طاقتور کی اصلاح ممکن نہیں

837

عام طور پہ ہماری قومی سیاست کا محور مقتدرہ کو سمجھا گیا،اسی لئے ماضی میں بحالی جمہوریت کی ساری تحریکیوں کا نشانہ اسٹیبلشمنٹ رہی۔ایسا پہلی بار دیکھنے کو ملا ہے کہ پنجاب سے اٹھنے والی طاقتور سیاسی مزاحمت کا ہدف جی ایچ کیو کی بجائے عدالتی فعالیت بن رہی ہے،اس حقیقت سے اغماض ممکن نہیں کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس پیچیدہ عہد میں بھی اگر عدالتی فیصلوں کو سیاسی محرکات پہ پردہ ڈالنے کیلیے استعمال کیا جائے گا تو عدلیہ خود کو سیاسی تصادم سے الگ نہیں رکھ پائے گی۔شاید اسی لیے نواز لیگ کی اس غیرمتوقع چال  نے”اسٹیٹس کو”کی نقیب قوتوں کے اعتماد کو متزلزل کر دیا۔سیاسی تحریکوں کو تحلیل کرنے کا تجربہ رکھنے والی پس پردہ قوت کے پاس بھی اس پیشقدمی کو روکنے کی مہارت نظر نہیں آتی۔نوازشریف کی راہ میں حائل ہونے والی ہر  رکاوٹ انکی مقبولیت میں اضافہ اور اس تحریک کو مہمیز دینے کا سبب بن رہی ہے جس کا ہدف عدالتی فعالیت ہے۔اس لیے طاقت کے مراکز پہ عمیق کنفیوژن چھاتی جا رہی ہے۔یہ سوال نہایت اہم ہے کہ پنجاب سے اٹھنے والی عدلیہ مخالف مہم کے سامنے ہمار بوسیدہ ریاستی ڈھانچہ کتنی دیر تک ٹھہر سکے گا؟خاص طور پر ایسے حالات میں جب ملک کے اندر علاقائی و سیاسی  تنازعات کی لکیر گہری اور مشرقی و مغربی سرحدات پہ ہر لمحہ کشیدگی بڑھتی جا رہی ہو۔

بلاشبہ شریف برادران وہ خوش قسمت لوگ ہیں جو بتیس سالوں سے قومی سیاست کے نشیب و فراز سے وابستہ رہنے کی وجہ سے پاور پالیٹیکس کی حرکیات سے بخوبی واقف ہیں۔دو مرتبہ پنجاب کی وزرات علیا  اور تین بار وزرات عظمیٰ کی کرسی تک پہنچنے والے نواز شریف اس ابدی حقیقت کو جان گئے ہیں کہ”طاقت”کی اصلاح ممکن نہیں ہوتی۔کسی مضمحل سی منتخب حکومت کے لئے حرمت کی فولادی دیواروں کے پیچھے بیٹھی عدالتی مقتدرہ کو آئینی دائروں میں محدود رکھنا آسان نہیں کیونکہ عدالتیں بھی مقتدرہ کی طرح  زندہ و توانا وجود رکھتی ہیں  جو اپنی طرف بڑھنے والے ہر ہاتھ کو کاٹ سکتی ہیں۔نواز شریف نے کئی بار ان حقائق سے سر ٹکرانے کے بعد جنرل ڈیگال کی طرح اس  راز کو پا لیا کہ طاقتوروں کے درمیان استحقاق کا فیصلہ کتاب آئین میں لکھے قوانین نہیں بلکہ تلواریں کرتی  ہیں۔چنانچہ مسلم لیگی قیادت کی جارحانہ حکمت عملی انہی تلخ تجربات کا نچوڑ اور سیاسی شعورکا مظہر بن گی ہے۔لیگی قیادت نے سوچ سمجھ کے سیاسی کشمکش کا آخری معرکہ  عدالتوں کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کیا کیونکہ سیاستدان جانتے ہیں کہ ستر سالوں سے جاری حصول اختیار کی اس جنگ کا محرک اصلی عدالتی فیصلوں میں مستور رہتا ہے۔اسی لئے نواز لیگ نے تدبیر مخفی کے ذریعے ملک کی ان اعلی عدالتوں کو قومی سیاست کے میدان کارزار میں کھینچ  لیا جو آئین و قانون کی چادر اوڑھ کے پاور پالٹیکس کو مینیج کرتی ہیں۔قرائین بتاتے ہیں کہ  یہ جنگ رفتہ رفتہ پورے سیاسی ماحول کو اپنی گرفت میں جکڑ  لے گی۔

حیرت انگیز طور پہ اس وقت قومی سیاست کے مرکزی کردار یا تو عدالتی فعالیت کے خلاف مزاحمت میں سرگرادں ہیں یا پھر عدالتی فیصلوں کی پشت پناہی کر کے اپنے سیاسی اہداف حاصل کرنے کی کوشش میں مشغول ہیں۔عدلیہ کی حمایت و مخالفت کی یہی جدلیات ہر آن طاقت کے مراکز کی طرف بڑھتی رہیں گی۔اگرچہ تقسیم اختیارات کی اس جنگ کا ایندھن ججز اور سیاستدان بنیں گے لیکن مقتدرہ کو بھی بلآخر اس نار نمرود میں اترنا پڑے گا۔یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ اس وقت قومی سیاست کا ہر زاویہ عدالتی فعالیت سے منسلک ہو رہا ہے۔پارلیمنٹ میں قانون سازی ہو یا مملکت کے انتظامی امور،سیاستدانوں کی اہلیت کا معاملہ ہو یا صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا مسئلہ،سڑکوں کی تعمیر میں بے قاعدگیاں ہوں یا ہسپتالوں کی حال زار ،ریاست کے ہر کام کو عدالتی دانش سے کنٹرول کرنے کی کوشش اس تاثر کو گہرا کر رہی ہے کہ عدالتیں پارلیمنٹ اور حکومت کے اختیارات کو جذب تو کرنا چاہتی ہیں لیکن عوام کو جوابدہی کا وبال بدستور منتخب قیادت کے ذمہ ڈال دیتی ہیں۔پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف عدالتوں کی اس جارحانہ پیشقدمی کو حکومتی ناکامی کا تاثر پیدا کرنے کیلئے استعمال کر رہی ہیں۔یہ بات تو واضح ہو گئی ہے کہ اعلی عدلیہ اپوزیشن کی پاپولر حمایت کے ساتھ  تقسیم اختیارات کے آئینی فارمولے کو ملتبس کر کے قومی پالیسیز پر کامل تصرف پا رہی ہے۔اسی رجحان نے پچھلے ستر سالوں میں عدالتی فیصلوں کے ذریعے منتخب قیادت کو پابہ زنجیر رکھا لیکن قومی قیادت اپنی تنقید کا روئے سخن عدلیہ کی بجائے مقتدرہ کو بنا کے اس زنجیر کی مرکزی کڑی کو فراموش کرتی رہی۔

عدالتوں اور حکومت کے درمیان اختیارات  پر تصرف کی پہلی براہ راست جنگ کا آغاز 1990کی دہائی میں جسٹس سجاد علی شاہ کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس تعینات کرنے کے بعد ہوا،1993 میں نوازشریف حکومت کو بحال کر نے والے فل بینچ جسکی سربراہی چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کر رہے تھے،میں شامل جسٹس سجاد علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ سپریم کورٹ نے 58 ٹو بی کے تحت ختم کی گئی سندھی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت بحال نہیں کی لیکن آئین کی اسی شق کے تحت تحلیل ہونے والے پنجابی وزیراعظم نوازشریف کی حکومت بحال کر کے تفریق برتی ہے۔سجاد علی شاہ کے اسی ذہنی رویہ سے متاثر ہو کر 1994 میں بے نظیر بھٹو نے دو سینئر ججز،جسٹس سعد سعود جان اور جسٹس شفیع الرحمٰن کو بائی پاس کر کے سجاد علی شاہ کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا لیکن  جب بے نظیر نے بحثیت وزیر اعظم لاہور ہائی کورٹ میں سات آٹھ ججز کی تقرری کر کے اپنے آئینی اختیار کو استعمال کیا تو سپریم کورٹ نے الخیر ٹرسٹ کے چیئرمین  وہاب الخیری کی اس  درخواست کو سماعت کیلئے منظور کر  لیا جسمیں مسٹر خیری نے ججز کے تعیناتی بارے  وزیر اعظم کے اختیارات کو چیلنج کیا تھا۔چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں دس رکنی بینچ نے آئین کے آرٹیکل 193کی ازسر نو تشریح کرتے ہوئے ججز کی تعیناتی میں وزیر اعظم کی چیف جسٹس سے مشاورت کو”بامعنیٰ مشاورت” کی اصلاح میں ڈھال کے ہائی کورٹ میں ججز کی تقرری کے اختیار کو جذب کرلیا ہے۔اسی فیصلہ میں چیف جسٹس نے خود اپنی متنازعہ تقرری کی توثیق بھی حاصل کرلی۔بے نظیر بھٹو کے بعد 1997 میں وزیراعظم میاں نواز شریف نے تیرہویں آئینی ترمیم کے ذریعے 58 ٹو بی ختم کر کے قومی اسمبلی توڑنے کے صدارتی اختیا رکو ختم کیا تو طاقت کے ایما پہ ایک بار پھر الخیر ٹرسٹ کے چیئرمین وہاب الخیری نے تیرہویں ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر کے حکومت اور عدالت کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا۔توقع کے عین مطابق جسٹس سجاد علی شاہ نے 13ویں آئینی ترمیم کو  معطل کر کے اسمبلی توڑنے کا صدارتی اختیار بحال کر دیا لیکن اسی روز جسٹس سعیدالزمان صدیقی کی سربراہی میں سات رکنی بینچ نے اٹارنی جنرل فاروق کی زبانی درخواست پہ تین رکنی بینچ کے فیصلہ کو معطل کر دیا۔اگلے دن دونوں بینچز نے الگ الگ کاز لسٹ جاری کر کے بحران کو بڑھا دیا۔عدالتی تقسیم کو ختم کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں۔ چیف جسٹس نے سعیدالزمان صدیقی کو کوئٹہ رجسٹری بھجوانے کے بعد وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی شروع کی تو مسلم لیگی کارکنوں نے عدالت پہ دھاوا بول دیا۔اسی دوران جسٹس سعید الزمان صدیقی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی کوئٹہ رجسٹری کے دو رکنی بینچ نے چیف جسٹس کی تعیناتی کے خلاف درخواست سماعت کیلئے منظور کر کے سجاد علی شاہ کو کام کرنے سے روک دیا۔دریں اثنا فاروق لغاری نے 58 ٹو بی کے تحت اسمبلی توڑنے اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے آرٹیکل 190 کے تحت عدالتوں کی مدد کے لیے فوج کو طلب کرنے کی کوشش کی لیکن اسٹیبلشمنٹ نے وسیع تر قومی مفاد میں “مداخلت” سے گریز کیا۔ صدر فاروق لغاری اور سجاد علی شاہ کو مستعفی ہو کے گھر جانا پڑا۔

عدالتوں سے محاذ آرائی کے بعد بپھرا ہوا ملکی میڈیا اور پیپلزپارٹی سمیت تمام مذہبی و سیاسی جماعتیں اور قومی سیاست کا ہر کردار نواز شریف کے خلاف صف  آرا ہو کے ایسا ماحول پیدا کرنے میں کامیاب ہو گیاجس میں جنرل پرویز مشرف کو نوازشریف حکومت کا تختہ الٹنے کا موقعہ ملا گیا لیکن آج جب نوازشریف عدالتی فعالیت کے خلاف مزاحمت کے لیے  نکلے تو صورت حال مختلف ہے۔ملکی میڈیا کا ایک موثر دھڑا ان کا ہمنوا اور قومی سیاست کے کئی توانا کردار ان کے شانہ بشانہ ہیں۔مرکز اور پنجاب میں انکی پارٹی کی حکومتیں ہیں۔ انہیں عوام سے رابطہ کاری کی پوری آزادی ہے اور عالمی تناظر بھی بدلا ہوا ہے۔اس لیے اس بار نوازشریف کامیاب ہوں یا ناکام،دونوں صورتوں میں اس کشمکش کا نتیجہ مختلف نکلے گا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...