متبادل بیانیہ ۔۔۔ایک  متنوع چیلنج!

1,123

حالیہ دنوں پاکستان میں بیانیہ بدلنے اور نیا بیانیہ تشکیل دینے کی بحث نے خاصا زور پکڑا ہے۔ پیغام پاکستان کے نام سے ایک متبادل بیانیہ سامنے بھی آیا ہے جس پر بڑی تعداد میں علماء نے دستخط کیے ہیں اور اس میں ہر قسم کی دہشت گردی اور عسکریت کی مذمت کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل باجوہ نے میونخ میں سیکورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ریاست کے بدلتے ہوئے بیانیے کے اہم نکات کی طرف اشارہ کیا تھا۔ پاکستان میں عسکری کارروائیوں کی غیرمشروط مذمت ضرور ہونی چاہیے اور ریاستی عملداری کے خلاف کسی بھی قسم کی متشدد مزاحمت کو کسی طور پر برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان میں تشدد کا رجحان پروان چڑھا اور اس کے تدارک کے لیے جہاں ابتدائی طور پر ریاست نے طاقت کا استعمال کیا تھا ،وہاں اب ریاستی ادارے تشدد اور انتہاپسندی کی نظریاتی جہتوں کو بھی شکست دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ تمام کوششیں اپنی جگہ خوش آئند ہیں مگر اس تحریر کا مقصد یہ ہے کہ ہم اس سارے معاملے کو سادہ و سہل فکری سے دیکھنے کے بجائے ایک ہمہ جہت اور متنوع چیلنج کے طور پر دیکھنے کی کوشش کریں۔

ہمارے معاشرے میں جس طرح کی انتہاپسندی اور تشدد کی روایت جڑ پکڑ چکی ہے اس کا تدارک محض اکیڈیمک نوعیت کے بیانیے کی تشکیل سے ہونا ممکن نہیں۔ تشدد اور انتہاپسندی کی طرف نوجوان اور خاص کر تعلیم یافتہ نوجوان کیوں مائل ہوتے ہیں؟ اس سوال کا جواب تفصیل طلب اور خاصی پیچیدہ تحلیل کا متقاضی ہے۔ تشدد کی نوعیت اور متشدد ذہن کے پروان چڑھنے اور اس کی ممکنہ وجوہات پر سوشل سائینسز کے ماہرین نے اپنے اپنے تخصص کے دائرہ کار میں خاصا کام کیا ہے۔ انتھراپالوجی، سوشیالوجی، سائیکالوجی، سیاسیات وغیرہ کے ماہرین نے ایک دوسرے کے تخصص سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انتہاپسندی کی نفسیات و وجوہات پر کئی جہتوں کو اجاگر کیا ہے۔ اس تحریر کا مقصد ان تفصیلات میں جانے کا نہیں ہے جن کی بنیاد پر سوشل سائینسز کے ماہرین نے انتہاپسندی کی تشخیص اور علاج تجویز کیے ہیں۔ البتہ یہ ضرور ہےکہ انتہاپسندی اور تشدد پر مبنی سوچ کے خاتمے کے لیے سہل فکری پر مشتمل متبادل بیانیے کی پالیسی کسی طور پر کافی و معاون نہیں۔

پاکستان کے ریاستی و حکومتی وسائل،جن میں “پاور اسٹریکچرز” میں شمولیت سب سے اہم اور قیمتی متاع سمجھی جاتی ہے، میں مناسب حد تک شراکت دیے بغیر تشدد پر مائل عناصر کو سرے سے ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔ آپ انتہاپسندی اور تشدد کی جو مرضی وجوہات متعین کرلیں مگر آخری تجزیے میں یہ ان محروم شدہ طبقات کا نامناسب اور قابل مذمت ردعمل ہے جو کسی نہ کسی وجہ سے پاور اسٹریکچرز، فیصلہ سازی اور ان سے متعلقہ فوائد سے محروم رہے ہیں۔ انتہا پسندانہ سوچ کی نرسری عام طور پر دینی مدارس اور اس سے وابستہ لوگوں کو قرار دیا جاتا ہے۔ گو کہ جب یہ سوچ پروان چڑھ جائے تو اس کی مقبولیت بوجوہ دیگر طبقات میں بھی اثرپذیر ہونا شروع ہوجاتی ہے جیسا کہ پاکستان کی بعض ایلیٹ جامعات کے طلباء کے درمیان پیدا ہونے والے شدت پسندانہ نظریات وغیرہ۔ مذہبی طبقے کے حوالے سےجہاں پر یہ سوچ بنیادی طور پر پروان چڑھتی ہے، یہ کہا جاتا ہے کہ ضیاء کے دور اور اس کے بعد اس طبقے کو بہت اہمیت و طاقت حاصل رہی۔ مدارس کی تعداد بڑھ گئی اور سعودی عرب و دیگر خلیجی ممالک سے بڑی فنڈنگ ہوئی۔ یہ باتیں اتنی عام ہوگئیں کہ کوئی بھی کتاب یا رپورٹ اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو انہی باتوں کی بازگشت سنائی دے گی۔

ہمارے خیال میں  مذہبی طبقے کے طاقتور اور مضبوط ہونے کی مذکورہ وجوہات  میں بہت ہی زیادہ مبالغہ ہے۔ گذشتہ کئی سالوں سے بتدریج مذہبی طبقے نے اپنے اثرورسوخ  کھو دیا ہے۔ آئین میں جو اسلامی دفعات ہیں اور قوانین کی اسلامیت کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ مکمل طور پر معطل ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ معاملات اب کسی سیاسی ڈسکورس کا حصہ ہی نہیں ہیں۔ مذہبی سیاست محض چند رمزی مسائل کا نام رہ گئی ہے جس میں ختم نبوت کا مسئلہ سرفہرست ہے۔مدارس کی تعداد اسی کی دہائی میں ضرور بڑھی ہوگی مگر جو مبالغہ آمیزی بیرون ملک سے فنڈنگ کے بارے میں کی جاتی ہے اس کا عشرعشیر بھی مدارس کو حاصل نہیں ہوتا۔ دیوبندی و اھل حدیث مکاتب فکر کے بڑے بڑے مدارس تقریباً مکمل طور پر مقامی وسائل سے چلتے ہیں اور جو لوگ اصل صورتحال سے واقف ہیں ان کے لیے یہ کوئی انکشافات نہیں ہیں۔

مذہبی طبقے کے طاقتور ہونے کا فسانہ اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے کہ مذہبی طبقے کے اندر محرومی کا احساس بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ وہ خود کو اس معاشرے اور ریاست کے نظام میں ایک اسٹیک ہولڈر سمجھتے ہیں مگر پاور اسٹرکچرز میں کسی بھی قابل ذکر حصے سے وہ مسلسل محروم ہیں۔ یہ درست ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور جماعت اسلامی کی صورت میں ان کا ایک سیاسی کردار اور حصہ موجود ہے مگر یہ قطعاً ناکافی ہے۔ ریاستی نظام کو چلانے والے دیگر اسٹیک ہولڈرز جن میں سیاستدان، فوج اور سویلین بیوروکریسی شامل ہیں، نے اس نظام میں اپنے لیے حصے مقرر کر رکھے ہیں۔ ان کی آپس میں مزید حصہ وصول کرنے کی لڑائی جاری رہتی ہے مگر اس سارے کھیل میں مذہبی طبقے کو یا تو بالکل فراموش کر دیا جاتا ہے یا پھر لولی پاپ پر ٹرخا دیا جاتا ہے۔

یہ سوال بھی اٹھایا جاتاہے کہ مذہبی طبقے کا مفید کردار ہے ہی کیا کہ ان کو باقاعدہ اسٹیک ہولڈر کے طور پر سیاستدانوں، فوج اور بیوروکریسی کے ساتھ شریک کیا جائے۔ اس کا جواب کئی جہتوں سے ممکن ہے۔ بنگلہ دیش، افغانستان اور کشمیر میں جو خدمات مذہبی طبقے سے ریاستی اداروں نے لی ہے (اس بحث سے قطع نظر کہ کیا ٹھیک تھا اور کیا غلط) اس کے نتیجے میں مذہبی طبقے کو ملا ہی کیا ہے؟ غالبا ً چند لوگوں کا مالی مفاد اور وہ بھی شرمناک حد تک مونگ پھلی کے دانے کی مانند ناقابل ذکرہے۔ اس سارے کو دیکھنے کا ایک سادہ سا طریقہ یہ ہے کہ آپ اسلام آباد، لاہور، کراچی اور پشاور میں جو بھی مہنگے ترین رہائشی اور کمرشل علاقے ہیں ان میں سروے کر لیں کہ مالکان جائیداد کی پروفائلز کیا ہیں؟ آپ کو سیاستدانوں، فوج کے ریٹائرڈ افسران اور بیوروکریٹس کی بیشمار پراپرٹی ملے گی۔ اس کے برعکس مذہبی لیڈرشپ اور ریاست کی خدمت کرنے والے ان کے ساتھیوں کی شائد ہی کوئی پراپرٹی ملے۔ ہزار گز اور اس سے اوپر کے بنگلے اور فارم ہاوسز اس ملک میں بالعموم کس کے ہیں؟ یہ صرف ایک مثال ہے ورنہ ہر میدان میں اور ہرسطح پر یہ محرومی موجود ہے۔ یہ وہ محرومی ہے جس کا روگ مذہبی حلقوں کے دل و دماغ میں شعوری و لاشعوری طور پر موجودہے۔

آپ ہزار بیانیے تشکیل دے دیں جب تک انہیں اپنے ساتھ بٹھا کر پاور اسٹرکچرز میں جائز حصہ نہیں دیں گے اس وقت تک یہ مسائل حل نہیں ہوں گے۔ آپ قوت سے انہیں دبا لیں گے تو وہ وقتی طور پر خاموش ہوجائیں گے مگر آپ کے نظام سے ان کی بیزاری ختم نہیں ہوگی۔ انہیں شامل کیے بغیر انہیں اس نظام کا محافظ بنانا ناممکن ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...