کیا ترکی عفرین سے اپنی فوج واپس بلا لے گا؟
شام کا شہر عفرین ترکی کی سرحدسے ملحق شامی صوبہ کردستان میں واقع ہے اور کرد ملیشیاؤں کا گڑھ ہے،اس وقت شہر کے دونوں اطراف سے ترک افواج کی جانب سے شاخ زیتون آپریشن جاری ہے جبکہ ایک طرف سے ترک حمایت یافتہ شامی لبریشن آرمی عفرین میں پیش قدمی کر رہی ہے۔ عفرین کے کرد اس وقت تینوں اطراف سےمحاصرے میں ہیں اور صرف ایک جانب سے انہیں اسدی افواج سے کمک مل رہی ہے ،کردوں نے سرکاری افواج سے مدد طلب کی تھی تاکہ وہ ترک فضائیہ کے حملوں کو روک سکیں۔سوال یہ ہے کہ ترک افواج کو پڑوسی اسلامی ملک کے ایک ایسے صوبے پر جو کہ پہلے سے حالت جنگ میں تھا ،حملہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہ امر واقعہ ہے کہ ترکی شام میں اپوزیشن کی حمایت کر رہا ہے اور سرکاری افواج کے مقابلے میں لڑنے والی لبریشن آرمی ،الرحمٰن فورسز اور احرار الشام جیسی سنی باغی تنظیموں کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے ،اس کے باوجود کردوں کے خلاف چڑھائی کی کیا وجہ ہے جبکہ وہ سُنی بھی ہیں؟ اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں تھوڑا سا پیچھے جانا ہو گا۔
گزشتہ برس جب عراقی کردستان میں کردوں نے ریفرنڈم کروایا اور کردستان کی علیحدگی کا اکثریتی مطالبہ سامنے آیا تو اس سے خطے کے دوسرے ممالک میں آباد کردوں کو بھی تحریک ملی کہ وہ بھی اپنے لیے الگ وطن کے حصول کے لیے جدو جہد کریں،شامی کرد اس وقت داعش کے خلاف برسرپیکار تھے اور انہیں امریکہ کی مکمل حمایت حاصل تھی،شام میں داعش کی سرکوبی کے بعد کردوں کا اگلا ہدف گریٹر کردستان کے منصوبے کو عملی شکل دینا تھا جسے امریکہ کی آشیرباد بھی حاصل تھی،اور مشرق وسطی کا واحد ملک اسرائیل اعلانیہ طور پر کردوں کی حمایت کر رہا ہے تاکہ خطے کے مسلم ممالک آپس میں الجھے رہیں اور اس نئے تنازعے کے ابھرنے سے مسئلہ فلسطین پس پشت چلا جائے،ترکی اس حقیقت سے اچھی طرح آگاہ ہے اور اس نے کردوں کو منظم ہونے سے قبل ہی نئی جنگ میں دھکیل دیا تاکہ وہ سر نہ اٹھا سکیں،حالانکہ داعش کے خلاف جنگ میں کردوں کو ترکی کی حمایت بھی حاصل تھی۔اس صورتحال کے پیش نظر ترکی نے20 جنوری کو عفرین میں شاخ زیتون کے نام سے آپریشن شروع کیا اور کرد جنگجووں کو بھاری نقصان پہنچایا،جواب میں چند ترکی فوجی بھی مارے گئے۔عفرین میں کرد جنگجووں اور ترک فوج کے درمیان یہ جنگ تقریبا دو ماہ سے جاری ہے ، لیکن غوطہ میں روسی اور ایرانی تعاون سے ہونے والی خونی بمباری اور اس کے نتیجے میں ہزار سے زائد شہریوں کی ہلاکت اور سوشل میڈیا پر مظلوم و مقہور بچوں اور عورتوں کی وائرل ویڈیوز اور تصاویر کی وجہ سے عفرین کی صورتحال دب کر رہ گئی ہے،شامی کردوں نے ترک افواج اور ان کی حلیف باغی تنظیموں سے لڑنے کے لیے اپنے حریف بشارالاسد کی فوج سے بھی مدد طلب کر لی ہے تاکہ ترک افواج کی شام کی سرزمین پر پیش قدمی کو روکا جا سکے۔
دو ماہ میں ترک افواج عفرین کے صرف 20فیصد حصے پر کنٹرول حاصل کر پائی ہیں اور انہیں کردوں کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا ہے،طیب ارگان نے شاید شامی افواج کو ادلب اور غوطہ میں مصروف پا کر ادھر حملہ کیا تھا تاکہ کردوں کے منظم ہونے اور ترکی کے لیے خلفشار کا سبب بننے سے قبل ہی انہیں پیچھے دھکیلا جا سکے لیکن انہیں اندازہ نہیں تھا کہ اسدی فوج بھی ان کے مدمقابل آ سکتی ہیں،کردوں نے تین سال سے اسدی فوج کو بے دخل کیا ہوا تھا،کردوں کی درخواست پر بشارالاسد شروع میں ہی ایک فوجی دستہ ان کی مدد کے لیے بھیجنا چاہتے تھےلیکن روس کے دباو کی وجہ سے وہ ایسا نہ کر سکے،تاہم دوبارہ درخواست آنے پر انہوں نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اور عفرین کو دوبارہ اپنی عملداری میں لینے کے لیے سرکاری فوج اور فضائیہ کو عفرین بھیج دیا ہے جن کے ترک مخالف جنگ میں کردوں کے ساتھ شریک ہونے سے انہیں مزید حوصلہ ملا ہے جو کہ ترکی کے لیے غیر متوقع تھا۔جنگوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کسی بھی خطے میں عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا آسان نہیں ہوتا، جب جنگ عوام سے ہو تو اس کا طول پکڑنا یقینی ہوتا ہے کیونکہ عوام کسی بھی بین الاقوامی پابندی سے آزاد ہوتے ہیں،یہ سرکاری افواج ہی ہوتی ہیں جو سرنڈر کر جاتی ہیں،پندرہ سال سے افغانستان میں جاری امریکی جنگ (جو کہ آزاد جنگجووں کے ساتھ ہے)ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی اور امریکہ اس میں بری طرح پھنسا ہوا ہے ،سعودی اتحاد نے یمنی حوثیوں پر بھی چڑھائی کرتے ہوئے یہی کہا تھا کہ ہم چند دنوں میں آئینی حکومت بحال کر کے واپس آ جائیں گے لیکن تین سال کا عرصہ گزر چکا اور عرب اتحاد کو کوئی کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔یہ حال ترک فوج کا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ شامی کردستان میں پھنس کر رہ جائے ۔
ترکی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے پیشگی اقدامات کرے اور اپنی سالمیت کے لیے دشمن کو حملہ آور ہونے سے قبل ہی دبوچ لے ،اور ایک سرحد سے منسلک کردوں کو زیر کر کے دوسروں کو سبق سکھائے تاکہ وہ ایسا خیال اپنے دلوں سے نکال دیں لیکن یہ دشمن کوئی ایسا دشمن نہیں تھا جس کے خلاف پہلا اور آخری آپشن جنگ ہی ہو،آخر یہ وہی ترک ہیں جو داعش کے خلاف ترکی کے حلیف تھے،ان سے مذاکرات کر کے انہیں کوئی اور پرامن آپشن بھی دیا جا سکتا تھا،بہرحال جلد یا بہ دیر ترکی کو جنگ بندی کر کے مذاکرات کی میز پر آنا ہو گا، خاص طور پر سرکاری افواج کے میدان میں آنے سے ترکی کے لیے معاملہ اور بھی آسان ہو گیا ہے،کہ پہلے کرد جنگجووں پر مشتمل ایک عوامی گروہ سے مذاکرات کرنا یا اسے قائل کرنا مشکل تھا،اب اگر ترکی آپریشن کی وجہ سے ہی شامی کردستان کے علاقے پر سرکاری افواج کی عملداری قائم ہو جاتی ہے تو شامی حکومت ترک حکومت سے مذاکرات کے ذریعہ یہ معاملہ پرامن طور پر حل کر سکتی ہے،ترکی کو جلد از جلد اپنی افواج کو شام سے نکال لینا چاہیے اسی میں ترکی کی بھلائی ہے،یہی شام کے حق میں بہتر ہے اور اسی میں ہی کردوں اور تمام مسلمانوں کی خیرخواہی ہے۔
فیس بک پر تبصرے