مسئلہ شام کا حل صرف جمہوریت کے پاس ہے

934

ان دنوں شام کا شہر “غوطہ” عالمی میڈیا کی شہہ سرخی بنا ہوا ہے۔ اس وقت یہ شہر ملکی اور بین الاقوامی دہشت گردی کا شکار ہے۔ تقریبا چار لاکھ  لوگوں کی جان خطرے میں ہے۔اگرچہ اقوام متحدہ نے متحارب گروہوں سے جنگ بندی کی اپیل کی ہے لیکن فریقین میں سے کوئی بھی اقوام متحدہ کی اپیل پر کان دھرنے کو تیا رنہیں۔”غوطہ” شام کے دارلحکومت “دمشق” سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔دارلحکومت کے قریب ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ حکومت اور باغیوں دونوں ہی کے لئے اہم ہے۔ چار لاکھ آبادی کے اس شہر کی نصف آبادی بچوں پر مشتمل ہے۔2013 سے شروع ہونے والی خانہ جنگی کے بعد سے بشار الاسد کی حامی اور باغی افواج اس پر قبضہ کرناچاہتی ہیں۔
پندرہ مارچ کو شام میں ہونے والی خانہ جنگی کو آٹھ برس پورے ہو جائیں گے۔ اس خانہ جنگی کے شروع ہونے سے پہلے بھی شام میں انسانی حقوق کی شدید پامالی جاری تھی۔ بشارالاسد کی آمریت سے پہلے حافظ الاسد کی آمرانہ حکومت تیس سال قائم رہی جس میں سیاسی مخالفین کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔ بشار الاسد نے بھی اپنے باپ کی آمرانہ پالیسیوں کو جاری رکھا اور اپوزیشن پر زمین تنگ کئے رکھی۔”عرب بہار” کی آمد نے تیونس اور مصر کی آمریتوں کو ختم کیا تو شام کے شہری بھی اپنے حقوق اور نظام حکومت کی تبدیلی کے لئے سڑکوں پر نکلے،لیکن صدر بشار کی حکومت نے ان “پرامن مظاہروں” کو تشدد سے کچل ڈالا۔درجنوں افراد مارے گئے اور سینکڑوں کو جیل میں ڈال دیا گیا۔جولائی 2011 میں فوج کے ایک حصے نے بشار الاسد کی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی اور ملک کے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ اس بغاوت کو کچلنے کی خاطر بشار الاسد کی حمایتی افواج سامنے آئیں ۔یوں ملک میں باقاعدہ خانہ جنگی کا آغازہوا۔

2011 میں برپا ہونے والی”عرب بہار” سے پہلے شام کے عوام شدید قحط کا شکار تھے۔تقریبا پندرہ لاکھ لوگ دیہاتوں سے نکل کر شہروں کی طرف آئے جس سے ان شہری علاقوں میں غربت اور سماجی بے چینی میں اضافہ ہوا۔ اگرچہ”عرب بہار” کی حمایت میں ہونے والے کسی بھی قسم کے مذہبی جنوننیت کا شکار نہ تھے لیکن اس کے بعد بشار الاسد کے حمایتیوں اور باغیوں کے درمیان ہونے والی خانہ جنگی مسلکی  بنیادوں پر لڑی جارہی ہے۔باغی فوجیوں کی اکثریت کا تعلق “سنی مسلک” سے ہے جب کہ بشار الاسد اور اس کے حمایتیوں کا تعلق “علوی مسلک” سے ہے۔
شام میں ہونے والے فساد اور خانہ جنگی میں اس کے ہمسائیوں نے بھی اپنا بھر پور حصہ ڈالا ہے۔ایک طرٖف بشار الاسد کی حمایت میں ایران ،عراق کی حکومتیں اور لبنان کا مذہبی گروہ حزب اللہ سرگرداں ہیں تو دوسری طرف باغیوں کی مدد کے لئے ترکی،قطر اور سعودی عرب موجود ہیں۔ اپنے اپنے گروپوں کی حمایت کی خاطر پہلے اس جنگ میں امریکہ اور بعد میں روس بھی شامل ہوگئے۔اس طرح ایک ملکی مسئلہ عالمی طاقتوں کی پراکسی جنگ میں تبدیل ہوگیا۔

2013 میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے صدربشار الاسد کی باغیوں کی تربیت پر پانچ سو ملین ڈالر خرچ کئے۔ 2015میں روس اس جنگ میں شامل ہوا اور اس کے فوجی طیاروں نے داعش اور اسد مخالفین کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ روس نے صدر بشارالاسد کی حفاطت کے لئے اپنی سیکورٹی بھی مہیا کی۔2016سے ترکی کی فوج داعش اور کر د مخالفین کو کچلنے کے نام پر شام کے کئی علاقوں میں مداخلت کر رہی ہے۔ترکی کے علاوہ اسرائیلین ائیر فورس حزب اللہ کے ٹھکانے تباہ کرنے کے نام پر شام میں بمباری کر رہی ہے۔ 2017میں شام کو کیمیائی ہتھیاروں سے روکنے کے نام پر امریکی ٹام ہاک میزائلیوں نے شام کی کئی فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچایا۔
شام میں جاری خانہ جنگی کو ختم کرانے اور امن قائم کرنے کی خاطر کئی کوششیں کی گئیں۔ جینیوا،آستنہ اور سوچی میں کئی بار مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا لیکن کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
شام کے مسئلہ کا حل صرف جمہوریت کے پاس ہے۔ یہ خوبی صرف جمہوریت میں ہے کہ وہ اقتدار کی تبدیلی کا ایک پرامن طریقہ بتاتی ہے۔ جمہوریت کسی بھی  معاشرے کے لیے نعمت سے کم نہیں۔ شام میں امن کی صرف ایک صورت ہے کہ وہاں ایک جمہوری حل پر اتفاق کر لیا جائے۔ اس کے لیے بشار الاسد کا معزول ہونا اور دوسرے گروہوں کا غیر مسلح ہونا لازم ہے۔ یہ  صدر بشار الاسد کے لیے ایک محفوظ راستہ ہے۔ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی فریقین پر مبنی ایک نگران عارضی حکومت کا قیام اور آزادنہ انتخابات کے ذریعے اپنے نمائندے چننے کا اختیار ہی شام کے مسئلے کا حل ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...