ضلع کوہسار ضرور بنائیں مگر…

1,152

جب سے خطہ کوہسار کے فرزند جناب   شاہد خاقان عباسی  نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا ہے،  ضلع کوہسار        بنانے کی آواز بڑی قوت  سے دوبارہ  اٹھی ہے  اور تحصیل مری،کوٹلی ستیاں اور کہوٹہ پر مشتمل پٹی کو ضلع راولپنڈی سے الگ کر  کے مستقل ضلع بنانے  کی  بات    بچے بچے کی زبان پر ہے۔اس حوالے سے حکومتی سطح پر مشاورت  بھی مکمل ہو چکی ہے  اور3مارچ کو  منصوبے کی تکمیل کے بعد  وزیراعظم  شاہد خاقان عباسی کہوٹہ میں  ایک بڑے جلسہ میں نئے ضلع کے قیام کا اعلان کرنے والے ہیں ۔ اطلاعات کے مطابق   مجوزہ ضلع کوہسار کے لیے دس ارب روپے  کا ترقیاتی   پیکج تیار کر لیا گیا ہے جس  کے تحت  پانچ ارب   روپے کی لاگت سے دو مرحلوں میں   راولپنڈی تا کہوٹہ نئی دو رویہ  روڈ  اور ایک  ارب کی لاگت سے  سہالہ فلائی اوور  تعمیر کیا جائے گا، پہلے مرحلے میں  کاک پل سے ترکھیاں تک   روڈ  چھ ماہ کی مدت  میں بنے گا جبکہ   دوسرے  مرحلے میں  باقی روڈ کی تعمیر مکمل کی جائے گی۔نئی کہوٹہ یونیورسٹی  بنانےاور کوٹلی ستیاں سمیت تینوں پہاڑی تحصیلوں   کے  دیہاتوں کو 100فیصد بجلی اور گیس کی فراہمی کا اعلان کیا جائے گا۔تینوں تحصیلوں کے  تمام مڈل سکولوں کو اپ گریڈ کر کے  انہیں ہائی کا درجہ دیا جائے گا، گرلز اور بوائز ڈگری کالجز  بنائے جائیں گے  اور اساتذہ کی خالی آسامیوں پر فوری  بھرتیاں  کی جائیں گی۔مری میں سیاحت کے فروغ کے لیے   تفریحی مقامات کو اپ گریڈ  کیا جائے گا، جبکہ کوٹلی ستیاں میں   بین الاقوامی معیار کے دو نئے تفریحی مقامات   بنائے جائیں گے۔

ضلع کوہسار کا  مجوزہ منصوبہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا ہے جو چاہتے ہیں کہ اپنے حلقے کے عوام کے لیے کوئی ایسا کام کر جائیں  کہ انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے، اسی سلسلے میں وزیراعظم نے مری میں کوہسار یونیورسٹی اور ایک ہسپتال بنانے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔مختصر مدت کے لیے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے والے شاہد خاقان عباسی  کی خواہش ہے کہ اسمبلیوں کی مدت مکمل ہونے سے پہلے ہی ان منصوبوں پر کام شروع ہو جائے تاکہ آئندہ الیکشن میں  انہیں عوام کا سامنا کرنے میں کوئی پریشانی نہ ہو اور وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد اپنے حلقے  سے انہیں ہزیمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

وزیراعظم کے یہ تمام اقدامات خطہ کوہسار کے پسماندہ عوام کے لیے یقیناً خوش آئند ہیں جس پر بجا طور پر  اہلیان مری و کوٹلی ستیاں خوشی کا اظہار کر رہے ہیں کہ انہیں اب اپنی دہلیز پر ہی تمام ضروریات زندگی دستیاب ہوں گی تاہم یہ امر بھی قابل ملاحظہ ہے کہ  ضلع کوہسار کی  مجوزہ  حدود  اور صدر مقام سے متعلق کچھ علاقوں میں تشویش بھی  پائی جاتی ہے اور بالخصوص کہوٹہ کےعمائدین  اور سول سوسائٹی  شدید اضطراب کی کیفیت میں ہیں اور  یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر  ضلع کا صدر مقام  مری کو قرار دینے کا منصوبہ ہے تو  ہم تیس کلومیٹر کی مسافت پر راولپنڈی کو چھوڑ کر نوے کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے مری نہیں جاسکتے۔ چند روز قبل کہوٹہ کے  منتخب بلدیاتی نمائندوں  نے بھی  نئے ضلع کے قیام کی شدید مخالفت  کرتے ہوئے اعلان کیا کہ  اگر یہ  فیصلہ واپس نہ لیا گیا تو کہوٹہ کے عوام سخت سے سخت احتجاج کریں  گے۔

اگر ضلع کوہسار کا  صدر مقام مری کو بنائے جانے کا ہی منصوبہ ہے جیسا کہ قرائن سے ظاہر ہوتا ہے تو یقیناً اس فیصلے میں کہوٹہ کے عوام کی سہولت کو پیش نظر نہیں رکھا گیا،اگر وزیر اعظم اور ان کی مشاورتی ٹیم انہیں حدود پر مشتمل ہی نیا ضلع تشکیل دینا چاہتے ہیں تو میرے مطابق اس کا صدر مقام کوٹلی ستیاں ہونا چاہیے جو کہ کہوٹہ کے عوام کے لیے اگرچہ راولپنڈی کی بنسبت دور ہی پڑے گا لیکن  مری اور کہوٹہ کے وسط میں واقع ہے۔ضلع کوہسار کی حدود اگر ابھی حتمی نہیں ہیں تو اس سلسلہ میں ایک تجویز بڑی اہم ہے جس کے عملی نفاذ میں اگر کوئی قانونی رکاوٹ نہ ہو تو  امید ہے کہ تمام متعلقہ علاقوں کے مکین  نہ صرف متفق ہو جائیں گے  بلکہ ان کی برسوں کی تمنا پوری ہو گی اور  ان کے مسائل میں خاطر خواہ کمی ہو گی۔تجویز یہ  ہے کہ بجائے کہوٹہ کے ،گلیات ، ایوبیہ، بیروٹ، سرکل لورہ اور باڑیاں  کو اس منصوبے میں شامل کیا جائے۔یہ بات درست ہے کہ مذکورہ  علاقے صوبہ خیبر پختونخوا  کی حدود میں آتے  ہیں لیکن جغرافیائی،لسانی ،تہذیبی اور خاندانی قربتیں ان علاقوں کے باسیوں کو آپس میں مربوط کرتی ہیں۔ لورہ،باڑیاں اوربیروٹ کے عوام کے لیے  ایبٹ آباد کی بہ نسبت  مری   شہر قریب بھی ہے اور یہاں پہنچنے میں سہولت بھی۔مزید برآں  پہاڑی زبان بھی ان علاقوں کے عوام کو آپس میں جوڑتی ہے جو کہ پنجابی زبان کا ہی ایک لہجہ ہے،جبکہ ایبٹ آباد میں ہندکو بولی جاتی ہے اور صوبہ پختونخوا کی بڑی زبان پشتو ہے۔

کتنے افسوس  کی بات ہے کہ بیروٹ اور سرکل لورہ  کے عوام کو مری سے مربوط کرنے والے ان تمام عوامل کو پس پشت ڈال کر انہیں  اپنے ہی علاقہ کے لوگوں سے کاٹ کر رکھ دیا گیا ہے۔اگر یہ حدود انگریز استعمار نے بنائیں تھیں تو کیا وجہ ہے کہ ستر سال  بعد بھی انہی حدود پہ کاربند رہنے پر اصرار کیا جارہا ہے؟  اگر مری کے عوام کے ووٹ سے منتخب ہو کر وزارت  عظمیٰ  کے عظیم ترین منصب پر فائز ہونے والے شاہد خاقان عباسی بھی   اپنے   خطے کے لوگوں کے مسائل  کو نہیں سمجھیں  گے   تو  کون ہے  جو  مری کے مضافاتی علاقوں  کا درد اور تکلیف سمجھے گا؟

جناب وزیراعظم! آپ ضلع کوہسار ضرور بنائیں لیکن  صرف اپنے ووٹرز کو خوش کرنے کے لیے نہیں بلکہ   جن لوگوں کو بدانتظامی کی وجہ سے  مری سے کاٹ کر رکھ دیا گیا ہے ان کو بھی  اپنا ہی سمجھیں اور اس موقع پر انہیں  بھی سہولیات بہم پہنچائیں اور عرصہ دراز سے پسے ہوئے عوام کی دعائیں سمیٹیں۔

 

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...