شام کے شہر مشرقی غوطہ میں ایک ہفتے سے جاری مسلسل بمباری کے نتیجہ میں پانچ سو سے زائد ہلاکتو ں کے بعد سلامتی کونسل نے شام میں تیس روزہ جنگ بندی کی قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کر لیا ہے۔یہ قرارداد شامی حکومت کے فوجی دستوں اور فضائیہ کی جانب سے باغیوں کے زیر قبضہ شہر مشرقی غوطہ پر مسلسل ایک ہفتہ بمباری کے تناظر میں پیش کی گئی تھی تاکہ جنگ زدہ علاقوں میں امداد کی ترسیل اور زخمیوں کے علاج کے لیے ان کا انخلا کیا جا سکے۔تاہم قرارداد منظور ہونے کے بعد بھی فضائی بمباری مسلسل جاری ہے جس پر اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر نکی ہیلی نے مطالبہ کیا ہے کہ جنگ بندی پر فوراً عمل کیا جائے۔ روسی افواج کی مدد سے اٹھارہ فروری کو شروع ہونے والی بمباری کے نتیجہ میں جاں بحق ہونے والوں میں121 بچے بھی شامل ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد تین ہزار تک پہنچ گئی ہے۔
سیرین آبزرویٹری گروپ کے مطابق بمباری شام اور روسی جیٹ طیارے کررہے ہیں تاہم روس تنازعہ میں براہ راست شمولیت سے انکار کرہا ہے۔جبکہ دوسری طرف مشرقی غوطہ میں موجود باغیوں کا تعلق بھی کسی ایک گروہ سے نہیں بلکہ جیش الاسلام، احرارالشام اور فیلق الرحمٰن سمیت متعدد گروہ ہیں جو شہر میں موجود ہیں اور ان کے وجود کی قیمت عام شہری ادا کر رہے ہیں۔ ادھر عفرین میں شامی کردوں پر ترک افواج اور سیرین لبریشن آرمی کے حملے بھی جاری ہیں جبکہ کردوں کی حمایت کے لیے شامی افواج اور ایرانی دستے بھی موجود ہیں،ایران نہیں چاہتا کہ شام میں ترکی کا نفوذ قائم ہو۔خون مسلم کی ارزانی کی اس سے بڑھ کر کیا صورت ہو گی کہ ایک ہی ملک کے دو مختلف حصوں میں دو مختلف مسلم طاقتیں حملہ آور ہیں جس کے نتیجہ میں بڑی تعداد میں عام شہریوں کا خون بہہ رہا ہے۔ ایک ہی مسلم ملک کے باشندوں کو نظریاتی طور پر دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک طرف خود ملک کا صدر ،ایران اور روس کی حمایت سے اپنے ہی عوام پر حملہ آور ہے تو دوسری طرف ترک افواج نے شامی کردوں پر چڑھائی کے لیے امریکہ کو بھی ساتھ لے لیا ہے۔یعنی شام کے مکین چاہے جس عقیدے یا نظریے سے تعلق رکھتے ہوں ،مسلم اور عالمی طاقتوں نے طے کر لیا ہے کہ ان کا صفایا کرنا ہے۔ اب شامیوں کو زندہ رہنے کا حق دینے کے لیے اپنے تیار ہیں نہ پرائے۔
یقیناً اس امر کے شواہد موجود ہیں کہ شامی کرد اسرائیل کی پشت پناہی سے ترکی میں شورش بپا کرنا چاہتے ہیں اور اسرائیل آزاد کردستان ریاست کے قیام کی علانیہ حمایت کرنے والا مشرق وسطیٰ کا واحد ملک ہے ۔تاہم پھر بھی اس بات کی قطعا ًحمایت نہیں کی جا سکتی کہ عامۃ الناس اور خواتین و بچوں کی بھی پرواہ کیے بغیر بم و بارود کی برسات کی جائے۔ ملک شام پہلے سے ہی حالت جنگ میں ہے اگر اس موقع پر شام کے کرد اپنے لیے الگ ملک حاصل کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں تو یہ فطری امر ہے۔کون نہیں چاہتا کہ اسے آزادی اور خومختاری ملے،بالخصوص جنگ زدہ علاقے سے الگ آزاد ریاست کا خواب ایسا سہانا ہے جس کے لیے کوئی بھی قبیلہ یا قوم بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار ہو سکتی ہے۔اس کا حل یہ قطعاً نہیں ہے کہ پوری کی پوری نسل کو ہی قتل کر دیا جائے بلکہ حکمت،تدبر اور سفارتکاری کے ذریعہ مسئلہ کا کوئی پرامن حل بھی نکالا جا سکتا ہے۔کیا ترک حکومت پوری کرد نسل کا خاتمہ چاہتی ہے؟ اگر نہیں تو ممکن ہے کہ آج کچھ نقصان اٹھانے کے بعد شامی ترک سرنڈر کر دیں مگر تا بہ کہ؟ کیا کردستان کا یہ مسئلہ پہلی یا آخری بار اٹھا ہے؟ اس کا حل جب بھی ہو گا ،کامیاب سفارتکاری کی بنیاد پر ہی ہو گا،کردوں کو مراعات دینا ہوں گی ،بلاتفریق حقوق کی ادائیگی اور محرومیوں کا ازالہ کرنا ہو گا۔
دوسری طرف مشرقی غوطہ میں بھی یہی حال ہے اور جس سطح کا قتل عام جاری ہے اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ مسئلہ رٹ کا نہیں نفرت اور انتقام کا ہے۔ اسدی افواج بڑی درندگی سے غوطہ کے عام شہریوں کو تہہ تیغ کر رہی ہیں۔کیا بشار الاسد بھی یہی سمجھتے ہیں کہ سنیوں کا وہ خاتمہ کر دیں گے؟ کیاوہ نفرت کا اس قدر بیج بونے کے بعد اپنی نسل اور ہمنواؤں کے لیے محفوظ وطن چھوڑ کر جائیں گے؟ ایک ہفتے میں بشارالاسد کی افواج نے اپنے ہی شہریوں کے خلاف ظلم و ستم کی جو داستان رقم کی ہے ایسا امریکہ نے افغانستان میں بھی نہیں کیا ہو گا۔اگرچہ افغانستان میں بہنے والا خون بھی کچھ کم نہیں لیکن وہاں پر حملوں میں بھی امریکہ سے زیادہ مسلمان کہلوانے والے ہی ملوث ہوتے ہیں اور برملا ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔گزشتہ ماہ کابل میں ہونے والے حملے کے نتیجہ میں سو سے زائد شہری جاں بحق ہوئے تھے، اس کی ذمہ داری قبول کرنے والے امریکی نہیں تھے۔
تیسری طرف یمن ہے جہاں اتحادی افواج حوثیوں کو بغاوت کا مزہ چکھا رہی ہیں ،لیکن سوال یہاں پر بھی وہی ہے کہ کیا حوثیوں کی نسل کشی مقصود ہے یا آئینی حکومت کی بحالی؟ یا اس کے علاوہ کوئی خلیجی ملک سی پیک اور چاہ بہار منصوبوں کے سامنے آنے کے بعد بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور اپنے معاشی تحفظ کے لیے یمن کی بندرگاہوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے جنگ کرنے پر مصر ہے؟ سوچنے کی بات ہے کہ دو ہفتے قبل سعودی عرب کی درخواست پر متحدہ عرب امارات اور سعودیہ کے درمیان یمن میں جنگ بندی کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات کیوں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے؟جب خود مسلم ممالک ہی کبھی ملک و قوم کے نام پر اورکبھی عقیدہ و مسلک کے نام پر باہم دست و گریباں ہوں گے تو اغیار سے کیا توقع کی جاسکتی ہے؟ خصوصا ًایسے مواقع پر جہاں یہ باہمی لڑائی ان کے مفاد میں ہو۔
اقوام متحدہ اور دیگر عالمی طاقتوں سے جنگ بندی اور پھر مذاکرات کرنے کی اپیل کے بجائے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر دو فریق آپس میں مل بیٹھ کر صورتحال کا سنجیدہ سیاسی حل نکالیں۔ جنگوں کے لیے اربوں ڈالرز کے ہتھیار خریدنے والے ممالک ذرا جائزہ لیں کہ ان ہتھیاروں کی خریداری کا فوری و براہ راست فائدہ کسے پہنچتا ہے اور اس کے نتیجے میں بھڑکنے والی آگ کا ایندھن کون بنتا ہے؟ کیا اپنے ہی گھر اور پڑوس میں لگائی جانے والی آگ کے اثرات سے محفوظ رہا جا سکتا ہے؟
فیس بک پر تبصرے