سرائیکی کا مقدمہ

933

حکومت کو علاقائی ثقافتوں اور مقامی زبانوں کے تحفظ کی خاطر اقدام اٹھانے چاہیں لیکن نسلی گروہوں کی زبانوں کے ساتھ سیاسی مفادات اور عوامی جذبات کی وابستگی داخلی انتشارکا زینہ بن سکتی ہے

سینٹ میں سرائیکی کو قومی زبان کا درجہ دینے کی مخالفت کرنے والی پیپلز پارٹی کے خلا ف ڈیرہ اسماعیل خان کی ثقافتی تنظیموں کے احتجاجی مظاہروں میں آصف علی زرداری کا پتلا نذر آتش کرنے کی رسم دراصل ہمارے سماج میں پیپلزپارٹی کی چتا جلانے کی علامت بن گئی کیونکہ اس شہر کو،جہاں سے1968 ؁ء میں پیپلزپارٹی کے بانی ذولفقار علی بھٹو کی تحریک کومقبولیت ملی،منی لاڑکانہ سمجھا جاتا تھا اور بلاشبہ گزشتہ پچاس سالوں میں یہاں پی پی پی علاقائی سیاست کا محور بنی رہی لیکن آج بھٹو کی پارٹی کو ڈیرہ اسماعیل خان کے سرائیکی بولنے والے عوام کی شدید ناراضگی کا سامنا ہے، حالت باایں جا رسید کہ اب اگر یہاں پیپلز پارٹی کے چیئرمین کا پتلا نذر آتش ہو تو اس کی مذمت کے لئے دو حرف کہنے والا کوئی نہیں بچا،یہ علاقائی زبانوں کو سیاسی مقاصد کیلئے بروکار لانے کا وبال ہے جو ملک گیر جماعتوں کے مہلک اور قومی تہذیبی وحدت کے خطرہ بن کر ابھرا ہے ۔حالیہ مظاہروں کا پس منظر یہ ہے کہ گزشتہ دنوں سینٹ کی قائمہ کمیٹی نے پیپلز پارٹی کے سینیٹر اعتزاز احسن کی طرف سے پیش کئے گئے اس بل کی منظوری دے دی،جس میں پشتو،پنجابی،سندھی اور بلوچی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دلانے کی کوشش کی گئی ہے،اس مرحلہ پر سرائیکی بولنے والے سنیٹرز نے بھی مطالبہ کیا کہ سینٹ اگر ایک مخصوص علاقہ اور محدود افراد کے مابین بولی جانے والی بلوچی زبان کو قومی زبان کا درجہ دے سکتی ہے تو چاروں صوبوں اور ملک بھر میں سب سے ذیادہ بولی جانیوالی سرائیکی زبان کو قومی زبان کا درجہ کیوں نہیں مل سکتا ؟ لیکن چیئرمین سینٹ رضا ربانی سمیت پی پی پی،جس کی سینٹ میں اکثریت ہے،کے سینیٹرز نے سرائیکی کو قومی زبان کا درجہ دلانے کی مخالفت کر کے ڈیرہ اسماعیل خان سمیت جنوبی پنجاب کے عوام کی مخالفت مول لے لی۔حیرت انگیز امر یہ ہے کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے پچھلے دور حکومت میں ہمہ وقت سرائیکی صوبہ کے قیام کا راگ الاپ کر سرائیکی بیلٹ کے عوام کی الگ صوبہ بنانے کی امیدوں کو خود پیپلز پارٹی کے وجود سے وابستہ کر لیا تھا لیکن اب جب وقت آیا تو پیپلز پارٹی سرائیکی کو قومی زبان تک کا درجہ دلانے سے گریزاںنکلی،جس کے ردعمل میں پیپلز پارٹی کے خلاف خیبر پختون خو اکے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سمیت جنوبی پنجاب کے ضلع ملتان،بہاولپور،رحیم یار خان اور ڈیرہ غازی خان میں وسیع پیمانے پر احتجاجی مظاہرے بھڑک اٹھے،جس میں پیپلز پارٹی کے اپنے حامیوں کی بڑی تعداد شریک ہوتی ہے۔سن 2008 ؁ء کے الیکشن میں ڈیرہ اسماعیل خان سے پیپلز پارٹی کو آخری بار بے مثال کامیابی ملی لیکن سن دو ہزار دس میں این ڈبلیو ایف پی کا نام تبدیل کر کے خیبر پختون خوا رکھنے کا عمل پیپلز پارٹی کے زوال کی پیش گوئی ثابت ہوا،اسی جسارت نے 2013 ؁ء کے الیکشن میں ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن سمیت پورے صوبہ سے پیپلز پارٹی کا صفایا کر دیا،بدقسمتی سے اب پھر الیکشن کے دن قریب آتے ہی سینٹ میں علاقائی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دلانے کی مہمل کوشش کے دوران پیپلز پارٹی کی طرف سے سرائیکی زبان کی سے لاتعلقی،سرائیکی خطہ میں پی پی پی کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا سبب بن گئی۔ آصف علی زرداری کا پتلا نذر آتش کرنے والے سینکڑوں مظاہرین نے پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت کے خلاف شدید نعرہ بازی کی،مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے پی پی پی کے سابق ایم پی اے شائستہ بلوچ نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے دوغلے پن نے سرائیکی بولنے والے حامیوں کو مایوس کیا لیکن ہم اعتزاز احسن کے مشکور ہیں جنہوں نے سینٹ میں سرائیکی کی مخالفت کر کے پیپلز پارٹی کا اصل چہرہ بے نقاب کر کے سرائیکی ویسب کے ان پسے ہوئے طبقات کی آنکھیں کھول دیں جو پچھلے پچاس سالوں سے آنکھیں بند کے پیپلزپارٹی کو ووٹ دیتے آئے ہیں،مظاہرین سے خطاب میں سماجی رہنما ملک گلزاراحمد،سرائیکی وسیب پارٹی کے ملک خضر حیات ڈیال،ایس کیو ایم کے سیف اللہ بیقرار،مہربان مکل،غلام شبیر خان،سرائیکی سٹوڈنٹ موومنٹ کے صدر نوابزادہ طفیل خان علی زئی ،آل سرائیکی اتحاد کے خالد حمید خان بلوچ،ناصر خان بلوچ،پاکستان سرائیکی پارٹی کے نجیب اللہ میانخیل،خاکسارتحریک کے اللہ دتہ ساجد اور تحریک انصاف کے ابراہیم لاہوری نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے سرائیکی صوبہ کی بات کر کے جنوبی پنجاب اور ڈیرہ اسماعیل خان کے لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹیں لیکن حقیقت میں وہ سندھی قوم پرستی کی محافظ بن کر ابھری ہے،جس نے پہلے کالا باغ ڈیم کی مخالفت کر کے سرائیکی وسیب کے سات کروڑ باسیوں کو ترقی و خوشحالی سے دور رکھا اور پھر پچھلے دور حکومت میں قوم پرست پختونوں کو شناخت دینے کے شوق میں ڈیرہ اسماعیل خان کے سرائیکیوں،چترالیوں،شینہ،گوجری اور پشاور،کوہاٹ،صوابی،نوشہرہ،سوات اور ہزارہ کے ہندکو بولنے والوں کی تہذیبی شناخت کو مسخ کر کے صوبہ خیبر پختون خوا کے سوا کروڑ غیر پشتونوں کی دل آزاری کر گزری، جس کی بدولت اس صوبہ سے ہمیشہ کیلئے پیپلز پارٹی کا نام و نشان مٹ گیا۔چنانچہ پچھلے الیکشن میں پیپلزپارٹی  کو صوبہ بھر سے قومی اسمبلی کی ایک نشست بھی نہیں ملی، اور اب پھر پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ نے سینٹ آف پاکستان میں سرائیکی زبان کو پائے حقارت سے ٹھکرا کر رہی سہی کسر پوری کر ڈالی۔یہ بجا کہ حکومت کو یو این کی گائیڈ لائن کے مطابق قدیم علاقائی زبانوں اور ملک بھر میں مٹتی ہوئی ثقافت اکائیوں کے تحفظ کی خاطر اقدام اٹھانے  چاہیں ۔ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ گلوبل ائزیشن کے رومانس میں مبتلا مغربی دنیا خود اس وقت اپنے اوریجن کی طرف پلٹ رہی ہے اور امریکہ میں ٹرمپ کی کامیابی کے علاوہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی اور حالیہ انتخابات میں فرانسسی اور جرمن نیشنل ازم کا ابھر کے سامنے آنا اس بات کی علامتیں ہیں کہ گلوبلائزیشن کے تصور کو اپنانے کے باوجود مغربی ممالک کے عوام کے اندر اپنی جداگانہ قومی شناخت کے تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے،ہماری قومی وحدت کیلئے صرف ایک مذہب کا ہونا کافی نہیں کیونکہ مذہب میں فروعی  فقہی اختلافات کسی بھی وقت نفرت کی لکریں کھینچ کر قوم کو تقسیم کر سکتے ہیں اس لئے ایک قوم کی تخلیق کیلئے ایک قومی زبان اور یکساں ثقافت کا وجود از بس لازمی ہے،بلاشبہ زبان صرف باہمی ابلاغ کا وسیلہ ہی نہیں ہوتی بلکہ ذہنی ربط اور فکری ہم آہنگ کا نظام بھی فراہم کرتی ہے،دنیا بھر میں قومیت کی جس تعریف کو معیار مانا گیا اس میں ’’کوئی بھی گروہ انسانی جن کا جغرافیہ اور زبان و ثقافت ایک ہو اور انکے معاشی مفادات یکساں ہوں‘‘ وہ ایک قوم کہلوانے کا حق رکھتا ہے لیکن ہماری سینٹ نے اب نسلی بنیادوں پر بلوچی،سندھی،پشتو اور پنجابی کو نیشنل لنگویج کا درجہ د ے کر ایک نئی کشمکش کی بنیاد رکھ دی جس کا فروغ پاکستانی قومیت کی چولیں ہلا دے گا،بلاشبہ حکومت کو علاقائی ثقافتوں اور مقامی زبانوں کے تحفظ کی خاطر اقدام اٹھانے چاہیں لیکن نسلی گروہوں کی زبانوں کے ساتھ سیاسی مفادات اور عوامی جذبات کی وابستگی داخلی انتشارکا زینہ بن سکتی ہے،علاقائی زبانوں کو ملکی سطح پہ ابھارنا دراصل سب نشنل ازم کو فروغ دینے کی کوشش ہو گی جو ہمارے ملک گیر زبان و ثقافت اور قومی وحدت کو کمزرو کر دے گا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...