فوجی دستوں کی سعودیہ روانگی

922

پاکستانی افواج کو سعودی عرب روانہ کرنے پرسینٹ کی حکومت اورعسکری اداروں کے ساتھ کشمکش جاری ہے۔ پیرکوسینٹ کے چیرمین رضاربانی نے وفاقی وزیردفاع خرم دستگیر کے ایک ہزارکے قریب فوجی دستےسعودی عرب بھیجنے کے یک طرفہ فیصلے کی تفصیلات بتانے سے انکارپر پارلیمان کی توہین کا نوٹس جاری کرنے کی دھمکی دی ہے۔ اراکین سینٹ خاص کرفرحت اللہ بابرکہتے ہیں کہ یہ فیصلہ 2015میں پارلیمان کے کی قرارداد سے متصادم ہے۔ دوسری طرف حکومت کاموقف ہے کہ فوجی دستے سعودی عرب روانہ کرنا پارلیمان کی قراردادسے ہرگزمتصادم نہیں۔ پاکستانی پارلیمان نے اپریل 2015میں سینٹ اورقومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں سعودی عرب کی طرف سے دستے بھیجنے اوریمن کےخلاف استعمال کرنے کی درخواست کومستردکرنے کی قرارداد منظورکی تھی۔ پاکستانی پارلیمان کاکہناتھاکہ ملک کویمن تنازعہ میں گھسیٹنے سے بازرہاجائے لیکن اس قرارداد کے پاس ہونے کے باوجود سعودی عرب کی طرف سے باربارتقاضہ کیاجارہاتھاکہ فوجی دستے بھیجے جائیں۔

پاکستانی اہلکارکہتے ہیں کہ اس کا مقصد یمن کے خلاف جنگ کا حصہ یا کسی دیگرجنگی کارروائی کاحصہ بننانہیں ہے، بلکہ یہ فوجی پیشہ ورانہ ٹریننگ دینے اورمشاورتی مشن کے لئے بھیجے جارہے ہیں۔ فوجی دستے سعودی عرب سے باہرتعینات نہیں  کئے جائیں گے۔ دوسری طرف سینٹ کے چیرمین اوراراکین بضد ہیں کہ اس امرکی وضاحت کی جائے کہ پارلیمان کی مشترکہ قراردادکے باوجودسعودی عرب فوج کیوں بھیجی جارہی ہے اور کن شرائط کے تحت بھیجی جارہی ہے۔ پارلیمان کوخدشہ ہے کہ وبال اورجنگ وجدل سے بھرپورخطے میں فوجیں بھیجنے کا اثرپاکستان اوراس کی افواج پرپڑے گا۔ سعودی عرب کی فوج اس وقت یمن کی شیعہ حوثی قبائل کے خلاف برسرپیکارہیں۔ ڈان اخباراپنے ایک اداریہ میں کہتاہےکہ سعودی عرب اورپاکستان کے درمیان تعاون پایاجاتاہے لیکن ضروری نہیں کہ سعودی عرب کے قومی مقاصد پاکستان کے مفادات سے بھی ربط رکھتے ہوں۔ پاکستان پہلے ہی سعودی قیادت میں قائم  اسلامی فوجی اتحاد کارکن ہے جس کی سربراہی بھی ایک سابق پاکستانی فوجی سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف کررہے ہیں۔ دوسری طرف یمن کے حوثی باغیوں کوایران کی مددحاصل ہے۔ یوں اس تنازعہ میں کودنے سے پاکستان کے اندرفرقہ ورانہ تنازعات بڑھ سکتے ہیں جوپہلے ہی گھمبیرہیں۔

یہاں اہم سوال یہ پیداہوتاہے کہ 2015کی پارلیمان کی ایک مشترکہ قرارداد اورسینٹ کی مخالفت اورتمام خطرات کے پیش نظر پاکستانی ریاست تمام تر خطرات کے باوجود سعودیہ میں کیوں فوج بھیج رہی ہے؟اس کی ایک اہم وجہ پیرس میں فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس کا 18تا20فروری اجلاس تھا، جس میں پاکستان کودہشت گردتنظیموں کی مالی معاونت کے معامالات پردرگزرکرنے کی وجہ سے نگرانی  والے ممالک کی فہرست میں ڈالنے کاخطرہ پیدا ہوگیاتھا مگر اب پاکستان کو تین ماہ کی مہلت مل گئی ہے۔ پاکستانی وزیرخارجہ کا کہنا ہے کہ دوست ممالک کی وجہ سے یہ خطرہ کم ازکم تین ماہ کے لئے ٹل گیاہے۔ وزیرداخلہ نے ان دوست ممالک کاشکریہ بھی  اداکیاہے جن کی کوششوں کی وجہ سے امریکہ کی جانب سے پیش کی جانے والی قرارداد پراتفاق رائے نہیں  ہوسکا۔ ایک ہندوستانی اخبارکے مطابق ان کوششوں کے پیچھے دراصل سعودی عرب کابھی ہاتھ ہے اوریہ پاکستان کی یمن کے خلاف سعودی عرب کوفوجی دستے فراہم کرنے کے عوض ہواہے۔

پاکستان پہلے ہی مشکلات کاشکارہے، پاکستان کے خلاف امریکی نے حال ہی میں پابندیاں عائد کیں ہیں اوراس کا دائرہ مسلسل وسیع ہوتاجارہاہے۔ ایف اے ٹی ایف کے حالیہ اجلاس میں پاکستان کودہشت گردی کے مالی معاونت پرنظرنہ رکھنے یا عدم تعاون کرنے والے ممالک کی فہرست میں ڈالنا انہی کوششوں کی ایک کڑی ہے۔اس لیے پاکستانی فوج کویہ فیصلہ کرناپڑا تاکہ سعودی عرب کی حمایت حاصل کی جائے۔ دوسری طرف سینٹ کے چیئرمین رضاربانی نے وزیردفاع سے کہاکہ ہمیں لولی پاپ نہ دیاجائے، ہم بچے نہیں ہیں اوراگرضروری ہواتوسینٹ کے ان کمیرہ سیشن میں تفصیلات بتائی جائیں۔ لیکن وزیردفاع نے ناصرف اس پیش کیش کوٹھکرایابلکہ یہ بتانے سے بھی انکارکیاکہ فوج کوکس جگہ تعینات کیاگیاہے۔ اس سے ان شکوک وشہبات کوتقویت ملتی ہے کہ فوج کویمن کے خلاف استعمال کیاجارہاہے۔ وزیردفاع کااصرارتھاکہ فوج سعودی عربیہ کے اندرہی تعینات ہے۔ پاکستان کوامید ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان جوکہ اب سلطنت کے سب سے بااثرشخصیت بن کرابھررہے ہیں، کے امریکہ کے ساتھ تعلقات سے فائدہ اٹھایاجاسکتاہے۔ سعودی ولی عہد کے اثراورکوششوں کی وجہ سے ہی پاکستان کو ایف اے ٹی ایف ٹی کی طرف سےمہلت ملی ہے۔ اس سے لگتاہے کہ پاکستان میں فوج کوفیصلہ سازی میں اب کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ کیونکہ فوج بھیجنے کااعلان فوجی ترجمان نے کیااورایسالگتاہے کہ سعودی عرب سے معاملات بھی عسکری قیادت نے ہی طے کیے ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...