑارہے ہیں۔

توہین  کس کی ہوئی ہے؟ توہین  کس نے کی ہے؟ عدالت عظمیٰ کے کمرہ نمبر ایک میں  نقیب اللہ محسود کے والدبیٹے کے قاتل کی آج گرفتاری کی امید دل میں لیے موجود تھے مگر وہ  ان سوالات پر غور کرتے ہوئے  دیگر قبائلی عمائدین کے ہمراہ سپریم کورٹ سے  ناکام لوٹے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...