پاکستان میں متروکہ قوانین اور ورکنگ خواتین کی مشکلات

تحریر: زہرا انعم، ترجمہ : شوذب عسکری

951

اگرچہ قانون سازی کا ایک جامع عمل پاکستانی خواتین کی ملکی ورک فورس میں شمولیت کی حوصلہ افزائی کر رہا ہےتاہم  ابھی بھی  بہت سی پاکستانی خواتین برطانوی عہد کے متروکہ اور منسوخ قوانین میں موجود صنفی امتیازات کی وجہ سے بہت سے شعبوں میں شمولیت سے محروم ہیں۔ایک حالیہ سیمینار میں ایک محترمہ نے سوال کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ انہیں شپنگ پورٹ میں کام کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔انہوں نے مزید  دریافت کیا کہ اگر کوئی خاتون اس شعبے میں کام کرنا چاہے تو وہ انتظامیہ کے کون سے شعبے سے ان  قوانین میں تبدیلی کا کہے ؟  مزید تحقیق سے   معلوم ہوا کہ یہ قانونی شق جو خواتین کو شپنگ پورٹ میں کام کرنے سے روکتی ہے کبھی قانون کا حصہ تھی مگر اب یہ باقی نہیں رہی۔ سعدیہ خان ، جو کہ شپنگ کے کاروبار سے وابستہ ہیں ، بتاتی ہیں کہ جب وہ پاکستان لوٹ کر آئیں اور انہوں نے اپنا خاندانی کاروبار سنبھالا تو یہ شق ملکی قوانین کا حصہ تھی تاہم اب ایسا نہیں ہے ۔ کیونکہ اب پورٹ کے کاروبار کے لئے پاسسز کا اجرا خواتین کے لئے بھی ہے ۔ اس اجازت کو 12سال ہوگئے ہیں ۔

یہ مثال ایک اہم مگر ناگفتہ رکاوٹ کی جانب اشارہ کرتی ہے جس پر توجہ نہیں دی جاتی ۔ اگرچہ پاکستان میں ملکی قانون سازی اس طرز پر کی جارہی ہے  کہ خواتین کی ملکی ورک فورس میں شمولیت کی حوصلہ افزائی ہو سکے تاہم خواتین کو بسا اوقات ایسے متروکہ قوانین کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو انہیں  ورک فورس میں شمولیت سے روکتے ہیں ۔  گزشتہ دنوں” سنٹر آف ایکسلینس ان ریسپانسیبل بزنس”  اور ورلڈ بنک کے ممبر ادارے’’انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن کے اشتراک سے ” ڈرائیونگ اکنامک گروتھ تھر وومن ایمپلائمنٹ ان پاکستان ‘‘  کے نام سے ایک سیمینار  منعقد ہوا ۔  تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابقہ گورنر بنک دولت پاکستان ڈاکٹر شمشاد اختر کا کہنا تھا کہ اگرچہ اختیارات کی منتقلی نے صوبوں کو مزید بااختیار بنایا ہےتاہم اس کے نتیجے میں خواتین کا ورک فورس میں آسان داخلہ مزید مشکل ہوگیا ہے ۔ اگرچہ پاکستان کے پاس بنیادی آئینی ڈھانچہ موجود ہے مگر یہ بہت منتشر ہے ۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم نے اگرچہ صوبوں کو بااختیار بنایا ہے مگر خواتین کو کاروبار میں بااختیار بنانے  کے قوانین کے نفاذ کی کوششیں اس کے نتیجے میں متاثر ہوئی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ’’بالکل! یہ صوبے کو ترقی کی راہ پر لاتے ہوئے بااختیار بناتی ہے کہ وہ اپنی عورتوں کے مقدر کو خود سنوارے مگر مجھے لگتا ہے کہ ہمیں خواتین کی بہتری کے لئے مزید متحد کوششیں کرنا ہوں گی ۔ نہ صرف بعض آئینی شقیں اتنی گنجلک ہیں کہ پڑھی لکھی عورتیں بھی انہیں سمجھ نہیں سکتیں بلکہ ان میں سے بعض شقیں متروک اور منسوخ ہوچکی ہیں ۔ اس کا مطلب ہے کہ بہت سی پاکستانی کارکن خواتین اپنے حقوق سے واقف ہی نہیں کیونکہ ان میں شرح خواندگی مردوں کی ستر فیصد شرح خواندگی کے مقابلے میں بہت کم اڑتالیس فیصد ہے۔‘‘

عالمی سطح پر مردوں اور عورتوں کے درمیان کام کاج کی سہولیات میں موجود تقریق کو ختم کرنے کی کوششیں کرنے والے ممالک میں پاکستان حال ہی میں شامل ہوا ہے ۔ تاہم عالمی بنک کی دوہزار سولہ میں شائع ہونے والی وومن بزنس لارپورٹ میں درج اعداد وشمار کے مطابق پاکستان کی خواتین کی محض 26 فیصد تعداد ملکی ورک فورس میں شامل ہیں ۔ جبکہ ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2017 کے مطابق ’اپرچونٹی سب انڈکس‘ اور ’اکنامک پارٹی سیپیشن ‘ دونوں ہی کو ملا کر پاکستان 144 ممالک میں سے 143ویں نمبر پررہا ہے۔ورلڈ بینک کے وومن بزنس لاپروگرام سے وابستہ ایک سینیئر پرائیویٹ سیکٹر اسپیشلسٹ تازین حسن نےتقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ملک میں قانونی اصلاحات کی رفتار کو دیکھتے ہوئے کافی پرامید ہیں ۔ پچھلے 2 سالوں کے دوران 65 معیشتوں نے 94 قانونی اصلاحات کی ہیں ۔ ایک اور تحقیق کے مطابق 1960 تک کتابوں میں درج 50 فیصد قانونی شقیں جو کہ صنفی امتیازات پر مبنی تھیں، ان میں سے نصف کو سال 2010 تک ختم کردیا گیا ہے ۔تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک ایسے موثر نظام کی ضرورت ہے جس کےتحت اس رفتار کو برقرار رکھاجائے اور وہ تمام قانونی شقیں جو صنفی امتیازات پر مبنی ہیں ان کی نشاندہی ہوسکے اور ان کا خاتمہ کیا جا سکے ۔

ڈاکٹر شمشاد اختر کا کہنا تھا کہ جب ہم یہ دیکھنےکی کوشش کرتے ہیں کہ ملک میں کوٹہ سسٹم اور قانونی اصلاحات کے موثر نفاذ کی صورت کیا ہے تو پاکستان کو بہت پیچھے دیکھتے ہیں ۔ اسٹریٹیجک رفارمز یونٹ پنجاب کے ڈائرایکٹر جنرل سلمان صوفی نے یہ نقطہ اٹھا یا کہ ” مسائل ، قانونی اصلاحات کے نفاذ میں ہیں ۔”  یہ ادارہ قانون سازی کے علاوہ اس کے نفاذ کے نظام کو بھی تشکیل دینے کی کوشش کررہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہم پاکستا ن میں بہت سے اچھے قوانین بنا چکے ہیں مگر جب ان کے نفاذ کا معاملہ آتا ہے  تو ہم محض ایسے سیمینارز میں ہی ان پر بات چیت کرتے ہیں ۔ جب ہم قانون بنارہے ہیں تو یہ دیکھیں کہ ان کا نفاذ کیسے ہوگا ؟ کیا ہم  ان  اداروں کو سونپ دیں جو پہلے ہی ذمہ داریوں کے بوجھ تلے لدے ہیں  اور ہم انہیں نئے قوانین کے نفاذ کا کہیں  یا ہمیں چاہیئے کہ قانون سازی کے ہمراہ ان کے نفاذ کا نظام بھی وضع کریں ؟‘‘

تاہم قانونی اصلاحات کے نفاذ کا معاملہ ہو، ڈریکونیئن قوانین کو ختم کرنے کی بات ہو یا ان آئینی اصلاحات کے نفاذ میں درپیش مشکلات کا جائزہ ہو جو صنفی امتیازات کو ختم کرنے کی غرض سے بنائی گئی ہیں ، حقیقت یہی ہے کہ اگر عالمی معیارات کو سامنے رکھ کر جائزہ لیا جائے تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ خواتین کو دستیاب معاشی مواقع اور ان کی معیشت میں شمولیت کی شرح میں فاصلہ بڑھتا جارہا ہے۔ چاہے یہ فاصلے سماجی ہیں یا ضابطہ کاری ، ہمیں ایسے حالات ممکن بنانے ہیں جہاں خواتین کے ساتھ کام کاج کرنے کی جگہوں پر احترام سے برتاو کیا جائے ۔ یہ جملے یونائٹڈ بنک لمیٹڈ کی سی ای او سیما کامل نے کہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سب سے اہم یہ ہے کہ خاتون اپنے آپ کو محفوظ سمجھے ، اس کا احترام ہو، اس کا خیر مقدم کیا جائے اور اس کے کام کی قدر کی جائے ۔ اگر ہم ایسا ماحول بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ مسائل آہستہ آہستہ ختم ہوجائیں گے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...