پاک سعودی تعلقات: پاکستان کے مفادات کو نقصان نہ پہنچائیں

1,561

دو روز قبل اس اعلان کے ساتھ ہی کہ مزید پاکستانی فوجی ٹریننگ کے لیے سعودی عرب بھیجے جائیں گے،ملک بھر میں  ایک شور شرابا شروع ہوگیا ہے۔ سینیٹ کے چئیرمین نے اس حوالے سے وضاحب طلب کر لی ہے اور کئی ممبران مثلا شیریں مزاری اور فرحت اللہ بابر وغیرہ کے تنقیدی بیانات بھی سامنے آرہے ہیں۔

ہمارے لبرل دانشور ایک طرف تو معروضی حقائق کی بات کرتے ہیں اور جذباتی فیصلوں پر مبنی خارجہ پالیسی کو غلط قرار دیتے ہیں۔ مگر جب بھی پاک سعودی تعلقات کی بات آتی ہے تو وہ اپنے تعصبات کے اسیر ہوکر پاکستان کے ریاستی مفادات کو نظر انداز کرتے ہوئے سعودی عرب کے ساتھ دفاعی و اسٹریٹجک تعلقات کی مخالفت کرتے ہیں۔ ہماری گذارش صرف اتنی سی ہے کہ پاک سعودی تعلقات کو فرقہ واریت کی محدود اور متعصبانہ عینک سے دیکھنے کی بجائے پاکستان کے وسیع تر معاشی مفاد کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

مندرجہ ذیل گراف یہ ظاہر کرتا ہے کہ مالی سال 2016 میں پاکستان میں سب سے زیادہ زرمبادلہ پانچ اعشاریہ نو بلین ڈالرز سعودی عرب سے بھیجا گیا۔ اس کے بعد متحدہ عرب امارات سے چار اعشاریہ تین بلین ڈالرز اور خلیج تعاون کونسل کے دیگر ممالک سے  دو اعشاریہ چار بلین کا خطیر زرمبادلہ ارسال کیا گیا۔ ہماری ملکی ادائیگیوں کے توازن میں یہی رقوم سب سے اہم کردار ادا کرتی ہیں اور پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر اسی رقم سے مستحکم رہتے ہیں۔ اگر یہ رقم نہ ہو تو ہمیں مستقل آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑیں مگر وہ بھی مدد کے لیے آگے نہیں آتا جب تک اس بات کا یقین نہ ہو کہ قرضے کی وصولی کیسے ممکن ہوگی۔ اب قرضہ مقامی وسائل سے تو ادا ہونے سے رہا کہ ہمارے محصولات تو ٹیکس دینے والوں کی شرمناک حد تک کم تعداد کی وجہ سے بہت ہی کم ہیں۔ سو جو قرضہ ہم لیتے ہیں وہ بھی اس اعتماد پر ملتا ہے کہ ملک میں ہر سال خطیر زرمبادلہ ان ممالک سے آتا ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ و برطانیہ سے آنے والی زرمبادلہ کی رقوم خلیجی ممالک سے کہیں کم ہیں۔

ایک لمحے کے لئے فرض کریں کہ ان ممالک سے آنے والی یہ رقوم کسی پالیسی کی تبدیلی کی بناء پر جس کا تعلق ہمارے ریاستی و قومی رویے سے ہو، کم ہو کر نصف رہ جائیں تو ہم کس قسم کی معاشی گراوٹ کا شکار ہوں گے؟ خلیجی ممالک سے آنے والے زر مبادلہ کے بارے میں یہ بھی پیش نظر رہے کہ یہ محض وہ اعدادوشمار نہیں ہیں جو بظاہر نظر آتے ہیں۔ معیشت سے آگاہ لوگ یہ جانتے ہیں کہ ان رقوم کو پاکستان میں بیرون ملک رہنے والے افراد کے خاندان فوری نوعیت کے خرچوں کے علاوہ مڈ ٹرم اور لانگ ٹرم انوسٹمنٹ میں بھی بدل دیتے ہیں۔ ہمارا رئیل اسٹیٹ شعبہ اس طرح کی انوسٹمنٹ سے بہت فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس ساری سرمایہ کاری کی درمیانی مدت تک ظہور پذیر ہونے والی قیمت کو بھی اگر شامل کیا جائے تو یہ اعدادوشمار کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں۔  یہ ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بنتی ہے۔

عام طور پر یہ تاثر ہے کہ سعودی عرب سے پاکستان میں صرف مساجد و مدارس کے تعمیر و ترویج کے لئے رقوم بھیجی جاتی ہیں۔ یہ ایک حد درجہ مبالغہ آمیز بات ہے۔ دراصل پاکستان میں سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی معاشی بنیادوں پر ٹھوس اور سنجیدہ کام ہوا ہی نہیں۔ ہمارا معاشی مفاد صرف وہاں مقیم پاکستانیوں کے بھیجے گئے زر مبادلہ تک محدود نہیں بلکہ سعودی عرب سے آنے والی امداد جو دفاعی سیکٹر سے متعلقہ ہے اس کا کوئی حساب معلوم ہی نہیں ہے۔ ہماری اسلحہ ساز و دفاعی پیداوار کے اداروں کی مصنوعات سعودی عرب بلاواسطہ یا بالواسطہ (دیگر ممالک کے لئے) خریدتا ہے۔ سعودی انوسٹمنٹ ملک میں پبلک سیکٹر کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ سیکٹر میں بہت نمایاں ہے۔ صرف اسلام آباد میں آپ دیکھیں کہ سعودی پاک ٹاور ہو یا پھر سینٹورس  سب سعودی انوسٹمنٹ ہے۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے کئی اور پراجیکٹس ہیں جن کا تعلق سعودی اور امارات کی انوسٹمنٹ سے ہے۔

خدارا ! ایرانی عینک سے پاکستان کو دیکھنا چھوڑ دیں اور اس ملک کے مفادات کا خیال کریں۔ جس طرح ڈالرز اور پونڈز کی صورت میں آنے والا زرمبادلہ عیسائی و یہودی نہیں ہوتا بالکل اسی طرح سعودی عرب و امارات سے آنے والی رقوم بھی وہابی نہیں ہیں۔ یہ پاکستان کے مفاد میں ہے کہ ہم سعودی عرب کے ساتھ اپنے معاشی ،دفاعی اور اسٹریٹجک تعلقات کو مزید پروان چڑھائیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...