اختیار جواز کےلیے سرگرداں
2017سے پاکستان میں جاری سیاسی چپقلش کی شدت میں اب روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔احتساب کے دلکش عوامی مقبولیت کے حامل نعرے کے ذریعے بدعنوانی کے خاتمہ دراصل مقتدر سیاسی دھڑے کے اندرونی تضاد کی کہانی ہے۔اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اس سے الگ ہونے والی پڑوسی یورپی ملکوں میں روسی فیڈریشن کے اہم ہمسائے یوکرائن میں ماسکو مخالف صف بندی کا آغاز ہوا۔
جیف مگن کے الفاظ ہیں:
’’2004ء نارنگی انقلاب کے بعد،یوکرائن میں امرا کے حریف ٹولوں کے درمیان ہونے والی تگ ودو،بظاہر تو ایک عوامی انقلاب نما عمل تھا۔لیکن فی الواقع یہ اشرافیہ کے ایک حصے کی دوسرے سے لڑائیوں کیلئے ایک جنگی ترانے سے زیادہ کچھ نہ تھا‘‘۔
پاکستان کی صورتحال متذکرہ بیان کی مثالی توصیح ہے جہاں امرا و اشراف کے مختلف حصوں کے علاوہ مقتدر اشرافیہ کے مختلف ادارہ جاتی قوتوں کے بیچ بالادستی کی کشمکش کی بھی حامل ہے جسے میں نے پانامہ لیکس کے بعد سپرد قلم کئے مضامین میں’’اقتدار و اختیار کی کشمکش‘‘قرار دیا تھا۔
کشمکش کی کہانی،ڈرامہ نگار و ہدایت کار کی مرضی کے مطابق آگے بڑھ رہی ہے البتہ کبھی کبھار،اسٹیج ڈرامہ کے سامعین کی داد و خواہش پر کرداروں کے مکالمے بدل بھی جاتے ہیں۔
بنیادی نقظہ جسے ملحوظ خاطر رکھنا از بس ضروری تھا لیکن اکثریتی صحافتی و دانشور حلقوں میں اسے ثانوی حیثیت دے دی گئی ہے یعنی پاکستان کی عالمی سطح پر متعارف کرائی گئی غیر مبہم شکل۔قیام سے اب تک خدوخال میں بتائی گئی یقین دہانی کہ پاکستان ایک آئینی جمہوری ملک ہوگا یا ہے،آئین نے جمہوریت کے ڈھانچے کا بھی تعین کدیا گو کہ یہ بعد از خرابی بسار1973 میں ہوا۔جب پہلی منتخب شدہ دستور ساز اسمبلی نے باقی ماندہ پاکستان کے سماجی،ثقافتی ،جغرافیائی اور قومیتی سانچے کی معروضیت اور تاریخی سیاسی جدوجہد کے حاصلات کے مطابق ملک کو پارلیمانی،دو ایوانی جمہوری ریاست میں تشکیل کیا تھا۔آمرانہ ادوار کے دوران اس کی نفی و انحراف کے علاوہ جب بھی عوام کی رائے پہ استوار حکمرانی قائم ہوئی اس نے پارلیمانی طرز حکمرانی کی تائید ہی کی ہے مگر شومئی قسمت۔ریاست کی تشکیلی دستاویز،آئین کے برعکس طاقتور اداروں کے مابین اختیار اور بالادستی کی کھینچا تانی مسلسل جاری ہے۔کبھی صدارتی طرز حکمرانی کا مطالبہ نما نعرہ بلند کیا یا کرایا جاتا ہے اور کبھی عسکری ادارے کیلئے آئینی کردار و استحقاق کا مطالبہ سامنے آتا۔جسے نیشنل سیکیورٹی کونسل کا نام دیا جاتا ہے،اس مطالبے کے عقب میں دلیل دی جاتی ہے کہ شاید یہ فیصلہ ملک میں بار بار لگنے والے مارشل لاؤں کا خاتمہ کردے گا بس یہ تسلیم نہیں کیا جاتا کہ یوں مستقل طور پر آئین کے تحت قائم شدہ ایک طاقتور ادارے کو وہ بالادستی مل جائے گی۔یوں دائمی مارشل لائیت قائم ہو جائے گی۔سوال یہ ہے کہ کیونکر ایک ایسے ادارے کو جو آئین کی منشا اور اطاعت کے تحت قائم ہو اور اس کے معزز ارکان سرکاری ملازمت اختیار کرتے ہوئے ملک کی سرحدوں اور آئین کی بالادستی کا حلف اٹھاتے ہیں پھر انہیں سرکاری ملازمین کو منتخب پارلیمنٹ کا فیصلہ،حصہ بنا لیا جائے کیا یہ تجویز اس بنیادی حلف نامے سے انحراف کے مترادف نہیں۔جس کا سطور بالا میں حوالہ دیا گیا ہے؟
عدالتی فعالیت کی تائیدی دلیل میں تسلیم کرلیا جاتا ہے کہ انتظامی ادارے اور خود پارلیمان دائمی طور پر اپنی نااہلیت ثابت کرچکے ہیں جس سے مملکت کے امور درست انداز میں چلانا مشکل یا ناممکن ہوگیا ہے چنانچہ اس خلا کو عدالتی فعالیت جیسی مداخلت کے ذریعے پر کرنا عملی صورتحال میں ناگزیر ہے۔بلاشبہ انتظامی مشنری میں بھیانک خامیاں ہیں۔پارلیمان بھی اپنی کوتاہیوں اور ناقص کارکردگی کی انفرادی مثالوں کے ذریعے اس کی ذمہ دار ہے لیکن اسے ادارے کی نااہلی یا دائمی خلا تسلیم کرکے آئین و قانون کی حدود میں دخل اندازی کرنا یا نظرثانی کے ودلعیت شدہ آئینی استحقاق کو استعمال کرتے ہوئے خود قانون سازی و تنسیخ کا حق تسلیم کرانا۔پارلیمان کے کردار میں مداخلت کے مترادف نہیں۔تسلیم کیا جاتا ہے کہ عدلیہ آئین و قانون کے تابع رہ کر ہی انصاف دے سکتی ہے وہ قانون ساز ادارہ نہیں بلکہ ٓائین و پارلیمان کا تخلیق شدہ ریاستی ستون ہے۔بلاشبہ آئین عدلیہ کو آئین و قانون سازی میں پیدا ہونے والے تضاد کا جائزہ لینے کا حق دیتا ہے کیا اس شق کا مطلب،پارلیمان کے بنائے قانون کو منسوخ کرنے کے مترادف ہے؟ میری رائے جس کے درست و غلط ہونے کا مساوی امکان ہے عدلیہ کو قانونی سقم و تضاد کی نشاندہی اور اصلاح کیلئے مذکورہ قانون پر پارلیمان کو نظرثانی کرنے کیلئے کی جانب متوجہ کرنے تک محدود ہے بصورت دیگر تنسیخ قانون و آئینی دفعات کے عدالتی استحقاق کو تسلیم کرنے سے دفعہ چھ کی معنویت مبحولیت کی شکار ہو جاتی ہے۔
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دینے کے فیصلے کے بعد۔قانونی سوال پیدا ہوا تھا کہ دریں حالات میاں نواز شریف اپنی پارٹی قیادت کے بھی اہل نہیں رہے۔اس سوال پر پارلیمان نے اپنا آئینی کردار ادا کرتے ہوئے قانون میں آئین کے طے کردہ طریقہ کار کے مطابق ترمیم کی۔اس ترمیمی قانون کے بارے میں مختلف آرا ہوسکتی ہیں اسے پسند،ناپسند کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے،لیکن یہ طے ہے کہ ترمیم پارلیمانی طریقہ کار و اختیار کے مطابق عمل پذیر ہوئی ہے۔معزز عدلیہ نے اس قانونی ترمیم کا جائزہ لینا شروع کردیا ہے۔زیر سماعت مقدمے میں آئین کی دفعہ62ایف کی نااہلی مدت کے تعین کیلئے بھی عدلیہ سماعت کررہی ہے۔اس سے قبل نواز شریف کو نااہل قرار دیتے ہوئے پانچ رکنی یا تین رکنی بنچ نے قرار دیا تھا کہ اس شق میں نااہلی کی مدت طے شدہ نہیں۔لہٰذا عدلیہ نے پارلیمان سے اس سقم کو دور کرنے کی مابت توجہ مبذول کرائی تھی۔سوال یہ ہے تب معزز بینچ نے مدت کے تعین کرنے کی راہ اختیار کیوں نہیں کی تھی؟
اب دو اہم سوال عدالتی سماعت کے تناظر میں آئین و قانون سازی کے قانونی استحقاق کے پس منظر میں ابھر آتے ہیں۔
-1 عدلیہ پارٹی صدارت کیلئے قانون منسوخ کردے۔
-2 62۔ایف میں نااہلیت کی مدت طے کردے۔
سوال یہ ہے کہ پارٹی قیادت کیلئے نااہلیت کا مقدمہ سینیٹ انتخابات کے موقع پر سماعت کرنے کے کیا سیاسی مضمرات ہونگے؟
اگر مقتدر اشرافیہ کی جاری کشمکش کے اغراض و مقاصد و اقدامات مدنظر رکھے جائیں نیز بلوچستان اسمبلی میں جو کچھ ہوا اور اس کے عقب میں جن مقاصد و مفادات کی تکمیل ہوئی کیا اس خدشے سے صرف نظر ممکن ہے کہ عدلیہ،سینیٹ انتخاب سے دو چار روز قبل ترمیم قانون منسوخ کرکے مسلم لیگ کے تمام امیدواران کو سینیٹ کے انتخاب سے بے دخل کردے گی؟
مذکورہ بدگمانی،حالیہ فیصلوں و سماعتوں کے دوران لکھے اور بولے گلے کلمات میں جو ذرائع ابلاغ میں موضوع بحث بنے جو کتاب قانون کے برعکس افسانوی ادب سے مستعار لئے گئے یار پھر کچھ ایسے تبصرے تھے جو معزز عدلیہ و ججز کی غیر جانبداری کے منافی اور ان کے داخلی ذہنی عناد کے عکاس تھے۔عدلیہ کا احترام آئین و قانون کی بالادستی کے ساتھ مشروط ہے چنانچہ عوامی یا تجزیاتی تحریروں کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
آئین آزادی فکر و اظہار کی ضمانت دیتا ہے جو دفعہ5سے مربوط بھی سمجھی جائے تو بالذات شہری و ریاستی کے باہمی دو طرفہ رشتے و تعلق کی اساس ہیں۔آئینی بالادستی ہر کسی کیلئے لازم قرار دیتی ہے۔عدالتی فیصلے سے اختلاف کا مطلب لازمی نہیں کہ توہین ہو۔یہ متبادل سچ بھی ہوسکتا ہے۔
مسلم لیگ کو درپیش صوتحال میں دو اقدام فی الفور کرنے ہوں گے۔
الف،62ون ایف کے ابہام اور نااہلی کی مدت کے تعین کیلئے قومی اسمبلی میں ترمیم بل لائے جو184 کے تحت عدالتی سماعت و فیصلے کے خلاف انصاف کے تقاضوں کیلئے شہری کو اپیل کا حق و فورم مہیا کرے۔
ب،میاں نواز شریف سینیٹ انتخابات کیلئے پارٹی ٹکٹ جاری کرنے کے بجائے یہ حق جماعت کے سینئر نائب صدر کو تفویض کرکے اسے قائمقام صدر کے طور پر کام کیلئے موقع فراہم کردیں۔
کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف تحریک اور اسے نعرہ بازی یا چیف کے الفاظ میں جنگی ترانے کی قیود سے نکالنے کیلئے پانامہ میں شامل ان تمام افراد کے خلاف جدا جدا لیکن فوری مقدمات و تحقیق کا آغاز ہونا چاہیے۔دوسرا رستہ آزاد معیشت کے انتہائی بدعنوان اور بدبودار معاشی سانچے سے نجات کا تقاضہ کرتا ہے۔ایک منصوبہ بند،انسان دوست معیشت جس پر قانونی و اخلاقی سیاسی نظریاتی نگہبانی موجود ہو۔
کیا ہم حقیقی معنوں میں لوٹ مار سے نجات چاہتے ہیں؟آپ کا مثبت جواب ناگزیر طور پر افراد کے بجائے معاشی ڈھانچے کی نظری،تبدیلی کی تائید کا متقاضی ہوگا۔کیا آپ ایسا بھی چاہتے ہیں تو پھر مقتدر و اشرافیہ کے لفاظی جنگی ترانے کو مسترد کرتے ہوئے حقیقی طبل جنگ بجائیں۔
فیس بک پر تبصرے