سینیٹ انتخابات اور متوقع آئینی ترمیم

1,257

بے شمار خدشات،امکانات اور کوششوں کے طاقتور مغلوبے کی شدید موجودگی کے باوجود تین مارچ2018 کو ملک بھر میں سینیٹ کے واجب نصف ارکان کا انتخاب ہوگیا ہے۔انتخاب کا انعقاد بذات خود مستحسن مرحلہ ہے جسے جمہوری نظم کی فتح قرار دیا جارہا ہے تو دوسری جانب اس انتخابی معرکے سے وابستہ کئی امور و واقعات انتہائی ناخوشگوار تشویش کے حامل ہیں۔سینیٹ انتخاب کے عدم انعقاد کے خدشے کا تعلق اس پس پردہ تقاضے اور روبہ عمل کوشش سے تھا جو براہ راست مجوزہ عام انتخابات2013کے ممکنہ نتائج کے بطن سے ایک مضبوط ومستحکم پارلیمانی حکومت کے قیام سے متعلق تھی اور اسی سے وابستہ ان خطرات کی زد میں بھی تھی جو طاقتور حلقے کی کلیت پسند اختیاراتی ضرورت،تسلسل اور خواہش سے متصادم ہونے سے ابھر سکتے تھے۔قیاس کی اسی وادی میں پارلیمنٹ اور ریاستی طاقت کے بیچ تناؤ کے جنم نے ملک کو سیاسی طور پر غیر مستحکم اور ناہموار بنا رکھا ہے ،حالانکہ ایک آئینی ریاست کے اعتبار سے اس میں ہونے والے اقدامات،واقعات اور سیاسی امور کے متعلق ہر شہری کو یقین ہونا چاہیے کہ دستور پاکستان نے تمام مراحل اور فیصلوں کو ضابطہ میں ڈھال رکھا ہے۔غیر یقینی صورتحال جو سینیٹ کے انتخاب پر بحث کا موضوع رہی اور اب بھی عام انتخابات کے بروقت انعقاد کے متعلق موجود ہے۔دراصل آئین سے ماورا،طاقت کے اقدامات سے وابستہ امکانات سے نتھی ہیں جن کی ملکی تاریخ کے بیشتر ابواب عملی شہادت دیتے ہیں۔یہاں آئین سے بالاتر کچھ بھی ممکن ہے مگر اس امکان کے باوجود ہم ایک آئینی ریاست کے قانونی شہری ہیں نہ کہ کسی سلطنت کی رعایا۔
سینیٹ کے انتخابی نتائج بذات خود اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ ان کا انعقاد کیونکر ممکن ہوا۔اس کا آغاز بلوچستان میں بذریعہ اسمبلی،مسلم لیگ کی مخلوط حکومت کے اچانک انہدام سے ہوا۔سینیٹ انتخاب نے بتا دیا کہ حکومتی تبدیلی کے پس پردہ مسلم لیگ کو سینیٹ میں حاصل ہونے والی نشستوں سے کسی نہ کسی طور پر کم تر سطح پر لانا تھا اور یہ مقصد چونکہ حکومتی تبدیلی جو مسلم لیگ میں انتشار کے ذریعے ممکن ہوتی،آخری تجزیے میں،مسلم لیگ کو سینیٹ میں پانچ نشستوں سے محروم رکھنے کی حکمت عملی کی کامیابی پہ منتج ہونی تھی۔ لہٰذا سینیٹ کے انتخاب کا خدشہ بلوچستان میں تبدیلی حکومت کے بعدبہت کم ہو چکا تھا۔دوسری جانب سندھ اسمبلی میں شہری حلقوں کی نمائندہ جماعتوں(جو ایک ہی جماعت کی تقسیم کا نتیجہ ہیں)کے بعدامکانی طور پرمسلم لیگ کو سینیٹ میں ملنے والی معاونت سے محرومی کے ذریعے ممکن و سہل بنا لیا گیا۔
بلوچستان اسمبلی میں مسلم لیگ کی د اخلی بغاوت سے وابستہ نتائج یقینی بنانے کیلئے یہ بھی ضروری تھا کہ اسمبلی میں جہاں کوئی آزاد رکن اسمبلی موجود نہیں،پولیٹیکل پارٹی ایکٹ کی خلاف ورزی سے کیونکر بچایا جائے؟اس مقصد کے لیے سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کی نااہلی کو تروتازہ کیا گیا اور پارلیمان کی منظور کردہ قانونی ترمیم کو تعبیر و تشریح کے استحقاق میں لپیٹ دیا گیا تو الیکشن کمیشن نے کسی بھی قانونی و آئینی استحقاق کے بغیرمگر ازراہ کرم میاں نواز شریف کے نامزد کردہ ارکان کو نااہل کرنے کی بجائے انہیں آزاد امیدواروں کی صورت دے دی اور یوں بلوچستان اسمبلی کے باغی یا منحرف لیگی ارکان کو بطور آزاد امیدوار سینیٹ کے انتخاب میں شرکت کی راہ ہموار کردی ۔
متذکرہ صدر فیصلوں کے بعد ذرائع ابلاغ میں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے سینیٹ انتخاب میں ہونے والی ٹریڈنگ پر تنقید بجا مگر بعد از وقت ہے، اس پر انتخاب سے قبل اور ان تمام خدشات کی روشنی میں واضح نقطہ نظر کے ساتھ عوامی مباحثہ ہونا چاہیے جو اب تین مارچ کے بعد سے شروع ہے۔

دو نکات  جن پر بات کرنا ضروری ہے۔

(الف) کیا قانون کے تحت کسی شخص کو اس کے ایک قصور پر بار بار سزا دی جاسکتی ہے؟ایسا کرنا انصاف کے مسلمہ اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے؟

(ب) پاکستان میں بادشاہ گر کون ہے؟جس کا راستہ روکنا اشد ضروری قرار دیا جارہا ہے؟

پہلے سوال پر ماہرین قانون بہتر طور پر روشنی ڈال سکتے ہیں۔میرا کہنا بس یہ ہے کہ نواز شریف کو اقامہ پر قومی اسمبلی کی رکنیت سے محروم کرکےانہیں  ان کے’’جرم‘‘ کی سزا دی جا چکی ہے جو شاید جرم سے کہیں زیادہ ہے ،  پھر اسی سزا پر معزز عدلیہ نے ایک اور تازیانہ کیوں چلایا؟
کیا  انصاف کے مسلمہ اصولوں کے مطابق کسی بھی شخص کو قانونی سزا بھگت چکنے کے بعد سماجی،سیاسی سرگرمیوں سے محروم یا الگ کیا جاسکتا ہے کہ وہ سزا یافتہ ہے؟جبکہ آئین کی دفعہ17ہر شہری،سیاسی،پیشہ وارانہ سماجی و مذہبی تنظیم سازی کرنے یا اس میں شرکت کا ناقابل تنسیخ حق تفویض بھی کرتا ہو توشق(2)17بعض حدود و قیود کا اظہار کرتی ہے۔یہاں زیر بحث معاملہ62ایف کے تحت نااہلی کا ہے جس کی مدت غیر معینہ یا مہبم ہے اور عدلیہ نے اس سقم کو بھی اپنے فیصلے میں تسلیم کیا ہے تو پھر کیونکر پارلیمان کے منظور کردہ قانون کی تعبیر و تشریح،خط تنسیخ بن سکتی تھی؟کیا اعلیٰ اخلاقی قدروں کو کسی قانون کے ذریعے پرکھنا ممکن ہے؟

سینیٹ انتخاب سے ایک روز قبل تفصیلی فیصلے کے ذریعے سوال اٹھایا گیا ہے کہ کس طرح ایک نااہل بادشاہ کو بادشاہ گر بننے کا حق دیا جاسکتا ہے؟یہ الفاظ اخلاقیات کے تدریسی نصاب میں جتنے عمدہ ہوسکتے ہیں،کسی آئینی جمہوری پارلیمانی ریاست کے عدالتی فیصلے سے مناسبت نہیں رکھتے۔کیونکہ بادی النظر میں آئین پاکستان میں شاہی سلطنت کے ہم معنیٰ بتایا گیا ہے اور نواز شریف کو نااہل بادشاہ۔اگر یہ سوال اٹھایا جائے کہ کیا کسی بادشاہت میں عمومی طور پر عدلیہ،شہنشاہ عالی مقام کو اس کے منصب سے برخاست کرسکتی ہے؟اگر نواز شریف کو عدلیہ عہدے سے ہٹا سکتی ہے تو پھر اسے تعبیری طور پر بادشاہ سے تشبیہ دے کر عوام کو کیا پیغام دے رہی ہے؟یہی کہ وہ آئینی حقوق کے مالک ریاستی شہری نہیں بلکہ ایک مطلق العنان بادشاہت کی بے بس رعایا کے سوا کچھ نہیں؟میں بصد احترام اس تبصرے کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہوں کیونکہ میرا ملک و ریاست کے ساتھ رشتہ دستور پاکستان کے ذریعے طے شدہ ہے اور آئین کے علاوہ ہر فعل پر اختلاف رائے میرا  ناقابل تنسیخ حق ہے۔کیا بادشاہ گر وہی ہوتا ہے جو کسی شخص کو مسند پہ بٹھائےیا وہ بھی اسی زمرے میں آسکتے ہیں جو کسی وزیراعظم کو مسند اقتدار سے محروم کردیں؟۔میرے ملک میں ایسا کئی بار ہوا ہے۔طاقت کے زور پر یا قلم کے ذریعے اور جب جب بذریعہ طاقت بادشاہی قائم  ہوئی،قلم نے اسے سندِ جواز بخشی۔تو کیا یہ عمل نہیں بتاتا کہ ملک میں اصل بادشاہ گر کون ہیں؟

آئین پاکستان کے دیباچے میں سنہری الفاظ درج ہیں۔

’’اظہر من الشمس،اللہ تعالیٰ ہی تمام کائنات کا بلا شرکت حاکم کل ہے اور پاکستان کی قوت جمہور کو جو اقتدار و اختیار کی مقررہ حدود کے اندر استعمال کا حق ہوگا وہ ایک مقدس امانت ہے‘‘

سینیٹ کے انتخاب کے بعد فوری طور پر چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کیلئے سرگرمیاں شروع ہوگئی ہیں۔ ایک خبر کے  مطابق پی ٹی آئی کے رہنما  جہانگیر ترین نے بلوچستان اسمبلی کےآزادو منحرف اراکین کو  مبارکباد دی اور انوار الحق کاکڑ کو چیئرمین سینیٹ بنانے کی مشروط پیشکش کی ہے۔یہ پیشکش اگر توجہ ہٹانے کی سعی سے آگے کوئی سنجیدہ عمل ہے تو قابل توجہ بھی ہوسکتا ہے۔اگر انوار الحق کاکڑ اور پی ٹی آئی کے سیاسی پس منظر کو ملحوظ رکھیں تو دونوں ایک ہی چشمہ سے پھوٹنے والے دریا ہیں۔کیا یہ تاثر اخذ کرنا درست ہوگا کہ صاحبان اختیار و طاقت نے آصف زرداری کو جو مواقع دیے تھے، اب ان کی حدود ختم ہورہی ہے اور ان کے نامزد کردہ شخص کو چیئرمین بنائے جانے کی مزاحمت شروع ہوگئی ہے۔ سینیٹ انتخاب سے ایک سبق آموز نتیجہ جناب کہدہ اکرم دشتی کی کامیابی ہے جنہیں تین بار بسیار کوشش صوبائی اسمبلی تک پہنچنے سے محروم رکھا گیا۔لیکن جناب اکرم نے سیاسی جدوجہد جاری رکھی اور اب وہ تمام مزاحمتوں کے باوجود ملک کے ایوان بالا میں بلوچستان کی نمائندگی کرینگے۔یہ نقطہ غیر سیاسی ذرائع اپنانے والے عہدکاروں کیلئے بہت سے اسباق کا حامل ہے۔نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے میں معزز عدلیہ نے دفعہ62کے تحت نااہلی کی مدت کے ابہام و سقم کو اجاگر کیا اور پارلیمان سے اس کی مدت کا تعین کرنے کی بھی رہنمایانہ توجہ دلائی ہے۔

امکان ہے کہ23مارچ کے بعد پارلیمان اس آئینی سقم کو دور کرنے کیلئے آئینی اقدام کرنے اور نااہلی کی مدت کا ابہام دور کرتے ہوئے مدت کا تعین کردے۔مگر اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ تعبیر و تشریح کے استحقاق کے ذریعے پارلیمان کی ترمیم و اصلاح پر خط تنسیخ نہیں پھیرا جائیگا؟کیونکہ دلائل تو پہلے سے شروع ہو چکے کہ فرد واحد کو فائدہ پہنچانے والے قانون/آئین سازی کو’’قبول‘‘نہیں کیا جاسکتا۔

کیا ہم لاشعور ی طور پر آئینی اسکیم کی ناکامی کے ذریعے یا اختیارات کے موجودہ طے شدہ ڈھانچے میں تبدیلی کے لیے  کوشاں ہیں؟یا نئے عمرانی معاہدے کے لیے ماحول سازگار بنایا جارہا ہے تاکہ ریاست کے ماتحت مگر طاقتور ادارے کو بھی’’آئینی کردار‘‘تفویض کرایا جاسکے؟اللہ کرے میرے خدشات نقش بر آب ہوں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...