پاک افغان دشمنی، کرکٹ اورمڈل کلاس
پاکستان اورافغانستان کے درمیان مخاصمت اورتعصب مڈل کلاس کی پیداوارہے۔ اورجب دونوں ملکوں میں حالیہ کشیدگی پیدا ہوئی تواس کوفروغ حاصل ہوا
بی بی سی کے مطابق افغانستان میں پاکستان کے ساتھ مجوزہ کرکٹ میچوں کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیاہے۔ بی بی سی نے سرخی لگائی کہ افغان کہتے ہیں کہ ’دشمن کے ساتھ کرکٹ نہیں کھلیں گے‘۔اس سے پہلے خبرآ ئی تھی کہ پی سی بی کے اعلیٰ عہدیداران اورافغانستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شکراللہ عاطف مشال کے درمیان مستقبل میں دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ کی سطح پرتعاون بڑھانے پراتفاق ہواتھا۔
دونوں ممالک کے درمیان جاری تناومیں اب کچھ کمی آگئی ہے اورپاکستان نے افغانستان کوجانے والے راستوں کوکھول دیاہے۔ حال ہی میں دونوں میں ممالک میں تعلقات بہتری کی طرف مائل دکھائی دئیے تودونوں ٹیموں کے درمیان دوستانہ ٹی 20میچوں کروانے پراتفاق ہواجس میں سے ایک ایک میچ دونوں ممالک میں کھیلے جانے کاپروگرام بنایاگیاتھا۔ یونس خان نے بھی عندیہ دیاتھاکہ وہ افغان کرکٹ ٹیم کی کوچنگ کریں گے۔
بی بی سی کے مطابق سوشل میڈیا پر’بوکرکٹ ود پاکستان’‘کا ایک ٹرینڈ شروع ہواہے۔ جس میں پاکستان کے ساتھ کرکٹ میچوں کے انعقادکے پروگرام پراس قدرتنقید کی گئی کہ افغان کرکٹ بورڈ کے ترجمان فریدہوتک کودفاعی پوزیشن اختیارکرنی پڑی۔ اس نے کہاکہ ایساکوئی معاہدہ نہیں ہوا اوراگرہوگاتوافغان عوام کی خواہشات کومقدم رکھاجائےگا۔
افغانستان کا پوراسماج 1980کی دہائی سے بیرونی مداخلتوں، قبضوں اورخانہ جنگی کاشکارہے۔ لیکن اس کے باوجود اس ملک میں ایک مڈل کلاس موجودہے۔ یہی نہیں بلکہ مغربی ممالک کی طرف سے افغان جہاد کو1980کی دہائی میں سپورٹ کرنے کی وجہ سے ایک بہت بڑی تعدادمغربی ممالک گئی اوران میں سے کچھ واپس وطن بھِی لوٹے ہیں۔ یہ کوئِی بہت بڑی اکثریت نہیں۔ افغانستان ایک تباہ حال اوربرباد ملک ہے اوراس کی معیشت کازیادہ انحصار بیرونی امدادپرہے۔ افغانیوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان اوردیگرپڑوسی ممالک بھی گئی اوران میں سے ایک خاصی تعداد میں مڈل اورپروفیشنل کلاس کی حیثیت سے تعلیم اورکاروبارمیں سامنے آئی ہے۔ مڈل کلاس کی بڑی تعداد شہروں میں رہائش پذیرہےاوراس کاانحصاربڑی حدتک انٹرنیشنل ایڈ پروجیکٹوں اوراین جی اوزپرہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ان پروجکیٹوں میں کام کرنے والے 2000تا 4000ڈالرزماہانہ کمانےوالے اپرمڈل کلاس کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ورلڈبنک کے مطابق ایک افغانی کی فی کس آمدنی بہت ہی کم ہے۔ البتہ ان پروجیکٹوں میں کام کرنے والے شہری اوردیہی افرادکی آمدنیوں میں کافی تفاوت ہے۔
کرسچئن سائنس مانیٹرکی رپورٹ کے مطاب 2001کےبعد سے افغان مڈل کلاس کل آبادی کا 10 تا 15فی صد پرمشتمل ہے۔ یوں اس رپورٹ کے مطابق کوئی 27.5 ملین افراد آبادی میں میں کوئی 10-15فی صد مڈل کلاس ہے۔ یوں 2013 کی اس رپورٹ میں 2.75سے 4.13ملین افغان اس میں شامل تھے۔
اوریہی مڈل کلاس ہے جو پاکستان کے خلاف انتہائی بغض وتعصب رکھتی ہے۔ حالانکہ ان میں سے اکثرخود پاکستان میں پلے بڑھے ، تعلیم حاصل کی مگراب یہ پاکستان کواپنی تمام بربادی کاذمہ دارسمجھتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں پاکستان اورافغانستان کے درمیان جب کشیدگی بڑھی تواس مڈل کلاس نے پاکستان کے خلاف خوب واویلاکیا۔
لیکن یہ کل آبادی کا ایک بہت ہی قلیل گروہ ہے۔ افغانستان کی آبادی کابڑاحصہ دیہات میں رہتاہے اورانہتائی پسماندہ زندگی گزارنے پرمجبورہے۔ افغانیوں کی پہلی نسل پاکستان آئی تویہ جنگ کے شکارافراد کیمپوں تک محدودتھے لیکن بعدازاں یہ پاکستان کے دیگرحصوں اوربڑے شہروں جیسے کراچی تک پھیل گئے۔ تجزیہ کارسباوون بنگش کے مطابق افغانیوں خاص کر غلزئی قبیلے یا سلیمان خیل نے کراچی اورپاکستان میں بڑی جائیداد اوردولت بنائی ۔ اوریہ زیادہ ترگلبدین حکمت یارکی حزب اسلامی کے ہمدردتھے۔ گلبدین جب طالبان کے بعد منظر سے اوجھل ہو گئے تویہ کاروبار کی طرف متوجہ ہوئے اورجہاد سے دوری اختیار کی۔ یہ دراصل خود بھی طالبان سے طبقاتی طورپرسہمت نہ تھے۔ دوعوامل اہم ہیں ایک تویہ کہ سابق روس کے خلاف ’مجاہدین‘ کوسپورٹ کرنے والی مڈل کلاس افغان جنگ سے اب تنگ ہے۔ دوسری یہ کہ حالیہ دنوں میں جب پاکستان میں افغان مہاجرین کے خلاف مہم چلی تواس کلاس کوشدیدمالی نقصان بھی ہوا۔ کیونکہ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے زیادہ جائیدادبھی بنائی اوراب اسے اونے پونے قیمتوں پربیچنے پرمجبورہوئے۔اب جبکہ گلبدین حکمت یار سیاست میں آگئے ہیں تووہ افغانستان کے پشتون مڈل کلاس کی نسلی سطح پرنمائندگی کی طرف جھکاؤرکھتے ہیں۔ اس طرح پشتون مڈل کلاس بھی اب پاکستان پرتنقید کرتی ہے اورسمجھتی ہے کہ پاکستان ہی طالبان کومسلح کرتاہے اوراس کی فوجی ومالی مدد کرتاہے۔ اس معاملہ میں یہ غیرپشتون جیسے تاجک اورازبک کے قریب آگئے ہیں۔ یوں یہ شہری مڈل کلاس افغان ہیں جوسوشل میڈیا پرسرگرم ہیں اورعام طورپرانہی کے خیالات ہمارے سامنے آتے ہیں لیکن یہ کوئی بڑی اکثریت نہیں۔
اس طرح پاکستان میں بھی مڈل کلاس عناصرمیں افغانستان اورافغانیوں کے خلاف شدیدتعصبات پائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک بہت ہی قلیل تعدادمیں پشتون قوم پرستوں کوچھوڑکرمڈل اورپرفیشنل کلاس کی پشتون اکثریت افغانوں کوپاکستان میں ہرقسم کے جرائم کی جڑسمجھتے ہیں۔ ان کااستدلال ہے کہ افغان ہماری مدد اوراحسانات کوبھول کربھارت کے ہمنواہوگئے ہیں اورپاکستان میں تخریب کاری اوربدامنی کوفروغ دینے میں مصروف ہیں۔ یہاں تک اس قسم کے دلائل آج کل پشتون قوم پرست تحریک کے سابق اراکین اورجماعت اسلامی کے ہمدرد تک دیتے ہیں۔
اس طرح دیکھاجائے پاکستان اورافغانستان کے درمیان مخاصمت اورتعصب مڈل کلاس کی پیداوارہے۔ اورجب دونوں ملکوں میں حالیہ کشیدگی پیدا ہوئی تواس کوفروغ حاصل ہوا۔ امریکہ اورانڈیاکے پاکستان کے بارے میں آئے دن بیانات اورافغان طالبان تحریک کے پیچھے مبینہ پاکستانی ہاتھ کاپروپیگنڈہ کے تناظرمیں افغان مڈل کلاس پاکستان کوروزاوّل یعنی 1980سے بیرونی ممالک کی امدادسے افغانستان میں جہاد کوفروغ دینے کی ذمہ دارسمجھتی ہے۔ ان کااستدلال یہ ہے کہ پاکستان نے افغانوں کےخون قیمت پرخود کومستحکم کیاہے۔ یہ افغانستان میں جنگ کے نام پرامداد اورقرضہ حاصل کرتاہے اوردوسری طرف افغانستان میں خون ریزی کوفروغ دیتاہے۔ کچھ افغان ڈیورنڈ لائن کوماننے سے انکاری ہیں۔ اورپاکستان پرپشتون علاقوں کوگھیرنے کاالزام بھی دیتے ہیں۔ یہ پاک افغان سرحد پرکڑی نگرانی اورچیک پوسٹوں کومسترد کرتے ہیں۔ افغان مڈل کلاس میں یہ سوچ بڑی تیزی سے فروغ پارہی ہے کہ امریکہ اورانڈیا افغانستان کوترقی دیناچاہتے ہیں جبکہ پاکستان سعودی عرب،اوراب چین اورروس کے ساتھ مل کرافغانستان میں بدامنی اورجنگ کوفروغ دیناچاہتے ہیں۔ ان کے بقول پاکستان اسٹرٹیجک پالیسی کونقصان پہنچنے کی وجہ سے یہ افغان طالبان کی مددکرتاہے۔
پاکستان کے خلاف پروفیشنل اورمڈل کلاس کے غم وغصہ میں حالیہ دنوں کے دوران سرحد پرکشیدگی اورملکی سطح پاک افغان تعلقات میں تناؤاوربارباربندش، افغان مہاجرین کے خلاف حکومت پاکستان کی کارروائی اورخطے کی سطح پربننے والے نئے اتحادات اورمعاہدات کے بعد مفادات اورتعلقات کاازسرنوتعین اوراس کے نیتجہ میں رویوں میں رونماہونے والی تبدیلیاں ہیں۔
فیس بک پر تبصرے