رابرٹ ریڈلے کا بیان۔۔۔تضادات وانکشافات

1,730

ذرائع کے مطابق نیب کے اعلیٰ حکام نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نوازشریف ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کے خلاف اہم گواہ فرانزک ایکسپرٹ رابرٹ ریڈلے کی گواہی کے دوران نیب کے ناکام پلان پرتشویش کا اظہارکیا اور ناکامی کی وجوہات کا تعین کرنے کی ہدایات بھی کی ہیں۔ ذرائع کے مطابق نیب نے رابرٹ ریڈلے کو واجد ضیا کے فرسٹ کزن راجہ اختر کے ذریعے بیان دینے پر آمادہ کیا۔ اس سے قبل مشترکا تحقیقاتی ٹیم کے وکیل کی حثیت سے انھوں نے ہی نیسکول اور نیلسن کمپنیوں سے متعلق ٹرسٹ ڈیڈ کی فرانزک کے لیے رابرٹ ریڈلے کو ہائر کیا تھا۔ ذرائع کے مطابق  ریڈلے نے پہلے گواہی دینے سے یہ کہہ کر معذرت کرلی تھی کہ ان کے کنٹریکٹ میں کسی عدالت میں پیش ہونا اور گواہی دینا شامل نہیں ہے۔ نیب کی ایک ٹیم  چند ہفتے قبل رابرٹ کو گواہی پر آمادہ کرنے کے لیے لندن بھی گئی تھی۔ نیب ٹیم کی سربراہی نیب کے ڈی جی راولپنڈی ظاہر شاہ کررہے تھے۔ رابرٹ ریڈلے نے کچھ یقین دہانیوں کے بعد نیب کی درخواست تسلیم کرلی۔ تاہم نیب نے گواہ کو واضح نہیں بتایا کہ بیان کس طرح سے ریکارڈ کرایا جائے گا؟ کس طرح کی جرح کا سامنا کرنا پڑے گا؟ ریڈلے کی لیب سے آنے والی رپورٹ پر جہاں وہ اور ان کی بیوی کے علاوہ صرف ایک ملازم کام کرتا ہے ، جرح کے دوران کس طرح کے سوالات کا سامنا کیاجاسکتا ہے؟ ریڈلے کی گواہی سے قبل نیب کی ایک اور ٹیم لندن روانہ ہوئی۔ اس بارڈائریکٹر انوسٹیگیشن عبدالمجید اولکھ اور ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی نیب کی نمائندگی کر رہے تھے۔ نیب ٹیم نے آخری وقت میں رابرٹ ریڈلے کو بتایا کہ اسے پاکستانی ہائی کمیشن میں آکر پہلے اپنے آپ کو پاکستانی حدود میں پاکستانی قوانین کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہوگا۔ ریڈلے کو بتایا گیا کہ ہائی کمیشن کے جس حصے میں وہ بیٹھے ہیں اس کو عدالت کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ نیب ٹیم نے شکیل نامی ایک شخص کی موجودگی میں گواہی سے ایک دن قبل ایون فیلڈ کیس میں اہم گواہ سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں بیان سے متعلق سٹریٹیجی تیار کی گئی۔ اڑھائی گھنٹے کی اس ملاقات کے دوران ریڈلے کی گواہی سے متعلق نوٹس کی صورت میں اہم نکات کو زیب قرطاس بھی کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق اس ملاقات میں نیب کی ٹیم گواہ کو یہ بتانا ہی بھول گئی کہ اس نے اس ملاقات کا احوال کسی کو بھی نہیں بتانا۔ تاہم اگلے ہی دن ریڈلے نے جرح کے دوران سابق وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کے سامنے ایک دن قبل ہونے والی ملاقات کوبھی تسلیم کرلیا۔ اہم برطانوی گواہ نے نیب ٹیم کے ساتھ موجود شکیل نامی شخص کی نشاندہی بھی کی لیکن اس کے ادارے اور شعبے سے متعلق ریڈلے تفصیلات سے آگاہ نہیں تھے۔ جرح کے دوران ریڈلے نے یہ اعتراف بھی کیا کہ اسے یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کی تیار کردہ رپورٹس کو عدالت میں اس طرح پیش کیا جائے گا اور پھر انھیں بھی جرح کے لیے بلایا جاسکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق ریڈلے سے کس طرح کا بیان ریکارڈ کرانا ہے اور پھر نیب نے خود کس طرح اس بیان کا دفاع کرنا ہے اس حوالے سے سرے سے کوئی پلان ہی موجود نہیں تھا۔ ریڈلے جب گواہی دینے پاکستانی ہائی کمیشن پہنچے تو اہم گواہ کے دائیں طرف نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر سردار مظفر بیٹھ گئے جبکہ بائیں جانب وکیل صفائی کے نمائندے سعد ہاشمی موجود تھے جبکہ کمرے میں کچھ اور افراد بھی موجود رہے۔ جب ریڈلے کو جرح کے دوران سخت سوالات کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تو ایسے میں جہاں اسلام آباد سے نیب کی ٹیم نے اعتراضات اٹھاتے ہوئے کئی اہم انکشافات کے سامنے بند باندھا تو وہیں نیب کی لندن میں موجود ٹیم نے ریڈلے کے سامنے ایک دن قبل ہونے والی ملاقات میں تیار کیے گئے نوٹس رکھ لیے۔ اس موقع کو خواجہ حارث کی ٹیم نے ضائع نہیں ہونے دیا اوربھرپور احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے “ریڈلے نوٹس” کو بھی لندن سے اسلام آباد منگوا لیا۔ خواجہ حارث نے ان نوٹس کی مدد سے اہم سوالات کیے جس کے نتیجے میں ریڈ لے نے وہ انکشافات بھی کر لیے جس سے متعلق نوٹس میں درج تھا کہ کون سے نکات پر وضاحت نہیں کرنی اور کس سوال پر کیسے وضاحت دینی ہے۔ یہ سب پلان خواجہ حارث کے سامنے بےنقاب ہوا تو پھر وکیل صفائی نے اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ ریڈلے کو تسلیم کرنا پڑا کہ کیلیبری فونٹ 2006 سے قبل نہ صرف موجود تھا بلکہ لاکھوں عام افراد کے لیے قابل استعمال بھی تھا۔ اس گواہی نے جہاں نیب کی مشکلات میں اضافہ کیا وہیں مریم نواز ان کے والد اور خاوند کے لیے بہت بڑا ریلیف کا سبب بنا۔ نیب کے اہم گواہ کی طرف سے متضاد جوابات آئے تو ایسے میں وکیل صفائی نے انگلش گواہ کو یہ کہہ کرمزید غصہ دلایا کہ وہ دراصل جھوٹ بول رہا ہے۔ اس داغ کو دھونے کے لیے گواہ نے جرح کے دوران کئی چھپے راز بھی اگل دیے۔ لندن فلیٹس مقدمے کے تین ملزمان نے اس گواہی کا ہر فورم پر خوب چرچا بھی شروع کردیا ہے۔ نیب کا لندن پلان ناکام ہونے کی ایک اور بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ گواہ ریڈلے کا ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کے تحت لیا گیا بیان بھی گواہی کے وقت اس کے سامنے میز پر رکھ دیا گیا۔

قانونی ماہرین کے مطابق گواہ کا بیان صرف تفتیشی افسرکے پاس ہوتا ہے جسے وہ چالان کے ساتھ عدالت میں جمع کرانے کا پابند ہوتا ہے۔ اس بیان کا ریڈلے کی میز پر رکھنے سے اہم گواہ کی گواہی کی قانونی حثیت پر سوالات اٹھ گئے۔ وکیل صفائی نے نیب کی اس غلطی کا بھی بھرپور فائدہ اٹھایا۔ دوران جرح خواجہ حارث اس غیر قانونی اور گواہی پر اثر انداز ہونے والے عمل کو بھی عدالت کے ریکارڈ پر لے  آئے۔ ریڈلے کی گواہی کے دوران لندن میں نیب ٹیم کی مداخلت نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ خواجہ حارث کی نشاندہی پر احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کے کہنے کے باوجود نیب کی ٹیم نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ آبزرور کے طور پر نہیں بلکہ نیب کی نمائندگی کے طور پر لندن آئے ہیں  تاکہ اس عمل کوقانونی طور پر آگے بڑھایا جاسکے۔ یہ ٹرائل کے دوران شاید پہلا موقع تھا جب احتساب عدالت اور وکیل صفائی ایک طرف تھے جبکہ نیب کی لندن میں موجود ٹیم کا موقف مختلف تھا جس کا نیب کو نقصان اٹھانا پڑا۔

گواہی کے تقریبا 12 گھنٹے ریڈلے کے لیے اس لحاظ سے مشکل ثابت ہوئے کہ وہ اس حوالے سے ذہنی طور بھی تیار نہیں تھا۔ گواہی کے عمل کے دوران اسے شدید مشکلات کا سامنا رہا۔ بار بار منرل واٹر کی بوتلیں ہاتھ میں تھامے ریڈلے واجد ضیاء اور ان کے فرسٹ کزن راجہ اختر کی طرف سے ای میلز کے تبادلے کا ریکارڈ بھی ظاہر کرنے پر آمادہ ہوچکے تھے۔ ایسے میں اسلام آباد سے نیب کی پراسیکیوشن ٹیم نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ قانون ایسی تفصیلات منظرعام پر لانے کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ وہ اہم موڑ تھا جب مزید انکشافات کا سلسلہ تھم گیا۔ دوران سماعت گواہ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ اسے رپورٹ تیار کرنے کے مقاصد سے آگاہ کیا گیا اور نہ ہی مناسب وقت دیا گیا جس سے وہ مفصل رپورٹ تیار کرتا۔

 

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...