عاصمہ جہانگیر اور سوشل میڈیا
یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہماری سماجی اقدار پر حملہ کیا گیا ہو ۔ عاصمہ جہانگیر سے پہلے جنید جمشید ، ڈاکٹر رؤتھ فاؤ ، ڈاکٹر شکیل اوج ، مولانا عبدالستار ایدھی ، مشال خان ، ملالہ یوسفزئی اور جنرل حمید گل سمیت مختلف شخصیات کی وفات کے موقع پر سوشل میڈیا پر ایسی زبان استعمال کی گئی جسے کوئی بھی مہذب معاشرہ قبول نہیں کر سکتا ۔ ان شخصیات پر مذہب اور قوم کے نام پر حملے کیے گئے ۔ عاصمہ جہانگیر کی وفات کے بعد سوشل میڈیا پر کچھ افراد کی جانب سے جس رد عمل کا مظاہرہ کیا گیا ،اس پر سنجیدہ حلقوں کی جانب سے گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ۔ باتوں کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ۔ آڈیو ، ویڈیو اور تصویروں کی ایڈیٹنگ کر کے مرضی کا “کانٹینٹ” تخلیق کیا گیا۔ اب تو یہ روایت بن چکی ہے من گھڑت ، بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی مواد تخلیق کیا جائے اور اسے سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلا دیا جائے ۔ اس مواد کا جب فریق کو علم ہوتا ہے تب تک اس کے خلاف ایک طوفان مچ چکا ہوتا ہے ۔
میرے سمیت کئی لوگ سوشل میڈیا پر اس جعلسازی کا شکار ہو چکے ہیں ۔ 2014 میں عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری نے اسلام آباد میں دھرنا دیا ہوا تھا ۔ ایک چینل نے مجھے پروگرام میں شرکت کے لیے بلایا ۔ اسٹودیو کے ساتھ ایک کمرہ ہوتا ہے جہاں سے اسٹوڈیو کو کنٹرول کیا جاتا ہے ۔ اسے ایم سی آر (ماسٹر کنٹرول روم ) کہا جاتا ہے ۔ میں اتفاقا سے وہاں داخل ہو گیا۔ سامنے اسکرین پر دیکھا توایک تصویر تھی جس میں علامہ طاہر القادری کو ایک مسیحی پادری کے سے جھک کر ملتے ہوئے دکھایا گیا تھا ۔ میں نے فورا پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ پروڈیوسر نے اینکر کا نام لیکر کہا ہے کہا انہوں نے دی ہے اور اسے ہم پروگرام میں نشر کر رہے ہیں ۔ وہ اینکر اس ملک کی نامی گرامی اور معروف شخصیت ہیں ۔ میں نے پروڈیوسر کو بتایا کہ یہ تصویر فوٹو شاپ کے ذریعے بنائی گئی ہے ۔ پروگرام میں چلائی تو مسئلہ کھڑا ہو جائے گا ۔ آپ کے دفتر کے قریب ہی ان کے ہزاروں مشتعل کارکنان موجود ہیں ۔ انہوں نے اسی وقت اینکر کو میرا بتا کر کہا کہ تصویر جعلی ہے جس کے بعد انہوں نے اسے نشر نہیں کیا ۔ تاہم یہی تصویر تقریبا تین ہفتے پہلے پی ٹی وی پر نشر ہو گئی جس پر عوامی تحریک نے احتجاج بھی کیا ۔ لکھنے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ کس طرح خبر کو صبح و شام پرکھنے کے عادی افراد بھی اس جعل سازی کا شکار ہو رہے ہیں ۔
ایک سروے کے مطابق سوشل میڈیا پر دوسے تین فیصد لوگ مواد تخلیق کرتے ہیں جبکہ باقی لوگ اس مواد کو شئیر کرتے ہیں یا نقل کرتے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر بڑی تعداد میں جعلی اکاؤنٹس بھی بنے ہوئے ہیں جن سے اکثر جعلی مواد تیار کر کے سوشل میڈیا پر پھیلایا جا تا ہے ۔ جعل سازی کی انتہا یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر مذہبی ، سیاسی جماعتوں ، اہم شخصیات اور مختلف اداروں کے نام سے بھی جعلی پیجز بنائے گئے ہیں۔ ان جعلی پیجزکو لاکھوں لوگوں نے لائیک کیا ہوا ہے۔ جونہی کوئی پوسٹ ان پراپ ڈیٹ کی جاتی ہے ، ہزاروں لوگوں کے پاس اس کا نوٹیفیکیشن چلا جاتا ہے اور لوگ اس جعلی اور من گھڑت مواد کو سچ سمجھ کر شئیر کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اصلی تصویر کے ساتھ مرضی کا عنوان دیکر نشر کیا جاتا ہے ۔ مظاہرے کی تصویر کے آگے مطالباتی بینر پر مرضی کا بیان پیسٹ کر کے سوشل میڈیا پر پھیلا دیا جاتا ہے ۔ قائد اعظم اور علامہ اقبال کی تصویریں لگا کر من پسند بیانات اور اشعاران قومی رہ نماؤں سے منسوب کر دیے جاتے ہیں ۔
کئی ٹی وی اینکرز اور اہم شخصیات یہ شکوہ کر چکی ہیں ان کا فیس بک پر اکاؤنٹ نہیں لیکن ان کے نام سے بنائے گئے پیجز پر لاکھوں لوگ موجود ہیں ۔ ایک ٹی وی چینل کے نام پر جعلی پیج بنا ہوا تھا جسے 45 لاکھ لوگوں نے لائیک کیا ہوا تھا ۔ حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں قطر اور سعودی عرب کی لڑائی سے لیکر شوہر بیوی کے جھگڑوں تک “سوشل” میڈیا اپنا کردار ادا کر رہا ہے ۔
سوشل میڈیا ایک ایسا اندھا میزائل ہےجس کے بارے میں کسی کو علم نہیں ہوتا کہ یہ کہاں سے فائر ہوا ہے اور کہاں جا کر گرے گا ، اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے ۔ بیس سے زائد جعلی فتوے اس وقت سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں جو ملک کے ایک بڑے مدرسے کے لیٹر پیڈ پرکمپوز کر کے سوشل میڈیا پر پھیلا دیے گئے ۔ وزیراعظم کے مشیر عرفان صدیقی سے منسوب جعلی کالم “ملا فضل اللہ کی زندگی کے روشن پہلو ” سوشل میڈیا پر لاکھوں کی تعداد میں شئیر کیا گیا ۔ حیران کن طور پر ایک معروف سابق سینیٹر نے بھی اس کالم کو شئیر کیا تھا۔ لوگوں نے اس وجہ سے کہ ایک ذمہ دار شخص یہ شئیر کر رہا ہے تو مزید اعتماد سے اسے آگے پھیلایا ۔ کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج کے قتل سے پہلے دارالعلوم کراچی کے مہتمم مفتی رفیع عثمانی سے منسوب ایک جعلی فتوی سوشل میڈیا پر گردش کر رہا تھا جس میں ڈاکٹر شکیل اوج کو گمراہ اور فاسق قرار دیا گیا تھا ۔ گذشتہ برس اسلام آباد میں ایک مذہبی تنظیم کا جلسہ ہوا جس میں انتظامیہ کے ساتھ طے ہوا تھا کہ متنازعہ نعرے بازی نہیں ہو گی لیکن نو بجے سے پہلے سوشل میڈیا پر اسی جلسے کی ایک ایسی ویڈیو سامنے آئی جس میں متنازعہ نعرے بازی ہو رہی تھی ۔ میں حیران تھا کہ جلسے کی رپورٹنگ کے وقت تو یہ نعرے نہیں لگے ۔ اس ویڈیو کو بنیاد بنا کر اس رات کئی اینکرز نے اس پر سوال اٹھایا کہ وزارت داخلہ کہاں ہے ؟ بعد میں علم ہوا کہ ویڈیو اس جلسے کی تھی اور آڈیو ایک پرانے جلسے کی جوڑ کر یہ مواد تخلیق کیا گیا تھا ۔
اس بات سے انکار نہیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے کئی اہم مسائل بھی سامنے آئے اور اس سے فائدے بھی ہوئے ۔ کئی اہم خبریں سامنے نہ آتیں اگر سوشل میڈیا نہ ہوتا ۔ اس کی وجہ سے نئے لکھنے والوں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا بہترین پلیٹ فارم اور موقع ملا۔ نوجوانوں میں نئی سوچ اور فکر کے ساتھ ساتھ نئے رحجانات نے جنم لیا ۔؟ یہ انتہائی اہم سوال ہے کہ سوشل میڈیا پر موجود مواد کی تصدیق کیسے ممکن ہے ؟
روایتی میڈیا میں گیٹ کیپر کا تصور موجود ہے تاہم سوشل میڈیا پر ایسا کچھ نہیں ۔ آپ غلط مواد نشرکرنے والے کو بلاک کر سکتے ہیں یا رپورٹ کر سکتے ہیں لیکن کب تک ، کیونکہ یہ وہ مکھی آپ کو تھوڑی تھوڑی دیر بعد تنگ کرتی رہے گی ۔عاصمہ جہانگیرکے بارے میں جہاں مختلف الخیال لوگوں نے نظریاتی اختلاف کے باوجود گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا وہیں کچھ لوگ اس تخریبی مواد کا شکار ہو کر مشتعل بھی ہوئے جو پروپیگنڈے کسی نامعلوم فیکٹری میں تیار کر کے سوشل میڈیا پر پھیلایا گیا تھا ، اس کا واضح مقصد معاشرے میں تقسیم کے عمل کو منظم انداز میں مزید گہرا کرنا تھا ۔ اس عمل میں کوئی ان پڑھ لوگ شریک نہیں تھے کیونکہ وہ تو سوشل میڈیا کے استعمال سے واقف ہی نہیں ۔ یہ کارنامہ “پڑھے لکھے” لوگوں کا ہے۔
اس ماحول میں کم ازکم ہمیں یہ ضرور سوچنا ہوگا کہ کیا سوشل میڈیا پر آئی ہر چیز کوہمیں قبول کرلینا چاہیے یا پہلے اس کی حقیقت جاننے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ تبصرہ کرنے اور شئیر کرنے سے پہلے ایک ذمہ دار انسان ہوتے ہوئے کیا ہمارا فرض نہیں کہ ہم اس مواد کے بارے میں سوچیں کہ آیا یہ حقائق کی روشنی میں درست بھی ہے ؟
فیس بک پر تبصرے