یہ ہے بجٹ ، عام آدمی کے لئے سبز باغ ،سرمایہ دار باغ و بہار
پاکستان کی ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ اسے کوئی وزیر خزانہ نہیں ملا اسے صرف چارٹر اکاؤنٹنٹ ملے ہیں جن کی مہارت صرف بیلنس شیٹ بنانے کی ہوتی ہے ۔اگر ہمیں ایک من موہن سنگھ مل گیا ہوتا تو آج پاکستان کی صورتحال مختلف ہوتی
پاکستانی بجٹ کے بارے میں ایک فقرہ بر محل لگتا ہے کہ یہ الفاظ کا گورکھ دھندا ہے ۔وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جب آئندہ مالی سال 18-2017 کا 47 کھرب 50 ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش کیا اور اس کے اعداد و شمار بیان کئے تو کئی باتیں ایسی ہیں جو سمجھ میں نہیں آتیں ۔مثال کے طور پر آئندہ مالی سال کے دوران ترقیاتی اخراجات پر ایک ہزار ایک ارب روپے سے زائد خرچ کیے جائیں گے۔اور اسی دوران اتنی ہی رقم کسانوں کو قرض دی جائے گی ۔صوبائی حکومتوں کو قومی آمدنی میں سے 2 ہزار 384 ارب روپے دیئے جائیں گے ۔دفاعی بجٹ بجٹ 9 کھرب بیس ارب کا ہے ۔ دفاع ، ترقیاتی بجٹ ، صوبوں کو دائیگیاں ملائی جائیں تو یہ کل بجٹ ہے ۔لیکن اس میں پاکستان کے ذمے جو قرضے ہیں ان پر بھی کھربوں کی ادائیگیاں کی جانی ہیں ۔وہ کہاں سے دی جائیں گی اس کے بارے میں وزیر خزانہ کی تقریر خاموش ہے ۔شاید اس کے لئے مزید قرض لیا جائے گا یعنی جو حکومت قرضوں کی ادائیگی کے لئے مزید قرضے لے رہا ہے اس کی معاشی پالیسیوں کا اندازہ لگا لیں ۔
ویسے اس ملک میں ترقیاتی بجٹ ، تعلیمی بجٹ اور صحت کا بجٹ صرف دکھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ ہر سال کے آخر پر اخبارات میں خبریں آتی ہیں کہ اتنا پیسہ ضائع ہو گیا فلاں منصوبہ شروع ہی نہیں کیا جا سکا اور اس کے لئے مختص رقم خزانے میں واپس چلی گئی ۔ جبکہ حقیقت میں ایسا بہت کم ہوتا ہے ۔عموماً وہ رقم جو اس منصوبے کے لئے خرچ کی جانی ہوتی ہے وہ یا تو خزانے میں ہوتی ہی نہیں ہے اور اگر ہو بھی تو اسے کسی اور مد میں خرچ کر دیا جاتا ہے ۔
گزشتہ سال راولپنڈی ، ملتان میں میٹرو بس چلائی گئی جس پر تقریباً سو ارب روپے خرچ ہوئے ۔یہ رقم بھی ظاہر ہے کسی اور شعبے سے نکالی گئی ۔اسی طرح اس سال کسانوں کے لئے ایک ہزار ارب روپے رکھے گئے ہیں مگر شاید مالی سال کے آخر تک اس رقم میں سے ایک سو ارب بھی استعمال نہ ہو سکیں یہ رقم بھی کسی اور مد میں خرچ کی جائے گی ۔ اگلا سال الیکشن کا ہے تو یہ رقم گلیوں ، نالیوں اور بجلی کے کھمبوں کی نظر کر دی جائے کیونکہ ووٹ بھی تو لینے ہیں ۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ کے تحت پاکستان میں بجلی کے منصوبوں کے لئے 34ارب ڈالر یعنی تقریباً
38 کھرب روپے خرچ کئے جانے ہیں لیکن اتنی بھاری رقم کے علاوہ الگ سے توانائی کے منصوبوں کے لئے 401ارب روپے ملکی آمدنی سے صرف کرنے کا کیا جواز ہے ؟
اسی طرح سی پیک منصوبوں کے لئے مزید 180 روپے خرچ کرنے کا بتایا گیا ہے ۔چین بھی سی پیک پر جو 54 ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے ۔یعنی اگر یہ رقم پاکستان کے بجٹ سے ہی نکالنی ہے توپھر چین سے بھاری قرضے لینے کی ضرورت ہی کیا تھی ؟کوئی سمجھا سکتا ہے کہ حکومت ہمیں کیا بتانا چاہتی ہے ؟
میں یہاں حکومت کی جانب سے صحت و تعلیم پر مختص اخراجات کی تفصیل نہیں دینا چاہتا کیونکہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت وہ اب صوبوں کی ذمہ داری ہے ۔اس مد میں حکومت نے جو 23 ارب روپے رکھے ہیں اس سے یہ سمجھیں کہ وفاقی دارلحکومت کے دو ہسپتالوں اور چند درجن کالجوں اور ایک عدد یونیورسٹی کے سٹاف کی تنخواہیں ادا کی جائیں گی اور باقی رقم سے ممبران پارلیمنٹ کاعلاج ہو گا۔
اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں پر معیشت کے بارے میں میڈیا کی صلاحیتیں بہت محدود ہیں نہ کوئی معیاری معاشی میگزین ہے نہ کوئی باصلاحیت رپورٹر ، اس لئے جب بھی بجٹ پیش ہوتا ہے اخباروں میں یا تو تووزیر خزانہ کے بیانات چھپتے ہیں یا پھر یہ کہ فلاں چیز مہنگی ہو گئی اور فلاں سستی ،اور دوسری جانب حکومت کی عملداری بھی سوالیہ نشان ہے اگر بجٹ میں فی ٹن سریا پر ڈیوٹی ایک فیصد بڑھتی ہے تو مارکیٹ میں سریئے کی قیمت پانچ فیصد بڑھ جاتی ہے کیونکہ ملوں کے مالکان کو بھی قیمتیں بڑھانے کا کوئی نہ کوئی جواز چاہئے ہوتا ہے ۔حد تویہ ہوتی ہے کہ بجٹ کے بعد تندوروں پر روٹیوں کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں اور اگر حکومت ان پر ہاتھ ڈالتی ہے تو وہ اگرقیمتیں واپس بھی لے لیں لیکن روٹی کا وزن گھٹا دیتے ہیں ۔
ہمارے ملک کو بجٹ اس لئے بھی گورکھ دھندا ہوتا ہے کہ ایوبی دور تک وہ جاگیرداروں کے مفادات کے مطابق بنتا تھا اور اب سرمایہ داروں کے ، پاکستان میں عملاًسرمایہ داری نظام رائج ہے حکومت نے صحت ، تعلیم اور پانی سمیت تمام سہولتوں سے ہاتھ اٹھا لیا ہے ۔علاج آپ کو کرانا ہے تو پرائیویٹ ہسپتال ، بچوں کوپڑھانا ہے تو پرائیویٹ سکول اور اگر صاف پانی پینا ہے تو منرل واٹر کی کمپنیاں ، یہ تینوں شعبے اب اربوں ڈالر کی سالانہ انڈسٹری بن چکے ہیں۔جن ملکوں میں سرمایہ داری نظام رائج ہے وہاں کم از کم اتنا انصاف ضرور ہے کہ آبادی کا وہ حصہ جو غربت کے لکیر پر ہے ا س کے لئے کم از کم سب کچھ مفت ہے مگر یہاں تو سرمایہ داری نظام کی بھی بد ترین شکل رائج ہے یہاں پر اشرافیہ کو وہ تمام سہولتیں مفت حاصل ہیں جو کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں عام شہری کو حاصل ہوتی ہیں مگر غریب کے لئے نہ روٹی ہے نہ دوائی ۔
پاکستان کی ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ اسے کوئی وزیر خزانہ نہیں ملا اسے صرف چارٹر اکاؤنٹنٹ ملے ہیں جن کی مہارت صرف بیلنس شیٹ بنانے کی ہوتی ہے ۔اگر ہمیں ایک من موہن سنگھ مل گیا ہوتا تو آج پاکستان کی صورتحال مختلف ہوتی ۔شوکت عزیز کے دور میں قدرے صورتحال بہتر ہوئی تھی مگر ان پالیسیوں کو تسلسل نہیں ملا ۔
نواز حکومت کا یہ پانچواں بجٹ ہے ۔جو بلند بانگ دعوے کئے گئے تھے ان کی حقیقت آج تک کسی کو معلوم نہیں ۔البتہ سرمایہ داروں کی اثاثے روز بروز بڑھ رہے ہیں۔گورکھ دھندا جاری ہے ۔عام آدمی کے لئے سبز باغ اور سرمایہ دار باغ و بہار ۔
فیس بک پر تبصرے