ایف اے ٹی ایف کاڈرامہ ختم مگر پریشانی باقی ہے

محی الدین عظیم

1,469

خدشات ہیں کہ اگر دہشت گرد عناصر کے مالیاتی نظام کو روکنے کے پاکستانی اقدامات ناکافی ثابت ہوئے تو اس کی معیشت کو نقصان ہوگا۔

ڈرامے کے لمحات ختم ہوچکے ہیں ۔ اگرچہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اےٹی ایف) جوکہ عالمی سطح پر منی لانڈرنگ کے انسداد کے لئے قائم کردہ نگران ادارہ ہے ، نے پاکستان کو دہشت گرد عناصر کی مالی معاونت کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل نہ کرنے کا فوری فیصلہ کیا ہے تاہم یہ طے کر لیا گیا ہے کہ اس معاملے پر مزید فیصلہ جون میں کیا جائے گا ۔جب ایف اے ٹی ایف نے پیرس میں ہونے والی حالیہ تین روزہ کانفرنس کے بعد باضابطہ اعلامیہ جاری کیا تو پاکستان کا نام اس نام نہاد گرے لسٹ میں شامل نہیں تھا جس میں ان ممالک کا ذکر کیا جاتا ہے جو دہشگردی کے عالمی مالیاتی نظام کے انسداد کے لیے اپنے فرائض پورے نہیں کررہے ہوتے۔ تاہم جیسا کہ توقع تھی پاکستان کو اس میں کھلی چھٹی بھی نہیں ملی ۔ ایک اعلیٰ پاکستانی عہدیدار نے تصدیق کی ہے کہ ایف اے ٹی ایف نے جون کے مہینے میں پاکستان کو اس فہرست میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جسے گرے لسٹ کہا جاتا ہے۔ اس سے ہماری وہ امیدیں دم توڑ گئی ہیں کہ ہم اس کارروائی سے محفوظ رہیں گے۔

یہ معاملہ تب پیش آیا جب ریاستہائے متحدہ امریکہ نے اپنی ابتدائی کوششوں میں ناکامی کے بعد اس معاملے پر دوبارہ رائے شماری کروانے کو کہا ۔ ابتدا میں ترکی ، سعودی اور چین کی جانب سے حمایت نہ ملنے پر اسے اس کوشش میں ناکامی ہوئی تھی ۔ میڈیا کے مطابق دوباہ کی گئی دوباہ رائے شماری میں سعودی عرب اور چین نے رائے شماری میں خاموشی اختیار کی اور ترکی اس معاملے پر پاکستان کا تنہا حمایتی رہا۔

ایف اے ٹی ایف کے قوانین کے مطابق کسی ایک ملک کے اختلاف رائے سے کسی مشترکہ قرارداد کو غیر موثر نہیں کیا جا سکتا ۔ اعلیٰ عہدیداران کے مطابق پاکستان دہشتگرد عناصر کے مالیاتی نظام کے انسداد کے لئے اپنا نیا لائحہ عمل مئی میں ایف اے ٹی ایف کو جمع کرائے گا۔ ایف اے ٹی ایف جون میں پاکستان کو گرے لسٹ میں اندراج کرنے کے بعد جائزہ لے گی کہ ہم اپنے طے شدہ نئے لائحہ عمل پر کس حد تک موثر صورت میں عمل پیرا ہیں ۔ ان کی نگرانی اور جائزے کے بعد کہ ہم اپنی ذمہ داریاں ادا کررہے ہیں ، تنظیم پاکستان کا نام مستقبل میں اس گرے لسٹ سے ہٹالے گی۔ پاکستان اس سے قبل 2012 تا 2015  تک گرے لسٹ میں شامل رہ چکا ہے۔ پاکستان نے امریکہ کی جانب سے دوبارہ رائے شماری کروائے جانے کے عمل کو ان کی سیاسی چال قرار دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ  اس سارے معاملے میں موجود حد درجہ ڈرامے بازی کی بنیاد تھی۔ یہ حقیقت کہ بھارت نے پوری دلجمعی سے کوشش کی تھی کہ پاکستان کا نام فی الفور گرے لسٹ میں شامل کیا جائے ۔

جب اس تحریر کے لکھاری نے ای میل کے ذریعے سابق گورنر بنک دولت پاکستان سے اس معاملے پر سوالات پوچھے تو ان کا بھی یہی جواب تھا ۔ وہ لکھتے ہیں کہ جیوپولیٹیکل ایجنڈے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ امریکہ افغانستان میں دباؤکا شکار ہے اور بھارت امریکی خارجہ پالیسی پر یکسوئی سے عمل پیرا ہے ۔ ایسی صورت میں جب پاکستان کو قرض ادائیگیوں میں توازن قائم رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے ،وہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کوشش کرےگا۔یہ خدشات بھی موجود ہیں کہ اگر پاکستان کی طرف سے دہشتگردی کے مالیاتی نظام کے انسداد کے لئے اٹھائے گئے نئے لائحہ عمل کا بھی کامیاب نتیجہ سامنے نہ آیا اور پاکستان گرے لسٹ میں شامل رہا تو ملک کی معیشت مزید کمزور ہوجائے گی۔

مزید باریک بینی سے جائزہ لیں تو اس وجہ سے بین الاقوامی برآمدات متاثر ہوں گی اور تجارتی تسلسل متاثر ہوگا ۔ نتیجے میں غیر ملکی کرنسی اور سٹاک مارکیٹ میں غیر یقینی کی کیفیت بڑھے گی ۔ اس سے ملکی نظام مزید انتشار  کا شکار ہوگا اور خاص طور پر ایسے حالات میں جب کہ ملک میں جلد ہی عام انتخابات ہونے جارہے ہیں ۔

حالیہ مالیاتی سال کے پہلے سات مہینوں میں کرنٹ اکاونٹ خسارے میں 6.182بلین ڈالرز سے (جوکہ گزشتہ سال تھا) اضافہ ہوکر9.156 بلین ڈالرز ہوچکا ہے۔ ملک میں غیر ملکی کرنسی کے ذخائر میں کمی واقع ہوئی ہے۔ امسال جنوری میں گزشتہ سال کے 22.242 بلین ڈالرز سے کم ہوکر18.956 بلین ڈالرز ہوگئے ہیں ۔ مرکزی بنک کے خزانے میں موجود ( جنوری2018 تک اعدادوشمار کے مطابق12.794 بلین ڈالرز) کی رقم بمشکل 3 مہینے کی درآمدات کے لئے کافی ہوگی۔

اس مالیاتی سال کے پہلے نصف میں ٹوٹل جی ڈی پی کا تجارتی خسارہ.22 فیصد رہا ہے مگر یہ حتمی ہے کہ اس سال کے آئندہ نصف میں مزید بڑھ جائے گا کیونکہ انتخابات ہونے والے ہیں ۔ علاوہ ازیں بھی تجارتی خسارہ سال کے دوسرے نصف میں پہلے نصف کی نسبت زیادہ ہی رہتا ہے۔

مزید برآنکہ  اقوام متحدہ کی جانب سےکالعدم قرار دی جانے والی تنظیموں اور ان کے معاونین کے خلاف کریک ڈاون کے عمل کو ایف اےٹی ایف کی آئندہ ملاقات سے پہلے انجام دینے کی بابت حکام یہ اشارہ دے چکے ہیں کہ وہ غیرملکی کی کرنسی کی ترسیل کے نظام کی نگرانی کے قوانین کو مزید سخت کریں گے۔جب ترسیلات ِ زر اور مقامی سطح کے غیر ملکی کرنسی اکاونٹس کی نگرانی کے قوانین میں متوقع تبدیلیاں قانونی طور پر موثر ہوجائیں گی تو وہ مستقبل میں اپنے مقاصد کو واقعی پورا کریں گی۔ تاہم مختصر مدت کے لئے ان کی بدولت ترسیلاتِ زر میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ ایک تجویز کے مطابق ٹیکس میں استثنا اور ترسیلات ِ زر کے تسلسل کے متعلق جانچ پڑتال نہ کرنے کی پالیسی بتدریج ختم ہورہی ہے۔ اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے تجویز دی ہے کہ اس چھوٹ کی پالیسی کو ایسے معاملوں میں برقرار رکھاجائے جہاں سالانہ ترسیلات ِ زر10 ملین روپے سے زائد نہیں ہیں۔اسی طرح ایک دوسری تجویز زیر غور ہے جس کا مقصد ملک میں موجودہ غیر ملکی کرنسی کے اکاؤنٹس کو اوپن مارکیٹ سے کرنسی خرید کر بھرنے کے عمل کو روکنا ہے۔ اس اقدام سے مختصر مدت کے لیے غیر ملکی کرنسی کے اکاونٹس کی تعداد میں اضافے کی شرح کم ہوجائے گی جس کی وجہ سے بنکوں کے پاس غیر ملکی کرنسی کے ذخائر میں اضافہ تیزی سے نہیں ہوگا۔ جب حکام اکاونٹ ہولڈر سے غیر ملکی کرنسی کے اکاونٹس میں جمع کروائی جانے والی رقومات کا ذریعہ پوچھیں گے تو ممکن ہے کہ لوگ اوپن مارکیٹ سے غیر ملکی کرنسی خرید کر دیگر ذرائع میں چھپانے لگ جائیں ۔برآمدات اگرچہ دو ہندسی اضافے کی شرح سے بڑھ رہی ہیں تاہم درآمدات میں اضافہ اس رفتار سے بھی زیادہ ہے۔ درآمدات کی بڑھتی ہوئی شرح کو کم کرنے کی کوشش بشمول ریگولیٹری ڈیوٹیز عائد کرنے سے بھی اس معاملے میں کوئی زیادہ مدد نہیں ملی ۔ جولائی تا جنوری برآمدات کی شرح میں سال بہ سال 11 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ درآمدات میں اضافے کی شرح 19 فیصد ہے۔

تاہم پاکستان نے یورپی یونین سے جی ایس پی پلس پریفرنشیئل ٹیرف اسکیم میں مزید2 سال کی تجدید کروالی ہے۔ اس سے برآمدات کی شرح میں اضافہ کرنے میں معاونت مل سکتی ہے لیکن صرف اس اقدام سے درآمدات اور برآمدات کے مابین فرق کے سبب پیدا ہونے والے خسارے کو کم کرنا مشکل ہوگا۔ خاص طور پر ایسے حالات میں جبکہ تجارت کی ترجیحات مغرب سے مشرق میں منتقل ہورہی ہیں۔

حکومت نے آمدن اور خرچ میں موجود بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لئے بیرونی ذرائع لینے کی شرح بڑھا دی ہے۔ غیر ملکی بنکوں سے تجارتی قرض لینے کی شرح میں بھی اضافہ ہوچکا ہے۔پاکستان ایئرلائن اور اسٹیل مل کی نجکاری کے ارادوں پر بھی فی الحال خاموشی طاری ہے۔ایسی صورت میں حالیہ تجارتی خسارے سے نمٹنے کے لئے حکومت کو آئی ایم ایف سے بیل آوٹ مانگنا پڑے گا یا یورو بانڈز اور سکوک (شریعہ بانڈز) جاری کرنے کا نیا عمل شروع کرنا ہوگا۔

ان دنوں یہ سوال ایک ملین ڈالرز  مالیت کا ہے کہ موجودہ یا نگران حکومت جون میں مالیاتی سال کے اختتام تک تجارتی خسارے سے نمٹنے کا کیا طریقہ کار اپنائے گی؟

ترجمہ: شوذب عسکری بشکریہ ڈیلی ڈان

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...