علیحدگی پسند بلوچوں سے چین کے روابط
چین نے خفیہ طورپربلوچ علیحدگی پسند تنظیموں سے بات چیت کی ہے۔ فنانشل ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق چین نے 60بلین ڈالرزکی پاکستان میں سی پیک کے نام سے ہونے والی سرمایہ کاری کومحفوظ بنانے کے لئے یہ قدم اٹھایاہے۔ پاکستانی بیوروکریسی سے تعلق رکھنے والے تین افراد نے دعوی کیاکہ ان کواس بات چیت کاعلم ہے۔ انھوں نے اخبارکوبتایاکہ چینی حکام نے براہ راست بلوچ علیحدگی پسندوں سے رابطہ کرکے ان سے بلوچستان میں سی پیک کے منصوبے کے حوالے سے بات چیت کی ہے۔ سی پیک میں سب سے اہم بندرگارہ گوادراوراس کے معاشی زونزکوایک چینی کمپنی ، چائنا اوورسیزپورٹ ہولڈنگ کمپنی (سی اوپی ایچ سی) کو40سالہ لیزپردیاگیاہے۔ ایک معاہدے کے تحت چین اب گوادرکی 91فی صد آمدنی کاحقدارہےجبکہ 9فی صد آمدنی انکم ٹیکس کے طورپراداکرے گا۔ اب گوادرپورٹ کی مینجمنٹ اور تعمیروترقی سمیت چین کے پاس چلی گئی ہے۔ چینی خطے سیانک کیانگ سے لے کرگوادرتک تقریبا 3ہزارطویل انفراسٹریکچر شورش زدہ بلوچستان سے بھی گزرتاہے، جہاں بلوچ علیحدگی پسندی کی تحریک چل رہی ہے اورپاکستان اس علاقہ میں فوجی آپریشن کررہاہے۔ سی پیک کی حفاظت کے لیے پاکستان نے پہلے ہی بارہ ہزارسپاہیوں پرمشتمل خصوصی فوجی دستے تیارکیے ہیں جبکہ گوادرکی حفاظت ایک برگیڈیررینک کےپاکستانی فوجی افسر کی قیادت میں فوج کررہی ہے۔ چین نے اس پراعتماد کا اظہاربھی کیاہے۔ فنانشنل ٹائمزکی رپورٹ سے لگتاہے کہ پس پردہ چین اپنے طورپرسی پیک کومحفوظ بنانے کے ٖلیے پانچ سال سے بلوچ علیحدگی پسندوں سے بات چیت میں مصروف رہاہے۔ بلوچ علیحدگی پسندوں کے بعض رہنما باربارامریکہ سے مداخلت کی اپیل بھی کرچکے ہیں اوریورپ اورامریکہ کے کئی شہروں میں علیحدگی کے لیے پروپگنڈہ کررہے ہیں۔ چین اورپاکستان کوبھی خدشہ ہے کہ چونکہ امریکہ اوربھارت اس پروجیکٹ کے خلاف عمل پیراہیں اورخطے میں نئی اسٹریٹجک صف بندی ہورہی ہے۔ اس لئے اس امرکے امکانات روشن ہیں کہ متحارب اتحاد جوکہ امریکہ اوربھارت پرمشتمل ہے بلوچ علیحدگی پسندوں کے تعاون سے اس منصوبے کوسبوتاژ کرسکتاہے۔ پاکستان پہلے ہی بھارت پربلوچستان میں مداخلت کاالزام لگاتارہاہے۔ اگرچہ چین نے بلوچ علیحدگی پسندوں سے کسی قسم کے رابطہ میں آنے کی تردید کی ہے لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ مذکورہ بیان کردہ خدشات کی روشنی میں چین کویہ قدم اٹھانا ہوگا۔
ایک خبرکے مطابق چین نے اس سلسلے میں کافی پیش رفت کی ہے۔ اوراسی وجہ سے علیحدگی پسند چین کے خلاف کوئی بڑاحملہ کرنے اوراکثرچین کے خلاف اقدام کے بجائے ادھرادھر قدم اٹھاتے نظرآتے ہیں۔ اس خبرکاسب سے اہم پہلویہ ہے کہ اس خفیہ رابطوں سے پردہ بھی پاکستانی حکام نے اٹھایاہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ یاتوپاکستانی حکام کوشروع سے علم تھایا یہ خبران کے علم میں ابھی آئی ہے اوریہ اس کوعام کرناچاہتے ہیں۔ اس کاایک مقصد بلوچ علیحدگی پسندوں کوعوام میں مشکوک بنانے کی پالیسی بھی ہوسکتی ہے۔ بلوچ مڈل کلاس پارلیمانی سیاسی پارٹیاں سی پیک کوبلوچستان کی ترقی کے لیے اب اہم سمجھتے ہیں۔
پاکستانی حکام کہتے ہیں کہ ان کوعلم نہیں کہ چین اوربلوچ علیحدگی پسندوں کے درمیان کیا زیربحث آیالیکن وہ پرامیدہیں کہ یہ دونوں ملکوں کے باہمی مفادمیں ہے کہ بلوچستان میں امن رہے۔ بلوچستان سے سینٹ کے رکن میرکبیرشاہی نے کہاہے کہ یہ چین کاکام نہیں ہے کہ وہ بلوچ علیحدگی پسندوں سے بات کرے۔ اس نے کہاکہ نہ ہی اس کے یادیگرکسی رکن پارلیمان کے علم میں یہ بات ہے اورنہ ہی وہ لوگ اس قسم کی کسی پیش رفت سے آگاہی رکھتے ہیں۔ اس نے کہاہے کہ بلوچ علیحدگی پسندوں سے بات چیت حکومت پاکستان کا استحقاق ہے۔ دوسری طرف بلوچ رپبلکن آرمی کے نمائندے شیرمحمد بگٹی نے بھی چین کے ساتھ کسی قسم کی گفت وشنید سے انکارکرتے ہوئے اس خبرکی تردیدکی ہے۔ سوئٹرزلینڈ میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایاکہ علیحدگی پسند چین کے ساتھ بات چیت نہیں کرسکتے۔ اس نے کہاکہ نہ ہی بات چیت کے بارے میں انہیں کوئی علم ہے اورنہ ہی چین نے ان سے اس سلسلے میں کوئی رابطہ کیاہے۔ بلوچستان پوسٹ کے مطابق بلوچ لبریشن آرمی کے سینئر کمانڈر اور بلوچ رہنما اسلم بلوچ نے سی پیک کے بارےمیں اظہار خیال کرتے ہوئے تھاکہ یہ نا صرف اس خطے کے امن کیلئے بلکہ بلوچ قوم کی بقا کیلئے بھی ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ اس خطرے سے نمٹنے کیلئے مزاحمتی حوالے سے مشترکہ جدوجہد کی ضرورت پر تمام مزاحمتی ساتھیوں میں اتفاق پایا جاتاہے۔ اس حوالے سے مشترکہ حکمت عملی ترتیب دینے پر کام ہورہا ہے۔ خصوصاً بی ایل اے اور بی ایل ایف کے ساتھیوں کے بیچ اس بابت اشتراکِ عمل پایا جاتا ہے۔ بلوچ ریپبلکن آرمی کے ایک اہم کمانڈر گلزار امام بلوچ نے سی پیک کوایک سامراجی منصوبہ قراردیتے ہوئے کہاکہ اس کے خلاف بلوچ سخت مزاحمت کررہے ہیں۔ بلوچ اس وقت دو سامراجی قوتوں چین اور پاکستان سے بیک وقت لڑ رہے ہیں۔ البتہ گلزارامام نے اس امرکی طرف اشارہ کیاکہ بلوچ وطن میں بلوچ مرضی کے بغیر امن کا ضامن کون بن سکتا ہے؟ شاید اسی اہمیت کے پیش نظرچین نے بلوچ علیحدگی پسندوں سے براہ راست خود ہی گفت وشنید کرنے کافیصلہ کیاہے۔
اگرچہ پاکستانی حکام چین کے بلوچ علیحدگی پسندوں کے ساتھ رابطے اوربات چیت کے عمل میں براہ راست ملوث ہونے کوبلوچستان اورخطے میں امن کے لئے خوش آئند قراردے رہے ہیں، لیکن اس کے گہرے مضمرات ہوسکتے ہیں۔ یہ پاکستان کی کمزوری کا آئینہ دارہےاورپاکستان کے اندرونی معاملات میں چین کی براہ راست عمل دخل کی نشاندھی کرتاہے۔ چینی سفارتی حکام مسلسل پاکستانی سیاسی جماعتوں کے قائدین سے رابطے بڑھارہے ہیں اوران کوچین کے دوروں کی دعوت کی خبریں باقاعدہ اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔یوں چین بظاہرعلیحدگی پسندوں کے پاکستان سے آزادی کی جدوجہد سے قطع نظربلوچستان میں سرمایہ کاری، راستوں اورگوادرپورٹ جیسے معاملات پربات چیت کوزیربحث لانےجیسے کئی اہم سوالات کوجنم دے رہاہے۔ اگرچین نے بلوچ علیحدگی پسندوں اور پاکستانی ریاست کے درمیان تنازعہ میں نیوٹرل رہنے کی شرط پربات کی تویہ پاکستانی سلامتی کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ روزنامہ قدرت کہتاہے کہ پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کے نتیجے میں ممکن ہے کہ چین، پاکستان کے ساتھ ماتحت ریاست جیسا سلوک شروع کردے۔ اس سے پہلے بی بی سی کوچینی سفیرنے بتایاتھاکہ بلوچ علیحدگی پسند سی پیک کے لیے خطرہ نہیں رہے۔ اس کاکہناتھاکہ باغی حقیقی پاکستانی نہیں ہیں۔ اگر وہ حقیقی پاکستانی ہوتے تو وہ پاکستان کے قومی مفاد میں سوچتے۔ چینی سفیرنے سی پیک منصوبے پرکام کرنے والے دس ہزارکے لگ بھگ پاکستان میں چینی باشندوں کےتحفظ کے لئے پاکستانی اقدامات پراطمنان کااظہاربھی کیاتھا۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکاکہ چین نے علیحدگی پسندوں کے کس گروہ سے رابطہ کیاہے اوراس پرباقی گروپوں کا موقف کیاہے۔ بلوچستان علیحدگی پسند گروپوں میں سب سے موثرگروپ کی قیادت ڈاکٹراللہ نظربلوچ کررہے ہیں۔ باقی قبائلی سرداروں پر مشتمل گروہوں کی اکثرقیادت بیرون ملک ہے۔ ابھی تک کسی علیحدگی پسند گروپ نے چین کے ساتھ رابطوں اوربات چیت کی تصدیق نہیں کی۔
فیس بک پر تبصرے